کچھ نہ لکھنے کا اعتراف
مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی
قسط:16
اس رائے کے ذریعے ہم انتہا پسندی کو چھوڑ کر اعتدال کی راہ اپنا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ آپ بیتی نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اپنی زندگی حالات و واقعات کا ہی بیان نہ کرے بلکہ اس کے ساتھ اپنی سوچ، خیالات، تاثرات اور جذبات سے بھی روشناس کرائے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے بقول:
”آپ بیتی محض احوال و واقعات کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات لکھنے والے کی داخلی کیفیتوں ‘ دلی احساس شخصی اور عملی تجربوں ‘ زندگی کے جذباتی پہلوﺅں اور بحیثیت مجموعی زندگی کے بارے میں اس کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کرتی ہے-“
آپ بیتی معیارات کے تحت ”سلیوٹ“ کا جائزہ:
صدیق سالک نے کتاب کے دیباچے میں اپنی آپ بیتی کے اسلوب پر روشنی ڈالی ہے کہ انہوں نے جس شخص یا واقعے کو جس طرح دیکھا اسی طرح بیان کیا ہے اس معاملے میں مبالغہ آرائی یا تعصّب سے کام نہیں لیا۔ اس کے علاوہ فوج کے مارشل لائی کردار خصوصا ً 77ءکے مارشل لاءجس سے سالک تادم مرگ وابستہ رہے ‘ پر کچھ نہ لکھنے کا اعتراف کیا ہے۔
کتاب کا باب اول ”نکلے تری تلاش میں“ کتاب کا سب سے دلچسپ باب ہے۔اس میں سالک نے اپنے خاندانی ،معاشی، معاشرتی پس منظر میں اپنے انتخاب ملازمت کی کشمکش کو بہت دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے یہ باب کسی شخص کے ذاتی حالات کے بجائے کہانی کا تاثر دیتا ہے اسلوب بیان بھی اسی قسم کا ہے مثلاً:
”ہمارے گاﺅں میں ایک بابا رمضان ہوتا تھا۔“
اس باب میں بڑے سادہ سے انداز میں اپنی زندگی کے اہم فیصلے کے متعلق بتایا ہے کہ تدریس ایسا مقدس پیشہ چھوڑ کر منصبی شان و شوکت کے لیے فوج کا انتخاب کیا۔ سالک نے بڑی خوبصورتی سے اپنے اس فیصلے کو معاشرتی رویوں‘لوگوں کی توقعات اور خارجی عوامل کا نتیجہ قرار دیا ہے اورتفصیلی پس منظر پیش کیا ہے کہ وہ ایسا نہیں چاہتے تھے۔ ان کے الفاظ اس کا ثبوت ہیں:
”لیکن جلد ہی مجھے یہ احساس دلایا گیا کہ وہ تو معاشرے میں سرکردہ حیثیت رکھتے ہیں ‘ لیکچر ار تو محض سکول ماسٹر ہے “
”یعنی انہیں احساس ہوا نہیں بلکہ ”دلایا گیا۔“
”زندگی کے 5 قیمتی سال ضائع کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ چچا احمد خان اور بابا رمضان ٹھیک ہی کہتے تھے کہ افسر بن جاﺅ-“
گویا صدیق سالک نے نظیر اکبرآبادی کے تجربے سے استفادہ کرکے ”غریب غربا ءکے لڑکے پڑھانے“ کے بجائے فوجی افسری کو منتخب کیا تاکہ عمر بھر کی مفلسی سے پیچھا چھڑا لیں۔
یہاں سالک اپنی دلی خواہش کو معاشرتی دباﺅ اور ہر دو حضرات کے تلے دبانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی اس خواہش کو سطح آب پر نہیں لاتے کہ وہ خود بھی معاشرے کے سرکردہ افراد میں شامل ہونا چاہتے تھے اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے کا رویہ انسان کے اعمال پرا ثر انداز ہوتا ہے لیکن سالک ایسا تاثردے رہے ہیں جیسے اس فیصلے میں ان کی داخلی کیفیات بالکل شامل نہیں اس لیے وہ خود کو کہیں بھی اس کا ذمہ دار ماننے کو تیار نہیں مثلاً :
”میں نے افسری کی تلاش میں بالآخر فوج کے دروازے پر دستک دی‘ پروفیسر حمید خان ہار گئے چچا احمد خان اور بابا رمضان جیت گئے-“
اس اقتباس بلکہ پورے باب سے ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے کہ پروفیسر حمید احمد خان کے زیراثر وہ درس و تدریس سے وابستہ ہوئے اور چاچا احمد خان اور بابا رمضان کے زیر اثر افسری کی طرف لیکن پیشے کے انتخاب میں ان کا اپنا مطمحِ نظر کیا تھا یہ سامنے نہیں آتا۔ بہرحال انہوں نے مادیت کو ترجیح دینے کے لیے طویل جواز تلاش کیے اور اپنی ذات کو صاف بچالے گئے ہیں۔( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