ہیلتھ شاپس

لاہور میں نہر کنارے ایک ملٹی سٹار ہسپتال میں ہنگامی حالت میں ایک سفید پوش سرکاری ملازم اپنے بھائی کو با َمرِمجبوری لے کر گیا جس کی دماغی شریان پھٹ گئی تھی۔جب ہسپتال کے جملہ اخراجات کا حساب لگایا تو اسے پاؤں تلے سے زمین سرکتی محسوس ہوئی۔ پریشانی کے عالم میں اس نے منتظم اعلیٰ سے درخواست کی ”حضورسرکاری ملازم ہوں، آمدنی کم ہے، کیا ہسپتال کی فیس میں کچھ رعایت ہو سکتی ہے؟ جواب میں مسیحاؤں کے مرکز کے مالک نے تاریخی جملے کہے ”کیا ہسپتال میں سے کسی نے تجھ سے منت کی تھی کہ مریض کو ادھر لے آؤ۔ اگر فیس ادا نہیں کر سکتے تو بھا گ جاؤ“ ذِلّت آمیز جواب سننے کے بعد سفید پوش سرکاری ملازم اپنے بھائی کو شالیمار ہسپتال لے گیا جہاں وہ چند دن موت و حیات کی کشمکش کے بعد راہی ئ ملک عدم ہوا۔
اپنے ہنر کے استعمال سے کمانا گناہ نہیں،بلکہ عین ثواب ہے، لیکن ہنر کو استحصال کے لئے استعمال کرنا گناہ کبیرہ ہے۔تجارت سنت ِرسولؐ ہے اور اس کے ضوابط نبی ئ رحمت ؐ نے طے کر دیئے، جن میں دو باتوں پر بالخصوص زور دیا گیا: اولاً ناقص مال کو صحت مند مال کے طور پر فروخت نہ کیا جائے اور ثانیاً منافع کو کئی گنا بڑھا کر لینے سے گریز کیا جائے۔ بد قسمتی سے وطن عزیز میں تجارت بالعموم انہی دو عوامل کے گرد گھومتی ہے۔ لوگوں کی بے بسی اور مجبوری منافع کمانے کا سب سے بڑا میدان ہے۔ ہر شعبہئ تجارت میں مختلف اشکال میں مافیا مصروفِ کار ہے۔ شعبہ صحت امیر ترین اور با اثر ترین تاجروں کی گرفت میں ہے،جو خدمت خلق پر ”پختہ یقین“ رکھتے ہیں۔
دوسری طرف سرکاری ہسپتالوں میں اعلیٰ طبی عہدوں پر فائز اور کچھ ماتحت طبیبوں نے اپنی الگ ہیلتھ شاپس قائم کر رکھی ہیں،جہاں بسا اوقات خدمت خلق بروقت بہم پہنچانے کے لئے ملازمت کے اوقات میں بھی و ہ اپنی دکانوں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور گاہک آنے کی اطلاع پر کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھاگم بھاگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پہنچ جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے ڈسٹرکٹ ہسپتال کے میڈیکل وارڈ میں اپنڈکس کا مریض رات بھرتکلیف سے بلبلاتا رہا۔ اس کا نام اگلے دن ہونے والے معمول کے آپریشنوں کی فہرست میں ڈال دیا گیا۔ میرے ایک عزیز نے ٹیلی فون پر مریض کی حالت ِ زار کی اطلاع دی اور مدد کے لئے پکارا۔مجھے چونکہ چار گھنٹے کی مسافت طے کر کے پہنچنا تھا،لہٰذا پہنچتے پہنچتے دن کا ایک بج گیا۔ جب میں آپریشن کی انتظار گاہ میں پہنچا تو مریض تکلیف سے نِڈھال، سر کو اطراف میں تیزی سے پلٹ رہا تھا۔
مجھے دیکھتے ہی پہلے سے موجود ایک تیمار دار دوڑا اور بے صبری سے بتانے لگا کہ ڈیوٹی سرجن نے آپریشن کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ آپریشن تھیٹر میں پانی نہیں آ رہا۔ مَیں نے ڈیوٹی سرجن کی توجہّ مریض کی قابل ِ رحم حالت کی طرف دلائی، مگر شہر کے سب سے زیادہ طاقتور سیاست دان سے تعلق داری کی بنا پر انہوں نے سنی اَن سنی کر دی۔ میری نظرایک دوسرے سرجن پر پڑی جو اپنے پیشہ ورانہ ہنر سے زیادہ شعر و سخن سے وابستگی کے باعث مشہور تھے۔ انہیں اپنا دفتری تعارف کروایا، ان کے چہرے پرمسکراہٹ پھیل گئی،جونہی میں نے اپنی ضرورت بیان کی،وہ ایسے چل دیے جیسے کہ مَیں نے کچھ کہا ہی نہ ہو۔عین ممکن ہے میں انہیں ایک شعر سنانے کا کہتا تو وہیں پر کھڑے کھڑے پورا دیوان سنانے پر آمادہ ہو جاتے۔ بے بسی اور بے کسی کے عالم میں جب تیسرے سرجن تک رسائی حاصل کی تو انہوں نے کمال خلوص اور شفقت سے فوراً حامی بھر لی اور ہمیں اپنی ذاتی صحت کی دکان کا پتا سمجھایا۔ ہم نے ہسپتال سے مریض کو فوراً وہاں پر پہنچایا، جہاں اگلے ہی گھنٹے میں آپریشن کردیا گیا۔ ”رحم دل“سرجن کے بقول اگردو گھنٹے اور آپریشن دیر سے ہوتا تو اپنڈکس کا پھٹ جانا یقینی تھا، جس سے مریض کی جان کا جانا اس سے بھی زیادہ یقینی تھا۔ چند دن مریض سرکاری سرجن کے ذاتی شفاء خانہ پر زیر علاج رہا۔ آخر کا رایک بھاری”قرض پر لی گئی“ رقم ادا کر کے دُعائیں اور دوائیں لکھوا کر رخصت ہوا۔
مندرجہ بالا واقعہ کسی کہانی یا افسانے کا حصہ نہیں، بلکہ چشم دید ہے اور اپنی نوعیت کے، ہر روز، بلا ناغہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ پیش آنے والوں میں سے ایک ہے۔
معالجاتی صحت کی دکانوں سے قطع نظر طبی تعلیم کی دکانوں کا اپنا الگ کاروباری طرز عمل ہے۔ سرکاری میڈیکل کالجز کے معیار پر پورا نہ اترنے والے طلباو طالبات میں سے بیشتر صاحب ِ ثروت افراد کی اولادیں نجی طبی تعلیمی شاپس کا رخ کرتی ہیں،جہاں مالکان اپنے ادارے کی حدود میں لی جانے والی ایک ایک سانس کا ”مناسب مُول“ وصول کرتے ہیں۔اگر ہم نجی میڈیکل کالجز کے نصابی ڈھانچے کو دیکھیں تو اُن میں لیبارٹریز کا ہونا قانوناً لازم ہے تاکہ طلباء کو سیکھنے کا موقع ملے، مگر فیس زیادہ ہونے کی وجہ سے مریض یہاں آنے سے گریز کرتا ہے، جس کا براہِ راست اثر طلباء کی عملی تربیت پر پڑتا ہے اور وہ نصابی کتب سے آگے نہیں جاپاتے۔
محکمہ صحت میں پائی جانے والی انتظامی،پیشہ ورانہ،تعلیمی اور معالجاتی کج روی کی اصلاح کے لئے حکومت پاکستان نے میڈیکل کمیشن کا قیام ضروری جانا ہے اور صدرِ مملکت نے اس کے قانون پر دستخط بھی کر دئیے ہیں۔ یہ کمیشن میڈیسن اور دندان سازی کے شعبوں کی تربیت اور تعلیمی معیار کو بہتری کی طرف گامزن کرے گا۔تاہم مخالفت میں اٹھنے والی آوازیں اس خدشہ پر مبنی ہیں کہ کمیشن کا قیام نجی طبی اور دندان سازی کے اداروں کو شُتر بے مہار کر دے گا، جہاں وہ اپنی مرضی سے طلباء کو داخلہ دینے اور اُن کی فیسیں مقرر کرنے کے لامحدود اختیارات استعمال کریں گے۔
دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن ماضی کی کوتاہیوں سے کس طرح عہدہ برآ ہوتا ہے۔ اگرنجی میڈیکل کالجز کرائے کے مریضوں کو لٹا کر معائنہ کی کاروائی بھگتا تے رہے۔ طلباء اپنے اداروں میں ہاؤس جاب کی سہولت سے محروم رہے، قابل اور تجربہ کار اساتذہ پڑھانے کو میسّر نہ ا ٓسکے، پچاس فیصد نتیجہ دینا لازم ٹھہرا، تو نجی اداروں سے تعلیم پانے والے طبیب کی قابلیت کی سطح آج کے ڈسپنسر کی سطح کو چھُو لے گی۔ دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