گھٹن ختم، روزن کھولیں!

گھٹن ختم، روزن کھولیں!
گھٹن ختم، روزن کھولیں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وحید رضا بھٹی بیورو کریٹ اور اعلیٰ عہدوں پر خدمت کا وقت پورا کرکے ریٹائر ہو چکے ہیں، وہ بہت اچھے ادبی ذوق کے بھی حامل اور اہل ہیں۔ ہماری طرح ان کو بھی ماضی اچھا لگتا ہے اور اسی دور کی موسیقی سے بھی لگاؤ ہے، وہ اکثر ادبی ذوق سے متعلق سوشل میڈیا پر پوسٹیں لگاتے ہیں اور کبھی کبھار سابقہ دور کے گیت بھی سنواتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کی طرف سے مشہور فلم سنگر لتا منگیشکر کا گایا ایک گیت موصول ہوا مگر یہ کسی اور گائیک کی آواز میں تھا، ہم نے یوٹیوب سے مستفید ہو کر جانچا تو یہ گیت درجنوں گائیک خواتین و حضرات نے گا کر داد وصول کی اور لاکھوں افراد نے اسے سنا، یہ گیت آج بھی مقبول ہے، تاہم ہم نے یہ ذکر یوں کیا کہ اس کے بول بڑے حسب حال ہیں، ”اے، میرے دل ناداں، تو غم سے نہ گھبرانا…… اک دن تو سمجھ لے گی، دنیا تیسرا افسانہ“ چنانچہ ہم نے اور ہمارے درد مند دوستوں نے اسے بار بار سنا اور سوچا کپتان صاحب کیا غلط کہتے ہیں، وہ بھی تو نہ گھبرانے کی تلقین کرتے اور پھر فرماتے ہیں کہ عام آدمی کو سہولتوں کی فراہمی ان کی ترجیح ہے اور جب ہم اس ترجیح پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر شعبے کے اجلاس اور پروگرام کے بعد ان کی طرف سے یہی دلاسہ دیا جاتا ہے کہ یہ ان کی ترجیح ہے اور اب تک شاید ہی کوئی پہلو یا شعبہ بچا ہو جوان کی ترجیح میں شامل نہیں، لیکن یہاں فقیروں کے حالات ”امراؤ جان ادا کے گیت والے ہیں جو یوں ہیں“


یہ کیا جگہ ہے دوستو! یہ کون سا دیار ہے
حدِ نگاہ تک یہاں، غبار ہی غبار ہے


اور یہ غبار اب عام آدمی کی زندگی کے اردگرد پوری طرح چھا چکا اور اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ وہ کیا کرے۔ کس پر اعتماد اور بھروسہ کرے کہ یہاں تو درویشی اور سلطانی ہر سو عیاری ہے، یہی دیکھ لیں کہ حزب اختلاف کو دیوار کے ساتھ لگایا گیا اور خود بخود ایک اتحاد وجود میں آ گیا، تاہم اب تک اس اتحاد والوں نے عوام سے زیادہ اپنی بات کی، ان کو بھی نیب اور آئین کی فکر ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور صحت و تعلیم کے مسائل ان کی دوسری ترجیح ہیں اور مسلم لیگ (ن) کا تو بیانیہ اب پھر ”ووٹ کو عزت دو“ ہو چکا۔ ہمارے خیال میں تو اس بیانیے کی جگہ ”عوام کو روٹی دو“ نعرہ ہونا چاہیے کہ اب عام آدمی کو روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں، وزیراعظم ہدائت کرتے ہیں، سخت کارروائی کا حکم دیتے ہیں، اس کے فوراً بعد چینی کے نرخ بڑھ جاتے ہیں اور اب تو آٹے کی قیمت کو پر لگتے جاتے ہیں، مہنگائی کا عالم اس موسم میں  یہ ہے،جو ابھی تک گرم ہے، فارمی انڈے لاہور میں 150روپے فی درجن اور ملتان میں (بقول نسیم شاہد) 175روپے فی درجن ہو گئے، لاہور میں ٹماٹر 200روپے فی کلو بک رہے ہیں اور چکی آٹا 80روپے فی کلو ہو گیا۔ یہ وہ آٹا ہے جو دیہاڑی دار خرید کر استعمال کرتا کہ تھیلا خریدنا استطاعت سے باہر کلو دو کلو لینا ہوتا ہے اور یہی چکی آٹا کھلا ملتا ہے۔ فلور ملز والوں نے دس روز قبل آگاہ کیا تھا کہ آٹے کا زبردست بحران آنے والا ہے۔ اس لئے 30لاکھ ٹن گندم درآمد کی جائے۔ ہم نے 3لاکھ ٹن کے سودے کئے ہیں اور ابھی پہلا جہاز ساحل پر لگا ہے۔ بازار میں گندم کے نرخ 2500روپے فی من تک چلے گئے، ان حالات میں اصل مسئلہ اور حقیقی ترجیح یہ مہنگائی، کم آمدنی، بے روزگاری اور صحت  ہے کہ ادویات بھی مہنگی کر دی گئیں۔ بجلی کے نرخوں اور گیس کی بات چھوڑیں، ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جلد ہی پنجاب کے شہر بھی کراچی کا منظر پیش کریں گے اور یہاں سائنسی چوری کی بجائے باقاعدہ کنڈے لگاکر بجلی چوری ہو گی کہ بل ناقابل برداشت ہو چکے اور یہ سبق تو ایم کیو ایم (حلیف حکومت) سکھا چکی ہوئی ہے۔


