شہباز شریف کی گرفتاری پر سینٹ میں گرما گرمی، اپوزیشن کا واک آؤٹ!
اسلام آباد سے ملک الیاس
وفاقی دارالحکومت میں سیاسی ماحول ان دنوں گرم ہے سینٹ کا جاری اجلاس پیر کے روز بھی ہنگامہ آرائی کی لپیٹ میں رہا ایوان میں حکومت اوراپوزیشن دونوں اطراف سے تندوتیز جملوں کا تبادلہ ہوا ،مسلم لیگ (ن) اور اسکی اتحادی جماعتوں نے شہباز شریف کی گرفتار ی کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا،اپوزیشن رہنماؤں سینیٹرز راجہ ظفر الحق،جاوید عباسی، جہانزیب جمالدینی ،عثمان خان کاکڑ و دیگر کاکہنا تھا کہ نیب نے وزیراعظم اور غیر جمہوری قوتوں کے کہنے پر شہباز شریف کو گرفتار کیا،ادارے پارلیمان پر حاوی ہونے کی کوشش کر رہے ہیں،اداروں کے درمیان کھینچا تانی کے بھیانک نتائج نکلیں گے،حکومت نے اپنی نا کامی اور مہنگائی کے طوفان سے توجہ ہٹانے کیلئے شہباز شریف کو گرفتار کیا ، ملک کی ترقی کیلئے کام کرنا جرم بن گیا ہے،حکومت اور نیب کا گٹھ جوڑ منظور نہیں ، ملک میں فرمائشی احتساب نہیں چلے گا ،حکومت نے اب تک صرف بھینسیں اور ناکارہ گاڑیاں بیچی ہیں، گناہ گاروں سے لے کر پارساؤں تک سب کا احتساب ہونا چاہیے،وزیراعظم ہٹلر جیسی تقریر کر رہے ہیں، خیبرپختونخوا میں کرپشن کی نشاندہی بھی ہوئی تو وزیراعظم نے کتنے وزراء کو لٹکایا اور پھانسی دی،شہباز شریف کی پیشی پر احتجاج کی کال دئیے بغیر لوگ جمع ہوئے، اگرہم نے احتجاج کی کال دے دی تو پورا ملک مفلوج ہو جائے گا،عوام ذہین ہے انہیں بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا، وقت آ گیا ہے کہ عوام کو گمراہ کیا جانا بند کیا جائے، شہباز شریف کی گرفتار ی پر پورے ایوان کی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں چیئرمین نیب کو طلب کیا جائے،سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے شہباز شریف کی گرفتار ی پر بحث میں سینیٹرز کی بجائے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو بات کرنیکا موقع دئیے جانے پر شدید احتجاج اورایوان سے واک آؤٹ کیا، چیئرمین سینیٹ نے اپوزیشن کو منانے کیلئے فواد چوہدری کو بھی بھیجا تاہم اپوزیشن واپس ایوان میں نہ آئی،دوسری جانب سینیٹ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر مولانا عطاء الرحمان کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے غیرپارلیمانی زبان استعمال کرنے اورانہیں مختلف القابات دینے پر حکومتی وزراء اور سینیٹرز نے شدید احتجاج کیا اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا، سینیٹر مولانا عطاء الرحمان کاکہنا تھاکہ حکومت نے دھمکیاں دینی ہیں تو بھارت کو دے ہمیں نہیں ، ہم ان کی دھمکیوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں،لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران عمران خان وزیر اعظم نہیں لگ رہے تھے۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے وزیر اعظم کیخلاف استعمال کئے گئے الفاظ ایوان کی کارروائی سے حذف کرادیے ،صادق سنجرانی کاکہنا تھا مولانا صاحب ایوان کا ماحول خراب نہ کریں،اپنے الفاظ پر ایوان سے معافی مانگیں جس پر سینیٹر مولانا عطاء الرحمان نے کہایہ لوگ ملک کا ماحول خراب کر رہے ہیں،پہلے انہیں روکیں،عمران خان اپنی دھمکیاں واپس لے لیں میں اپنے الفاظ واپس لے لوں گا۔