ایس۔400 رشین میزائل شکن نظام (2)
کل کے کالم میں ایس۔400 میزائل ڈیفنس سسٹم کے چند تعارفی پہلوؤں کا ذکر کیا گیا تھا۔ اب تک جنوبی ایشیا کے کسی بھی اور ملک کے پاس یہ سسٹم موجود نہیں تھا۔ اس لئے جب انڈیا نے اسے روس سے خریدا ہے تو لازمی طور پر پاکستان نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ تشویش کس پیمانے کی ہے، کیا پاکستان بھی انڈیا کی طرح یہ سسٹم خرید کر روائتی ہتھیاروں کا انڈو پاک توازن برقرار رکھ سکتا ہے اور اگر نہیں تو پاکستان کی آپشنز کیا ہیں۔۔۔ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق انہی سوالوں کا جواب دینے کے لئے یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں۔
ایس۔400سسٹم، 2020ء تک انڈیا پہنچنا شروع ہو جائے گا۔ اس ڈیل کی مالیت 5.4 ارب ڈالر ہے۔ انڈیا اس دفاعی نظام کی دس بٹالینیں خرید رہا ہے۔ ہر بٹالین میں 8لانچرز، 112 میزائل اور کمانڈ، ریڈار اور سسٹم کو سپورٹ کرنے والی دوسری گاڑیاں شامل ہیں۔ یہ گاڑیاں یا ٹرک دیوہیکل حجم اور پیمانے کے ہیں۔ ایک ٹرک پر دو لانچرز نصب ہوتے ہیں۔ اگر لانچرز کی تعداد 8ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے لئے 4گاڑیاں ہوں گی۔ لیکن ایک گاڑی پر دو سے زیادہ تین یا چار لانچرز بھی نصب کئے جا سکتے ہیں۔ اس حساب سے 112میزائلوں کا مطلب یہ ہے کہ ایک بٹالین میں 8لانچرز کے اندر فی لانچر14،14میزائل ہوں گے جو بیک وقت یا وقفے وقفے سے فائر کئے جا سکتے ہیں۔ اگر دس بٹالینیں ہوں تو ان میں 1120میزائل ہوں گے جو انڈیا کے طول و عرض میں مختلف مقامات پر ڈیپلائے کئے جائیں گے۔
ان کی صف بندی کا پلان انڈیا کے زیر غور ہو گا۔ اس پلان کو دیکھ کر کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور لگایا جا سکے گا کہ اس سسٹم کے میزائل شکن میزائل کس ملک کے خلاف ترازو کئے جائیں گے۔
جہاں تک چین کا تعلق ہے تو انڈیا، چین کا مقابلہ تو نہیں کر سکتا۔ چین نے دو سال قبل یہی سسٹم روس سے خریدا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چین اور روس دونوں نے یہ سسٹم ناٹو ممالک کے خلاف صف بند کئے ہوں گے کہ ان کے اصل حریف امریکہ اور مغربی یورپی ممالک ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں بھی یہ سسٹم شام میں صف بند کیا جا چکا ہے۔ البتہ یہ ایس۔300 یعنی ایس۔400کا ایک نسل پرانا ورشن ہے۔ تاہم بنیادی اجزائے ترکیبی تو وہی ہوں گے جو ایس۔400 میں زیادہ ریفائن کرکے لگائے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں روس اس سسٹم کی پانچویں نسل پر بھی کام کر رہا ہے اور ایس۔500کی تیاریوں کے مراحل تقریباً مکمل ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب، ترکی اور قطر نے بھی اس سسٹم کی خریداری کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔
لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جب چین نے یہ سسٹم خریدا تو امریکہ نے اس پر تجارتی پابندیاں لگا کر یہ ظاہر کیا کہ وہ چین کو اس سسٹم کے حصول کی سزا دے رہا ہے۔ اس نے ترکی کے ساتھ بھی یہی کیا اور ترک۔ امریکہ تعلقات میں کشیدگی کی اصل وجہ یہی سسٹم تھا۔ لیکن جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے تو امریکہ اس سے ’ہر گز‘ ناراض نہیں ہوا۔
