ضمنی انتخابات، انتخابی مہم سست روی کا شکار، بڑے جلسے نہیں ہو رہے

ضمنی انتخابات، انتخابی مہم سست روی کا شکار، بڑے جلسے نہیں ہو رہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی ڈائری
مبشر میر
ضمنی الیکشن کا سلسلہ جاری ہے، امیدوار کارنر میٹنگز پر ہی اکتفا کررہے ہیں اس صورتحال میں کوئی بھی سیاسی جماعت بڑا جلسہ کرنے کی کوشش نہیں کررہی،پاکستان تحریک انصاف جو انتہائی شارٹ نوٹس پر بھی جلسہ کرلیتی تھی اس نے بھی اجتناب کیا ہے، وزیراعظم پاکستان عمران خان ملک کے چیف ایگزیکٹو ہونے کے ناطے انتخابی مہم نہیں چلا سکتے اور ان کے بغیر پی ٹی آئی کا جلسہ کامیاب نہیں ہوسکتا، اس لیے کراچی اور سندھ کی قیادت جلسہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
پی ٹی آئی کے امیدواروں کو کارنر میٹنگز میں اپنے ووٹرز کے سخت سوالات کا سامنا ہے، کراچی کے عوام فوری ریلیف چاہتے ہیں خاص طور پر پانی کی فراہمی میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، واٹر کمیشن اور واٹر بورڈ سمیت صوبائی حکومت واٹر ٹینکر مافیا کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں ۔ گذشتہ دو ہفتوں سے لانڈھی، کورنگی، ڈیفنس اور کلفٹن کے علاقوں میں پانی کی عدم فراہمی کے باعث پانی تول کے بک رہا ہے۔ ایک کارنر میٹنگ میں ایک امیدوار قومی اسمبلی جن کو اپنی جیت بھی یقینی دکھائی دے رہی ہے، جب ان کو ووٹرز کے تندوتیز سوالات کا سامنا ہوا تو انہوں نے برملا بتایا کہ K-IV منصوبے کی اصل کہانی یہ ہے کہ اس منصوبے سے آئندہ چار سال تک پانی ملنے کا کوئی امکان نہیں ۔ اربوں روپے ضائع ہوچکے ہیں۔ اب وفاقی حکومت ، صوبائی حکومت سے مل کر دیگر منصوبوں پر کام کررہی ہے تاکہ پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ ضمنی الیکشن کیلئے انتخابی مہم میں زوروشور نہ ہونے کی وجہ سے ٹرن آؤٹ بہتر ہونے کی امید دکھائی نہیں دیتی۔
12مئی 2007ء کے سانحہ پر میئر کراچی وسیم اختر کو انسداد دہشتگردی نے ملزم نامزد کردیا ہے، اس حوالے سے نگراں جج کا تقرر بھی ہوا ہے، جسٹس صلاح الدین نگراں جج ہونگے، یہ بات قابل ذکر ہے کہ 12مئی 2007ء کے سانحے کے موقع پر وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان تھے، تادم تحریر ان کو ان تحقیقات میں شامل نہیں کیا گیا ، حالانکہ جنرل صدرپرویز مشرف کے دور حکومت میں شہری سندھ خاص طور پر کراچی کے معاملات گورنر سندھ دیکھتے تھے ۔ اس بات کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جارہی ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پورے ملک میں بہت جانی و مالی نقصان ہوا، لیکن کراچی شہر نے تیس برس سے زائد عرصہ تک قتل و غارت گری ، جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کا دور دیکھا، لیکن آج تک ان نقصانات کے تخمینے کیلئے کوئی ادارہ یا کمیشن نہیں بنایا گیا۔ اسی شہر نے 18 اکتوبر 2007ء کا سانحہ دیکھا اور 27 دسمبر2007 کو جب محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو پورا سندھ جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کی زد میں تھا، آج تک کسی نے 27 دسمبر کی بھیانک شام کو ہونے والے نقصانات کا صحیح اندازہ نہیں لگایا، لہذا اب وقت آگیا ہے کہ شہر کراچی میں ہونے والے تین دہائیوں کے جانی و مالی نقصانات کا اندازہ لگایا جائے اور نقصانات کے ازالے کیلئے کوئی لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔ اگر ریاست اپنے شہریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا ازالہ نہیں کرتی تو شہریوں کا ریاست پر اعتماد کمزور پڑجاتا ہے۔ لہذا صرف 12مئی ہی نہیں پورے تیس برس کا احتساب ہونا چاہیے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی دوہری شہریت اور اقامہ کیس کی زد میں ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ دوہری شہریت اور اقامہ رکھنے کے حوالے سے او رکئی سیاستدان اور بیوروکریٹ کب پکڑے جائیں گے یا اس حوالے سے کوئی حتمی قانون سازی ہوگی۔ جعلی ڈگری کیسز میں ایسے فیصلے بھی آئے ہیں جب بااثر لوگوں پر جعلسازی کا کیس نہیں بنا۔ پی آئی اے کے متعدد پائلٹس اور ایئر ہوسٹس بھی جعلی ڈگری تحقیقات کا سامنا کررہی ہیں۔ یہاں یہ بات باعث دلچسپی ہے کہ رکن قومی اسمبلی محترمہ شازیہ مری پر بھی جعلی ڈگری کیس بنا ، کیس کا فیصلہ بھی محفوظ کرلیا گیا اور اس دوران قومی اسمبلی نے اپنی مدت پوری کرلی لیکن محفوظ فیصلہ محفوظ ہی رہا۔
سوال یہ ہے کہ اگر عدالت کوئی فیصلہ محفوظ کرتی ہے تو وہ فیصلہ سنانے کیلئے کسی ٹائم فریم کی پابند کیوں نہیں ، انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے ۔ اگر چہ اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام پر بہت تیزی سے کام ہورہا ہے، لیکن اغواء برائے تاوان کے چند کیس سامنے آئے ہیں ۔ تفصیلات کے مطابق کراچی کے دو تاجر اغواء کیے گئے اور ان کا تاوان افغانستان میں وصول کیا گیا۔ اس خبر نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکورٹی کے اعلیٰ اداروں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے کہ اس وقت بھی کچھ جرائم پیشہ عناصر دوبارہ اس حد تک متحرک ہوچکے ہیں کہ جن کے نیٹ ورک نے پھر سے کام کرنا شروع کردیا ہے۔یقیناً یہ بات سیکورٹی کے اعلیٰ اداروں کو سنجیدگی سے لینی چاہیے کیونکہ کراچی کی کاروباری برادری کا اعتماد بہت مشکل سے بحال ہوا ہے۔ اگر ایسے نیٹ ورک دوبارہ فعال ہوگئے تو اب جبکہ ملک اقتصادی طور پر مسائل سے دوچارہے، کاروباری برادری کا اعتماد مجروح نہیں ہونا چاہیے۔

مزید :

ایڈیشن 1 -