ایوان سے معافی نہ مانگنے پر حکومتی سینیٹر ز نے بھی شدید احتجاج کیا انکا کہناتھا جب حکومت کی جانب سے کچھ ہو جائے تو ہم سے معافی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اگر اپوزیشن کی جانب سے وہی کچھ ہو تو ایوان کی کارروائی سے وہ الفاظ حذف کر کے بات ختم کردی جاتی ہے جو ہمارے ساتھ زیادتی ہے۔بعدازاں پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کاکہنا تھا کہ کہ اگلے 3 سے 6ماہ میں معیشت کے حوالے سے اچھی خوشخبریاں ملیں گی ،سینیٹرز کی جانب سے افواج پر تنقید کو برداشت نہیں کریں گے، حکومت نے چوری کا پیسہ واپس لانا ہے اور اداروں میں اصلاحات بھی لانی ہیں، اگر نیب کے اوپر عمران خان کا کنٹرول ہوتا تو اب تک تقریریں کرنے والے آدھے لوگ اپنے ریمانڈ بھگت رہے ہوتے،اپوزیشن جتنا بھی شور مچائے احتساب کا عمل جاری رہے گا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ن لیگ کی جانب سے شہباز شریف کی گرفتاری کو سیاسی انتقام کا تاثر دینا افسوسناک قراردیا، احتساب کے حوالے سے پارلیمنٹ میں گرینڈ ڈیبیٹ ہونی چاہیے۔پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی 5سال بالکل فری ہوکرحکومت کرئے، حکومت کو وقت سے پہلے ہٹائیں گے تو ملک تباہ ہوجائے گا، ہمارے اپنے مفادات ہیں،ہر حکومت اپنا مفاد سامنے رکھتی ہے، ملک کیلئے جذبے سے کام کریں گے تو ہم بہتری کی طرف جائیں گے، پاکستان میں آج تک خود مختار پارلیمنٹ نہیں آئی۔ انکا کہنا تھا جو قومیں تاریخ سے نہیں سیکھتیں وہ زندہ نہیں رہ سکتیں۔ پاکستان میں مسلسل24 سال آمریت رہی یہ تاریخ کا حصہ ہے، ہماری بنیاد ہی بگاڑ دی گئی تو ملک کیسے آگے بڑھ سکتا تھا۔
احتساب عدالت میں پیر کے روز سابق وزیراعظم و مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کیخلاف العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کی سماعت ہوئی ،سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے باعث عدالت پیش نہیں ہوئے، عدالت نے نواز شریف کی حاضری سے استثنی کی درخواست قبول کر لی،دوران سماعت استغاثہ کے آخری گواہ تفتیشی افسر محبوب عالم کے بیان پر وکیل صفائی خواجہ محمد حارث کی جرح مکمل نہ ہو سکی،جج ارشد ملک کے استفسار پر خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا ہے،دوران جرح گواہ نے بتایا کہ سعودی حکام کو یاد دہانی کے تین خطوط لکھے گئے دو خطوط سعودی حکام اور ایک سعودی سفیر کو لکھا،،گواہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ لیٹر آف کریڈٹ اور العزیزیہ اسٹیل مل اور ہل میٹل اسٹبلشمنٹ پر اٹھنے والی لاگت کے بارے میں نہیں جانتے،عدالت نے العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس کی سماعت اگلے روزتک ملتوی کر دی۔جبکہ دوسری جانب سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار، سابق آئی جی کلیم امام اور احسن جمیل گجر کی معافی قبول کرتے ہوئے ازخود نوٹس نمٹا دیا ، چیف جسٹس نے تنبیہ کی کہ اگر آئندہ ایسی شکایت ملی تو کیس دوبارہ کھول دیا جائیگا۔ عدالت نے اپنے حکم میں احسن جمیل گجر کے عمل کی مذمت اور تفتیشی افسر خالق داد لک کی تعریف کی، چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں تو پانچ دن میں اس بندے سے پریشان ہو گیا ہوں، میری طرف سے اس کے متعلق وزیراعظم کواظہار ناپسندیدگی کا بتادیں ، کیا یہ ہے وہ حکومت ہے جو نیا پاکستان بنانے جارہی ہے، وزیراعظم کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت رہنے تک عثمان بزدار وزیراعلی رہیں گے، اگر وزیراعلی پنجاب رہیں گے تو عدالت کے حکم کے تحت رہیں گے۔