اسرائیل کی بحری قزاقی اور بھارتی جارحیت
غزہ میں محصور فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لئے کینیڈا کے چھوٹے بحری جہاز زیتونہ/اولیویا کو اسرائیلی نیوی نے بین الاقوامی سمندری حدود سے اغوا کر لیا ہے۔ یہ اکیسویں صدی میں بحری قزاقی کی بدترین مثال ہے۔ اس بحری جہاز پر اسلحے کے نام پر ایک سوئی بھی موجود نہیں ہے۔اس پر حقوق انسانی کے لئے سرگرم خواتین سوار ہیں، جن میں سے کسی کا بھی کسی پُرتشدد گروہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس بحری جہاز پر موجود خواتین کی ٹیم لیڈر این رائٹ ہیں جو امریکہ کی سابق ڈپلومیٹ ہیں اور جنہیں اپنے شعبے میں اعلیٰ خدمات پر کئی ایوارڈ دیئے جا چکے ہیں۔ اُن کے ساتھ پارلیمینٹ کی تین ارکان خواتین ہیں۔ ایک اولمپک کی چمپئن ہیں اور امن کا نوبل انعام لینے والی مائریڈ میگوائر ہیں، جن کا تعلق آئر لینڈ سے ہے۔ فارما ڈیوڈسن، نیوزی لینڈ سے ہیں۔ جینیٹ الیسکا نیلا سویڈن سے ہیں۔ سمیرا صنعائفہ الجیرین ہیں۔ ساؤتھ افریقہ سے لیہہ این ہی، میڈلن جیب کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔ ہدیٰ رحمی روس سے، ڈاکٹر فوزیہ حسن ملائیشیا سے، برطانیہ سے منیٰ ہربول ہیں۔ سپین سے ساندرا بلار یلدرو ہیں۔ سِن سوفی رکسٹن ناروے سے اور اِما رنگوسٹ سویڈن سے ہیں۔ ان میں منیٰ ہربولا ’’الجزیرہ‘‘ ٹی وی کی نمائندہ اور ہدیٰ رحمی کیمرہ وومن ہیں۔ یہ سب خواتین پختہ عمر، بلکہ عمر رسیدہ ہیں، سوائے ناروے کی سِن سوفی جو طالبہ ہیں۔
گزشتہ روز سہ پہر کو اچانک زیتونیہ سے مواصلاتی رابطہ منقطع ہو گیا۔ بعد میں اسرائیلی اخبار ’’حارث‘‘ نے تصدیق کر دی کہ بحری جہازپر اسرائیلی نیوی نے قبضہ کر کے اس کا رُخ اسرائیلی بندرگاہ اشدوو کی طرف پھیر دیا ہے، جس وقت زیتونیہ پر اسرائیل نے قبضہ کیا۔ عین اُسی وقت غزہ پر اسرائیلی جہاز بمباری کر رہے تھے۔ اس وقت مائریڈ میگوائر نے جو آخری پیغام دیا ،اُس میں کہا گیا: ’’ہم دُنیا کے لوگ ہیں(کسی ایک مُلک سے تعلق نہیں ہے) ہمیں غزہ میں اپنے بھائیوں اور بہنوں سے ملنے دیا جائے، ہمیں روکا نہ جائے، ہم اُس وقت تک غزہ کے لوگوں اور فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھیں گے، جب تک اُنہیں اُن کی آزادی اور حقوق نہیں مل جاتے‘‘۔۔۔اپنا پیغام جاری رکھتے ہوئے مائریڈ میگوائر نے مزید کہا : ’’کسی مُلک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اتنے سارے لوگوں کو بین الاقوامی قانون کے خلاف اجتماعی سزا دے۔2011ء میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے پانچ خصوصی نمائندوں نے غزہ کو محصور کرنے کو غیر قانونی قرار دیا تھا، تب سے آج تک صورتِ حال میں کوئی بہتری نہیں آئی، بلکہ یہ محاصرہ بدتر سے بدترین صورت اختیار کر چکا ہے۔ ہم اہلِ فلسطین اور غزہ کے لوگوں کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، تاکہ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکہ میں بین الاقوامی برادری کو متوجہ کر سکیں اور انہیں بتا سکیں کہ یہ دُنیا کے ہر فرد بشر کی ذمہ داری ہے کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی کو ختم کرے، فلسطینیوں کی آزادی اور ان لوگوں کی بلا روک سفر کرنے کو ممکن بنانے کے لئے جدوجہد کریں‘‘۔