کچھ دنوں پہلے جب امریکی وزرائے خارجہ و دفاع نئی دہلی گئے تھے اور وہاں انڈین ہم منصبوں سے بات کی تھی تو اس ملاقات کو 2+2 کا نام دیا گیا تھا۔ اس ملاقات میں انڈیا نے صاف صاف بتا دیا تھا کہ وہ روس سے یہ ایس۔400سسٹم بھی خریدے گا اور ایران سے تیل بھی ۔ امریکہ نے ’بخوشی‘ انڈیا کو یہ رعائت عنائت کر دی جس کو اصطلاح میں Waiverکہا جاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا نے بڑی چالاکی کے ساتھ اپنے کارڈ کھیلے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ اس خطے میں کوئی اور ملک ایسا نہیں جو چین کا (اچھا یا بُرا) مقابلہ کر سکے۔ اس لئے انڈیا کو ناراض نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ چین کے خلاف انڈیا، امریکہ کی پہلی دفاعی لائن ہے۔
ایک اور وجہ جو اس رعایت (Waiver)کو ’عطا‘ کرنے کی بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ روس کے اس انتہائی جدید میزائل شکن سسٹم کی سٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی کے راز معلوم کرنا چاہتا ہے۔ گوکہ امریکہ کے اپنے دفاعی سسٹم (جن کا نام THAAD اور Pattriotہیں، وہ بھی دشمن کے میزائل حملوں کے دفاع کے لئے بنائے گئے ہیں لیکن ان کی اور ایس۔400 کی کارکردگی میں بہت فرق ہے۔) اس لئے امریکہ شاید یہ امید رکھتا ہے کہ وہ انڈیا کی طرف سے خریدے ہوئے اس سسٹم کی ٹیکنالوجی تک رسائی پا سکتا ہے۔
دنیا کی تمام بڑی فوجی قوتیں صدیوں سے ایسا کرتی آئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی انوکھا ہتھیار ایجاد ہو جاتا ہے تو اس کو زیادہ دیر تک پوشیدہ نہیں رکھا جا سکتا۔1945ء میں امریکہ نے جاپان پر پہلا جوہری حملہ کیا تو دنیا حیران پریشان اور لرزہ براندام ہو گئی۔ لیکن صرف 4برس کے اندر روس نے بھی جوہری دھماکہ کرکے حساب برابر کر دیا۔ اسی طرح جب انڈیا نے مئی 1998ء میں 5جوہری دھماکے کئے تو پاکستان جیسے چھوٹے ملک نے بھی اسی مہینے (مئی 1998ء میں) 6دھماکے کرکے نہلے پہ دہلا مار دیا۔۔۔ اور تو اور شمالی کوریا جیسے ’ملنگ‘ ملک نے نہ صرف جوہری دھماکے کئے بلکہ بین البراعظمی میزائل بھی بنا کر امریکہ کو للکارا کہ وہ جب چاہے اس پر براہِ راست حملہ کر سکتا ہے۔
اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی نیا ہتھیار ایجاد ہوتا ہے تو اس کا توڑ بھی ساتھ ہی یا کچھ عرصہ بعد دریافت ہوجاتا ہے۔ البتہ صرف جوہری بم ایک ایسا ہتھیار تھا جس کا توڑ ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا تھا لیکن اب اس ایس۔400 کی ایجاد نے یہ عقدہ بھی حل کر دیا ہے۔ دیکھئے ناں اگر آپ صاحبِ بم ہیں تو اس کو حریف تک پہنچانے کیلئے آپ کوئی تو ڈلیوری سسٹم استعمال کریں گے۔ جو ڈلیوری سسٹم اب تک ایجاد یا دریافت ہو چکے ہیں ان میں صرف دو سسٹم کارگر ہیں۔ ایک بذریعہ طیارہ (یا بذریعہ لانگ رینج آرٹلری) اور دوسرا بذریعہ میزائل جو گراؤنڈ، زیرِ آب اور خلا سے پھینکا جا سکتا ہے۔۔۔ ان کے علاوہ کوئی ایسا سسٹم موجود نہیں کہ جس کے ذریعے کسی جوہری بم کو حریف پر پھینکا جا سکے۔۔۔ اب اس ایس۔400نے طیاروں، میزائلوں اور ڈرونوں سے ڈلیوری وہیکلز کا یہ ’اعزاز‘ بھی چھین لیا ہے۔ اب اگر کوئی حملہ آور اپنے غول کے غول طیارے اور میزائل بھیج کر آپ پر جوہری حملہ کرے تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ فوجی اصطلاح میں کامیاب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کو مارا جائے اور خود کو بچایا جائے۔لیکن کوئی بھی جوہری ملک، ایس۔400کی موجودگی میں ’باہمی خود کشی‘ کا کھیل نہیں کھیل سکتا۔
ہم پاکستان کی بات کررہے تھے۔۔۔
اس ضمن میں جو سوال ذہن میں آتے ہیں وہ اوپر عرض کر چکا ہوں ۔یعنی اول یہ کہ آیا پاکستان یہ سسٹم خرید کر حساب برابر کر سکتا ہے؟۔۔۔ دوم یہ کہ اگر نہیں کر سکتا تو اس کے پاس متبادل آپشنز کیا ہیں؟ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ آج پاکستان جس مالی بحران کا شکار ہے اس کے پیش نظر اس سسٹم کو خریدنے کی حماقت نہیں کی جا سکتی۔ اگر ہم بھی آج صدر پوٹن کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دیں اور کہیں کہ ہم بھی ایس۔400کی 10بٹالینیں خریدنا چاہتے ہیں تو کیا ہمارے کھیسے میں ساڑھے پانچ ارب ڈالر ہوں گے؟۔۔۔ آج کی کرنسی میں ایک ڈالر 128روپے کا ہو چکا ہے۔ ذرا کیلکولیٹر اٹھایئے اور ساڑھ پانچ ارب کو 128سے ضرب دیجئے تو حاصل ضرب 704000000000آئے گا۔ اس کو ہندسوں کی بجائے عبارت میں لکھیں تو سات کھرب چار ارب روپے جواب آئے گا!۔۔۔ اور تازہ ترین خبروں کے مطابق ایک ڈالر 140روپے کا ہو چکا ہے۔ اس لئے دوسری آپشنز پر غور کرتے ہیں۔
انڈیا یہ سسٹم بظاہر چین کے خلاف خرید رہا ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ 71برسوں میں آج تک انڈیا نے اگر چار جنگیں لڑی ہیں تو پاکستان کے خلاف لڑی ہیں۔ چین کے خلاف صرف ایک ماہ کی جنگ لڑنے کی جرات کی تھی اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہی تھی۔اس لئے پاکستان کی یہ تشویش بجا ہے کہ انڈیا نام تو چین کا لے رہا ہے لیکن اسے پاکستان کے خلاف ہی استعمال کرے گا۔ پاکستان نے آج ہی غوری ٹریننگ میزائل کا ایک اور تجربہ کیا ہے جس کی رینج 1300کلومیٹر ہے۔ دونوں ممالک کے پاس کئی قسموں اور کئی ناموں کے میزائل اور بھی موجود ہیں جو روائتی جنگ اور جوہری جنگ دونوں میں استعمال کئے جا سکتے ہیں۔
انڈیا ایک بڑا ملک ضرور ہے لیکن اس کے پاس ایسا کوئی ہلکا یا بھاری ہتھیار نہیں جو پاکستان کے پاس موجود نہ ہو۔ تعداد یقیناً انڈیا کے حق میں ہے۔ لیکن پھر بھی پاکستان کے پاس ایک خاص حد تک کا ڈیٹرنس موجود ہے۔ آئندہ کبھی جنگ ہوئی تو اس کا آغاز لازماً روائتی جنگ سے ہو گا۔ پاکستان یا انڈیا چھوٹتے ہی تو ایٹم بم نہیں چلادیں گے۔ ہاں جب روائتی ’دانے‘ ختم ہو جائیں گے تو جوہری ’دانوں‘ کی باری آئے گی۔ جس کسی کے پاس روائتی دانے زیادہ ہوں گے اس کو خبردار رہنا چاہیے کہ اس کا حریف جلد ہی جوہری دانوں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو جائے گا۔پاکستان اور انڈیا کے درمیان چونکہ کوئی خاص زمینی یا فضائی فاصلہ نہیں اس لئے جوہری Dual شروع ہو گا تو زیادہ سے زیادہ ایک دو گھنٹوں میں دونوں کا صفایا ہو جائے گا۔
رہا یہ سوال کہ روس ایک بار پھر انڈیا کی طرف مائل ہو رہا ہے اور وہ بھی پاکستان کی قیمت پر۔۔۔ تو ایسا سوچنا فضول ہے۔ ہر ملک کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں جو اس کے سود و زیاں پر اساس رکھتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے روس اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ دونوں مل کر جنگی مشقیں کرتے رہے ہیں۔ ہماری بحریہ کا ایک جہاز، روسی بندرگاہ پر کال آن بھی کر چکا ہے اور روس نے پاکستان میں کچھ نہ کچھ پیمانے پر سرمایہ کاری کا عندیہ بھی دیا ہے۔ لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ دینے والا ہاتھ ہمیشہ اوپر اور لینے والا ہمیشہ نیچے ہوتا ہے۔ ہمارے پاس روس کو دینے کے لئے کیا ہے؟۔۔۔ بلکہ کسی دوسرے ملک کو بھی دینے کے لئے کچھ نہیں۔
چین ہمارا دوست اور مربی ملک ہے۔ آج کل چین اور روس کے تعلقات بھی بہتر ہیں۔ لیکن کیا ہم نے سوچا ہے کہ انڈیا اور چائنا کی باہمی تجارت کا حجم کیا ہے؟ چین کے پاکستان کے ساتھ سٹرٹیجک نوعیت کے تعلقات ہیں جن کو پاکستان ایکسپلائٹ نہیں کر سکا۔ یہ ہماری سویلین قیادت کی ناکامی اور نااہلی ہے۔ صرف بیانات داغنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
پاکستان، چین سے درخواست کر سکتا ہے کہ وہ روس کے ساتھ مل کر پاکستان کو ایس۔400 کے امکانی خطرات سے بچائے۔ بہترین آپشن یہ ہو گی کہ روس اور چین مل کر انڈیا پر دباؤ ڈالیں کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرے۔ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو گا ہم پاکستانی اسی پر فوکس رہیں گے۔ لیکن کشمیر کو فوکل پوائنٹ بنا کر ہم نے پہلے کون سا تیر مار لیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں فلسطین اور جنوبی ایشیاء میں کشمیر دونوں، مسلمانوں کی بہت سی توانائیوں کو گھن کی طرح کھائے جا رہے ہیں۔ پاکستانیوں کے اعصاب پر کشمیر سوار ہے۔ میں نہیں کہہ رہا ہے کہ اس مسئلے کو بھلا دیں یا بیک برنر پر ڈال دیں لیکن اس کا حل نکالنے کے لئے پروایکٹو کاوشیں ضروری ہیں۔انڈیا کے ساتھ چین اور روس کے تجارتی مفادات ہر نیا دن گزرنے کے بعد زیادہ دیرپا ہوتے جا رہے ہیں اور دوسری طرف ہم نے برسوں سے کشمیر کمیٹی کو مولاناؤں کے سپرد کیا ہوا تھا۔ ان کو کیا پتہ کہ بین الاقوامی اور سٹرٹیجک سٹیک (Stakes) کیا ہوتے ہیں! پی ٹی آئی کو چاہیے کہ اب کسی فعال اور جارح مزاج والی شخصیت کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کرے، ایک فائنل مقصود (Objective) اس کے سپرد کرے اور خواہ مخواہ جذباتی فضاؤں میں پرواز کرنے سے گریز کرے۔ ہماری عسکری قیادت بھی وابستہ بہ کشمیر (Kashmir Specific) ہو چکی ہے۔ اس کو بھی اپنا زاویہ ء نظر بدلنے کی ضرورت ہے۔ مقصود نہ بدلیں لیکن اس کے حصول کی SOPsپر تو از سر نو غور کیا جا سکتا ہے۔(ختم شد)