نئی دہلی میں فرانس رافیل جنگی طیارے کا ہندوانہ رسوم کے مطابق ”استقبال“

نئی دہلی میں فرانس رافیل جنگی طیارے کا ہندوانہ رسوم کے مطابق ”استقبال“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

بھارت میں مسلمانوں اور دوسرے غیر ہندوؤں کو ہندو بنانے کی تحریکیں تو ہمیشہ چلتی رہتی ہیں اور ان دنوں بھی ”گھر واپسی“ کے نام پر ایک تحریک چل رہی ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو ہندو بنانا ہے، انتہا پسند ہندوؤں کا دعوی ہے کہ ہندوستان میں جتنے بھی مسلمان ہیں ان کے آباؤ اجداد سب پہلے ہندو تھے اس لئے انہیں اپنے اصل مذہب کی جانب لوٹ جانا چاہئے، حالانکہ ہندوؤں میں ذات پات کے نظام کی وجہ سے آج بھی بڑی تعداد میں ہندو اسلام قبول کر رہے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت میں جس شخص کا نام بڑا نمایاں آتا رہا ہے وہ نہ صرف اب مسلمان ہو چکا ہے بلکہ بابری مسجد کی شہادت کے گناہ میں ملوث ہونے کے کفارے کے طور پر پورے ملک میں مساجد تعمیر کرا رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اسے اس طرح راحت ملتی ہے، ”گھر واپسی“ کی تحریک میں کوئی کشش ہوتی تو اس طرح کے افراد بھارت میں جنم نہ لیتے، اس وقت گؤ رکھشا (گائے کی حفاظت) کے نام پر بھی ایک تحریک چل رہی ہے جس میں راہ چلتے کسانوں کو جو گائے بیل وغیرہ ہانک کر لے جاتے ہوں، ہجوم کرکے قتل کردیا جاتا ہے۔  مفروضہ یہ ہے کہ یہ گائیں ذبح کرنے کے لئے لے جائی جارہی ہوتی ہیں اس لئے انہیں بچانے کے لئے قتل کیا گیا۔ گویا انسانی جان کی حرمت برسرعام پامال کی جارہی ہے اور گایوں کو بچانے کے نام پر مسلمانوں کی جانیں لی جارہی ہیں۔ اس ماحول میں اگر بھارت کی ہر چیز کو ”ہندوانہ“ طریقے سے برتا جا رہا ہے تو حیرت کی کیا بات ہے، لیکن توہم پرستی کا یہ مظاہرہ اگر جدید ترین فرانسیسی رافیل طیارے کے ساتھ ہو تو آپ اسے کیا نام دیں گے۔ مودی نے فرانس سے ایسے 36طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے جن میں کک بیکس کا سکینڈل بھی بہت نمایاں طور پر اخبارات کی زینت بنا ہے جس کی بنا پر یہ مقدمہ عدالت بھی گیا تھا، کاروباری شخصیت امبانی کا نام بھی اس سلسلے میں لیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اب معاہدے کے تحت طیارے ملنے کا آغاز ہوگیا ہے تو بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے طیارے کو ہندوانہ رسم کے تحت وصول کیا اور اس موقع پر ”شستر پوجا“ کی، جس کا مطلب ہے اسلحہ کی پوجا، انہوں نے طیارے کی باڈی پر سیندور سے اوم لکھا، طیارے پر پھول، ناریل اور لڈو چڑھائے، اس کے علاوہ طیارے کے پہیّے کے نیچے دو لیموں بھی رکھے گئے، یہ ساری رسومات ادا کرنے کے بعد راج ناتھ طیارے میں سوار ہوئے۔ حالانکہ یہ طیارہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور جدید جنگی طیاروں میں اسے خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب 27 فروری کو پاکستان نے بھارتی طیارہ گرا کر پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کیا تو مودی نے کہا کاش ہمارے پاس رافیل طیارے ہوتے، اور اسی بنا پر جلدی جلدی ایک طیارہ حاصل کیا گیا، حالانکہ ڈلیوری اگلے برس شروع ہونا تھی۔ جس طیارے نے سیندور، لیموں، ناریل، پھولوں اور لڈو کی ”طاقت“سے چلنا ہے وہ دفاع میں کیا کارنامہ  دکھا سکتا ہے۔ فرانسیسی بھی حیران ہوتے ہوں گے کہ انہوں نے اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ایک مہنگا طیارہ بنایا ہے جو جدید جنگوں میں فضائی برتری کا حامل ہوگا، لیکن راج ناتھ نے اسے محض ایک اڑن کھٹولہ بنا کر رکھ دیا جو اڑنے کے لئے بھی پوجا پاٹ، رسم و رواج اور جنتر منتر کا محتاج ہو۔
ہندوانہ جنتر منتر کے تحت پرواز کا آغاز کرنیوالا یہ پہلا طیارہ نئی دہلی پہنچا تو اس کا سواگت بھی ہندوانہ رسوم سے کیا گیا۔ شاید پہیوں کے نیچے تیل بھی ”چویا“ گیا۔ ہمارے ہاں یہ رسم موجود ہے کہ شادی کے بعد بیاہ کر لائی جانے والی دلہن  جب  سسرالی گھر میں داخل ہونے لگتی ہے تو گھر کے دروازے کی دونوں چوکھٹوں پر سرسوں کا تیل انڈیلا جاتا ہے۔ یہ استقبال کی ایک ایسی رسم ہے جو متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں نے ہندوؤں سے لی، لیکن آج تک وہ اس سے چھٹکارا نہیں پا سکے۔ تاہم جدید گھرانوں میں اب تیل چونے کی یہ رسم کم کم ادا کی جاتی ہے۔ جب پہلا طیارہ رافیل نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر اترا تو  اس کا استقبال کس کس طریقے سے ہوا، اس کی تفصیل کا ابھی انتظار ہے۔ اربوں ڈالر کے یہ طیارے تین سال میں بھارت کو ملیں گے۔ تاہم پہلے طیارے کی ڈلیوری حاصل کرلی گئی ہے۔
بھارت کے پاس زیادہ تر روسی اسلحہ تھا جسے  اب وہ فرانسیسی اور امریکی اسلحے سے بدل رہا ہے، دنیا کے کئی ملک بھارت میں اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی لگا رہے ہیں بلکہ ابتدائی معاہدے کے مطابق رافیل طیارے بنانے کی فیکٹری بھی بھارت میں لگائی جانے والی تھی۔ سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے فرانس سے جب طیاروں کی خریداری کا معاہدہ کیا تھا تو اس میں یہ شامل تھا کہ فرانس میں تیار ہونے والے طیاروں کے بعد بھارت میں کارخانہ لگا کر باقی ماندہ طیارے وہیں تیار کئے جائیں گے۔ یہ طریقہ کفایت شعاری پر مبنی ہوتا ہے جو ملک بڑی تعداد میں جنگی (یا سویلین) طیاروں کا آرڈر دیتے ہیں، طیارہ ساز کمپنیاں ان کے ہاں کارخانہ بھی لگا دیتی ہیں۔ جہاں سستی لیبر اور کم تنخواہوں کی وجہ سے انہیں بچت بھی ہوتی ہے۔ کل 126 طیارے خریدنے کا یہ معاہدہ ڈاکٹر من موہن سنگھ نے کیا تھا لیکن 2014ء میں مودی وزیراعظم بنے تو انہوں نے یہ سودا منسوخ کردیا، تاہم بھارت کو چونکہ کہیں نہ کہیں سے نئے اور جدید سہولتوں سے آراستہ طیارے تو خریدنے تھے اس لئے نگاہ انتخاب رافیل پر ہی پڑی اور 36 طیاروں کا سودا کر لیا گیا جن میں پہلا طیارہ ڈلیور کر دیاگیا ہے۔ جو سیکولر بھارت میں مکمل ہندوانہ رسم و رواج کے سائے تلے دہلی پہنچا۔
رافیل

مزید :

تجزیہ -