اکادمی ادبیات کے زیراہتمام’ناول نگاری میں خواتین کاکردار مذاکرہ“

اکادمی ادبیات کے زیراہتمام’ناول نگاری میں خواتین کاکردار مذاکرہ“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی (اسٹاف رپورٹر)اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیراہتمام”ناول نگاری میں خواتین کاکردار مذاکرہ“ اور’مشاعرہ“کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت معروف شاعر صحافی اختر سعیدی نے کی۔ مہمان خاص معروف شاعر،صحافی ڈاکٹر نثار احمدنثار،معروف شاعرہ پروین حیدرتھی جبکہ خصوصی مقالا ڈاکٹر نادیہ راحیل پروفیسر اردو یونیورسٹی نے پڑھا ۔ اس موقع پر معروف شاعر صحافی اختر سعیدی نے صدارت خطاب میں کہاکہ علم و ادب کا ہرطالب علم جانتا ہے کہ ناول کا نام فرانسیسی زبان کا لفظ ”نوویلا“ سے مشتق ہے جس کے معنی کہانی کے ہیں سادہ لفظوں میں ناول ایک ایسی طویل کہانی ہے جو کسی زندگی کی داستان کو اس کے سارے تعلقات اور تنوعات کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ ناول براہ راست انگریزی ادب سے ہی لیا گیا ہے۔ انگریزی ناول کے انداز میں ہی اس کو لکھا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ادب پر چھاگیا، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہمارے یہاں قصے، کہانیوں کا وجود نہ تھایا داستان سرائی رائج نہ تھی۔ یہ کہنا واقعات سے انکار ہوگاالبتہ ان قصوں کہانیوں اور ناولوں میں بہت بڑا فرق ہے، قصہ گوئی انسانیت کی ابتداء سے ملی ہے جبکہ ناول مہذب انسانوں کی ایجاد ہے۔ ناول میں زندگی کے مختلف تجربات اور مناظر ہوتے ہیں، واقعات کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ڈاکٹر نثاراحمد نثار نے کہا کہ بقول ڈاکٹر عبدالسلام اردو ناول ایسے شخص کے ہاتھوں وجود میں آیا جو فنی تقاضو ں سے ناوقف تھے اس اعتبار سے ڈپٹی نذیر احمد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے تمثیلی تکنیک کے ذریعے ایک ایسی صنف ادب کی بنیاد رکھی جو فی زمانہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔مجموعی طور پرا مراؤ جان ادا ایسا ناول ہے جو اردو ادب میں پوری اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن طبقہ نسواں میں ڈپٹی نذیر احمد کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ااور نذیر احمد کی آوازکو خلق کی آواز بنانے کے لیے خواتین بھی کمربستہ ہوگئیں یہ امرواقعہ ہے کہ عورتوں نے مردوں کے بہت بعد میں اس میدان میں قدم رکھااور ان کے لکھے ہوئے ایسے قصے جنہیں ناول کی ابتدائی شکل کہاجاسکتا ہے بیسویں صدی کے آغاز سے پہلے نہیں ملتے۔ڈاکٹر نادیہ رحیلنے کہا کہآج کے عہد تک نظر دوڑاتے ہیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ڈپٹی نذیر احمد کا لگایا ہواپودا ایک تناو ر درخت میں تبدیل ہوچکا ہے اس کے بعد ہندوستان بھرمیں جس ناول کوشہرت ملی وہ مزرا محمد ہادی رسوا کاناول امراؤجان ادا ہے لیکن کل کی طرح آج بھی یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ یہ ناول کب لکھا گیا یہ کہنامشکل ہے اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتاکہ یہ ناول مرزارسوا کے دوسرے ناولوں سے پہلے یا بعد میں لکھا گیا تا ہم ایک بات صاف ہے کہ فنی اعتبارسے امراؤجان ادانہایت مختلف ہے