یہ سب ہوا، اب ہم اپنے بارے میں کیا کہیں کہ ہم خود ان سفید پوش حضرات میں سے ہیں، جو ہر دم اس فکر میں رہتے ہیں کہ کوئی ہماری حالت جان نہ لے، ان دنوں ہمیں اپنے والد صاحب بھی یاد آ رہے ہیں،یہ ہمارے زمانہ طالب علمی کی بات ہے،ہمارے پاس اللہ کے کرم سے پہننے کو بہتر کپڑے تھے۔ اس کے باوجود والد محترم ایک روز بازار لے گئے وہاں سے کپڑا خریدا اور رام گلیوں میں اپنے درزی کے پاس لے جا کر نیوی کی وردی جیسا سوٹ سلنے کو دیا، ہم بڑے خوش تھے، اس کا اظہار بھی کیا تو والد صاحب نے کہا ”بیٹا تمہیں معلوم ہے کہ اگلے ہفتے میاں صاحب …… کے صاحبزادے کی شادی میں جانا ہے، وہ امیر لوگ ہیں تو ہمیں بھی اپنی سفید پوشی برقرار رکھنا ہوگی انہوں نے کہاوت کہی۔


”بیٹا شریک (رشتہ دار) کا منہ خون سے لال ہو تو اپنا منہ تھپڑ مار کر سرخ کر لینا چاہیے، آج ہمیں یہ یاد آ رہا ہے،جب ہم کبھی گوشت، مرغی یا سبزی لینے جاتے اور کسی تاجر بھائی کو بھی خریداری کرتے دیکھتے ہیں کہ ہم بھاؤ تاؤ کر رہے اور وہ کچھ پوچھے بغیر اشیاء وافر لے رہے ہوتے ہیں، چنانچہ مجبوراً گوشت لیتے وقت تو ہم بھی دو کلو والی بات کرتے ہیں، چاہے فریج کے فریزر میں رکھ کر حصے کے مطابق پکانا ہو۔
یہ حقیقت ہے، جو ہم نے بیان کر دی۔ ایک امر یہ بھی ہے جو ہمارے پروفیشن کے حوالے سے ہے، وہ بھی کچھ فلمی گیت کے ایک حصے کے مطابق ہے۔


 ”یہ کس مقام پر حیات لے کر آ گئی، لے کر آ گئی“
”نہ بس زبان پر یہاں نہ دل پر اختیار ہے“


یہ عام لوگوں کی بات اور جذبات  ہیں جو ہم نے خود سے منسوب کئے اب اس سے کام نہیں چلنے والا کہ مہنگائی بھی سابقہ حکومتوں نے کی۔ برسراقتدار حضرات کو سوچنا ہوگا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اگر آپ کے رویے نے حزب اختلاف کو دیوار کے ساتھ لگا کر کوئی روزن باقی نہیں چھوڑا کہ مذاکرات بھی ہو سکیں،اور عوام کو دیوار کے ساتھ لگا کر بھوک سے تڑپائیں گے تو ابھی صرف جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور بظاہر لاتعلقی ہے تو پھر یہ بھی باہر آنے پر مجبور ہوں گے اور اگر حزب اختلاف اتحاد نے حقیقتاً اپنا نعرہ بدل کر ”عوام کو روٹی دو“ کر لیا تو پھر ان بھوکے عوام کو کوئی روک بھی نہیں سکے گا اور عوام کے سیلاب کے سامنے کون ٹھہرا ہے؟ یہ بھی تاریخ ہے، ہماری آج بھی یہ عرض، خواہش اور گزارش ہے کہ احتساب جاری رہنا چاہیے۔ کرپشن ختم ہونا چاہیے اور یہ صرف اوپر کی نہیں نچلی سطح تک کرنا ہوگا کہ عام آدمی تو یہاں متاثر ہوتا ہے۔ہم تسلسل سے قومی اتفاق رائے کے حق میں ہیں اور اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں، کسی بڑے حادثے سے بچنے کے لئے ہمیں روزن کھولنا ہوں گے اور اس بارے میں ہر ذمہ دار کو سوچنا اور فیصلہ کرنا ہو گا، ہم عوام بے قصور ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -