ایس ڈی جی 4 کے حصول کے لیے کارکردگی مایوس کن: پی وائے سی اے
کراچی(پ ر)''پاکستان کے تعلیمی بحران سے نمٹنے کی فوری ضرورت کی اہمیت جاننے کے باوجود وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی سطح پر تعلیمی مسائل سے غیر منظم طریقے سے نمٹا جا رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت قومی سطح پر منظور شدہ SDG 4 کے ترجیحی اہداف میں ناکافی اور سست رفتار سرمایہ کاری سے کیا جا سکتا ہے۔'' ان خیالات کا اظہار ماہر معاشیات اور حال ہی میں شائع ہونے والے وائٹ پیپر ''تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری: پاکستان میں SDG 4 کی ایک تشخیص۔'' کے مصنف، عاصم بشیر خان نے کیا۔پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیٹس (PYCA) اور ایجوکیشن چیمپئن نیٹ ورک (ECN) کی جانب سے شائع کردہ یہ وائٹ پیپر پاکستان میں SDG 4، یعنی مساوی اور معیار تعلیم کی رسائی عام کرنے کے حوالے سے حکومتی سرمایہ کاری کا تفصیلی جائزہ فراہم کرتا ہے اور پاکستان کے تعلیمی اہداف کے حصول کے لیے سفارشات بھی پیش کرتا ہے۔وائٹ پیپر کے مشاہدات پر روشنی ڈالتے ہوئے PYCA کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اریبہ شاہد نے کہا، ''اگرچہ قومی سطح پر SDG 4 کو اولین ترجیحی ہدف قرار دیا گیا ہے تاہم، 2030 میں صرف نو سال باقی رہ جانے کے باوجود، وفاقی اور صوبائی حکومتیں ابھی تک اپنے بجٹ اعلانات میں اس ہدف کے حصول کے لیے خاطر خواہ فنڈز مختص نہیں کر پائیں۔
مثال کے طور پرتعلیم میں صنفی برابری کی مد میں 2015 سے اب تک کی جانے والی سرمایہ کاری نہ صرف انتہائی کم ہے بلکہ رواں مالی سال کے بجٹ اعلانات کے دوران، وفاقی حکومت اور بلوچستان نے لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کو بڑھانے کے لیے کسی بھی اسکیم کا اعلان نہیں کیا۔ یہ خاص طور پر بلوچستان کے معاملے میں پریشان کن ہے کیونکہ پورے ملک میں اسکولوں سے باہر لڑکیوں کی شرح سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے۔''اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے PYCA کے پروگرام آفیسر ہشام خان نے کہا، '' اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری اور خیبر پختونخوا کے علاوہ کسی دوسری حکومت نے تعلیمی عمارتوں کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے کوئی فنڈ مختص نہیں کیا۔ یہ بات خاص طور پر وباء کے پس منظر میں زیادہ تشویشناک ہے جب اسکولوں کو بنیادی سہولیات، جیسے کہ صاف پانی، بیت الخلاء اور ہاتھ دھونے کے اسٹیشنوں سے آراستہ کرنے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے تاکہ بچوں کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھا جا سکے۔''پاکستان کے تعلیمی مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان زیادہ فعال رابطے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف، اس سے تعلیمی پالیسی کے دستاویزات کو قومی اتفاق رائے سے تشکیل دینے میں مدد ملے گی اور دوسری جانب تعلیمی شعبے میں بیک وقت ملک گیر اصلاحات متعارف کروانا ممکن ہو پائے گا۔