بہت سی تنظیمیں اسرائیلی قزاقی کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کر رہی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری، صدر باراک اوباما اور اسرائیلی حکام کو فون اور ای میلز کے ذریعے جہاں زیتونیہ کو آزاد کرانے کے لئے مطالبہ کیا جا رہا ہے، وہاں اصل مسئلے ، یعنی غزہ کی غیر انسانی ناکہ بندی کے خاتمے کے لئے مطالبہ ہو رہا ہے۔ امریکن مسلم فار فلسطین نے اسرائیل کی اس قزاقی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ امریکی صدر باراک اوباما اور وزیر خارجہ جان کیری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کر کے اسرائیل کو ان خواتین کی سلامتی کے لئے ذمہ دار ٹھہرائیں۔فلسطینیوں کی حمایت کے لئے کام کرنے والی امریکن مسلم تنظیم ’’آگاہی اور عمل‘‘ کے ذریعے فلسطینیوں کے حقوق کے لئے سرگرم رہتی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ عالمی برادری غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی کو غیر قانونی تصور کرتی ہے اور اس ناکہ بندی کو توڑنا چاہتی تاکہ غزہ کے محصورین کو زندگی کی امید سے مزین کریں اور انہیں ضرورت کی تمام اشیاء کی رسائی کے لئے راستہ کھل سکے۔ ستم تو یہ ہے کہ غزہ کی پٹی پر آباد ایک کروڑ 80لاکھ فلسطینی2006ء سے محصور چلے آ رہے ہیں۔ اسرائیل کی اِس ناکہ بندی میں جنرل مفتاح سیسی کا مصر بھی شامل ہے۔ مصر میں جمہوری طور پر منتخب صدر محمد مرسی کے دور میں غزہ کے محصورین کے لئے مصر کے راستے سامانِ حیات کی رسائی کسی قدر ممکن ہو گئی تھی، لیکن مصر میں منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور فوجی ڈکیٹر کے آنے سے مصر کی طرف سے بھی غزہ کے فلسطینیوں کی ناکہ بندی کر دی گئی ہے۔
اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کو پامال کرنے کا یہ اقدام پہلی بار نہیں کیا ہے۔ 2015ء میں ایک ایسی ہی کوشش کی گئی تھی اور ایک بحری جہازمحصور فلسطینیوں کے لئے خوراک، بچوں کے لئے دودھ، بسکٹ، ادویات وغیرہ لے کر گیا تھا۔ اس جہاز میں تیونس کے سابق صدر ڈاکٹر محمد المنصف المرزوقی بھی تھے اور پاکستان کے صحافی اور اینکر پرسن طلعت حسین بھی شامل تھے۔ اس بحری جہاز کی سواریوں میں اسرائیلی پارلیمینٹ کے فلسطینی رُکن باسل غطاس بھی تھے۔ اس جہاز کے خلاف تو اسرائیلی نیوی نے وحشیانہ طاقت کا استعمال کیا تھا، حتیٰ کہ ان پر گولی تک چلا دی گئی تھی۔ شرکاء کو مارا پیٹا بھی گیا تھا۔ 2010ء میں غزہ فریڈم فلوٹیلا کا وحشیانہ سانحہ بھی اسرائیل کی لاقانونیت اور وحشت کی ایک مثال ہے۔ اس وقت بھی اسرائیل کی سمندری حدود کی بجائے بین الاقوامی حدود میں چھ سویلین بحری جہازوں پر اسرائیلی نیوی نے باقاعدہ حملہ کیا تھا اور انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے 9 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس فلوٹیلا کا اہتمام’’غزہ کو آزاد کرو‘‘ تحریک اور ترکی کی انسانی حقوق کی فاؤنڈیشن(آئی ایچ ایچ) نے کیا تھا اور انسانی ضروریات کی اشیا پہنچانے کی کوشش کی تھی، لیکن انہیں بھی غزہ تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا تھا۔ اُلٹا اسرائیل نے اسے میڈیا کی پھیلائی ہوئی اشتعال انگیزی قرار دیا تھا۔ اس بحری جہاز پر تیز رفتار بوٹس اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اسرائیلی کمانڈوز کو اُتارا گیا تھا جو زبردستی جہاز کو اشدود کی بندرگاہ پر لے گئے تھے۔ اسرائیل نے الزام لگایا تھا کہ ترک انسانی حقوق فاؤنڈیشن کے ارکان نے مزاحمت کی تھی،اور سریوں اور چاقوؤں سے مسلح تھے۔ مرنے والے نو افراد میں سے آٹھ ترک، جبکہ ایک امریکی ترک بھی شامل تھا، جبکہ ایک شخص چار سال تک کومے میں رہنے کے بعد وفات پا گیا تھا۔ اس واقعے سے اسرائیل اور ترکی کے تعلقات میں تلخی آ گئی تھی۔
کیا یہ بات کوئی معنی رکھتی ہے کہ بھارت کشمیر میں اور اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف جو کچھ کر رہا ہے ، وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے یکساں ہے۔بھارت اور اسرائیل دونوں امریکہ کے چہیتے ہیں۔ اسرائیل قدیم چہیتا ہے ، بھارت کو یہ مقام حال ہی میں نصیب ہوا ہے۔ اسرائیل اپنی پیدائش سے امریکہ کی دُنیا بھر میں سب سے زیادہ امداد حاصل کرنے والے والا مُلک ہے اور اس کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکہ کو کبھی غصہ نہیں آیا۔ بھارت نے سرد جنگ کے دور میں ہمیشہ اپنا مقام امریکہ مخالف صفوں میں برقرار رکھا اور امریکی مفادات کے خلاف کام کیا۔ امریکہ دُنیا بھر میں کہیں بھی انسانی حقوق کی پامالی پر آواز اُٹھانا اپنا حق سمجھتا ہے۔ آج کل اپنے قدیم ماتحت فلپائن سے اِس بات پر ٹھنی ہوئی ہے کہ فلپائن کا صدر اپنے مُلک کے نشہ بازوں کو گولی مار دینے کو ضروری خیال کرتا ہے،جبکہ امریکہ جیسے انسانی ہمدردی کے مارے مُلک کو یہ ہر گز گوارا نہیں ہے کہ کوئی ملک اپنے مُلک کے اندر نشہ بازوں کو گولی مار دے، البتہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج کو نہتے اور مظلوم کشمیریوں کو مارنے، جلانے، ریپ کرنے کے اختیارات سے مسلح ہو کر مسلط کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ آزادی کا حق مانگنے والوں پر گولیاں چلا کر سو سے زیادہ کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے، سو کے قریب افراد کو اندھاکر دینے اور کئی ہزار کو شدید زخمی کرنے پر امریکہ کو صرف اس قدر تکلیف ہوتی ہے کہ وہ دونوں ممالک پر مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے پر زور دے کر انسانی حقوق سے بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ یہاں مجھے امریکی سیاہ فاموں کا نعرہ یاد آتا ہے جو خود گوری اکثریت کے ظلم کا شکار ہیں، خاص طور پر گورے پولیس والوں کے لئے انہیں مارتے رہنا، پولیس کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ یہ سیاہ فام ،جو آج کل سیاہ فاموں کی زندگی کی بھی بے وُقعت ہے ۔۔۔’’Black's Lives Matter‘‘ کا نعرہ بھی لگا رہے ہیں،لیکن ان کا قدیم نعرہ ہے ’’No justice No Peace‘‘ ۔۔۔ ’’انصاف نہ ہو تو امن نہیں ہو سکتا‘‘۔ کشمیر سے فلسطین تک اور امریکہ کی شاہراہوں اور گلیوں تک یہ ایک حقیقت ہے کہ انصاف نہیں ہو گا تو امن کا خواب دیکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