پاکستان میں آزادی صحافت اور غیرملکی ایجنسی کی گمراہ کن رپورٹ
پاکستان کے مخصوص سماجی حالات کی وجہ سے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کبھی بھی آئیڈیل نہیں رہی ۔۔۔ ملک کے طول و عرض میں لا اینڈ آرڈر کے کئی مسائل درپیش ہیں ۔۔ لوگوں کے درمیان ذاتی دشمنیاں ، انا کے مسائل ، لین دین کے تنازعات ، گروہی تعصبات اور دیگرمسائل کی وجہ سے کئی جرائم روزانہ رونما ہوتے ہیں ۔۔ ان جرائم کی روک تھام کےلیے قانون نافذ کرنے والے ادارےاپنا کام کررہے ہیں جبکہ عدالتی نظام بھی اپنی تمام ترخامیوں کے باوجود فعال ہے ۔۔۔
ان جرائم کے تناظر میں پاکستان سے متعلق اکثر بین الاقوامی میڈیا میں ایسی رپورٹس شائع ہوتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔۔ مثال کے طور پر حال ہی میں کراچی اور اندرون سندھ کے شہر میرپور ماتھیلو میں دو علیحدہ علیحدہ واقعات میں دو صحافیوں کو قتل کردیا گیا ۔ ان افسوسناک واقعات کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ دونوں واقعات ذاتی رنجش اور دشمنی کی بنا پر پیش آئے لیکن بعض غیرملکی میڈیا رپورٹس میں ان واقعات کو آزادی صحافت پر حملے سے جوڑ دیا گیا جوکہ بالکل بے بنیاد ہے ۔۔
مثال کے طور پر ترکیہ کی نیوز ایجنسی انادولو ایجنسی (اے اے ڈاٹ آرٹی ڈاٹ انگلش ) میں قتل کے ان دونوں واقعات کو بیان کرکے یہ کہا گیا کہ اس سال کے دوران پاکستان میں پانچ صحافی قتل کیے جاچکے ہیں ۔۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ دو سال کے دوران پاکستان میں 16 صحافی قتل کردئیے گئے ، ترکیہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان، سوڈان اور میانمار کے ساتھ ان 3 سرفہرست ممالک میں شامل ہے جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ صحافی قتل ہوئے ۔۔ جب غیرملکی نیوز ایجنسیز میں اس طرح کی گمراہ کن رپورٹس شائع ہوں گی تو حقائق کی بنیاد پر ان کا موثر جواب دینا ضروری ہے ۔
صحافیوں کے قتل کے واقعات میں پہلا واقعہ کراچی میں پیش آیا ۔۔ ضلع کورنگی کے تھانہ سعود آباد کے علاقے میں مقامی صحافی امتیاز علی اپنے بھائی صلاح الدین کے ساتھ گاڑی پر اپنے گھر جارہے تھے کہ راستے میں نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کردی ۔۔ اس حملے میں امتیاز علی زخمی ہوئے جو بعد میں oسپتال میں دم توڑ گئے ۔۔ اس واقعے کی ایف آئی آر امتیاز علی کے بھائی ریاض علی نے درج کرائی اور واضح طور پر انہوں نے اس کا الزام اپنے مخالفین پر لگایا ۔۔ ایف آئی آر میں ایک مقامی شخص عمردراز اور اس کے بیٹے احمد بخش کو نامزد کیا گیا ۔۔۔ فریقین کے درمیان مبینہ طور پر لین دین کا تنازع تھا جو اس حملے کی وجہ بنا ۔۔۔
اب دوسرے واقعے کی جانب آتے ہیں جو سندھ کے ضلع گھوٹکی کی تحصیل میرپور ماتھیلو میں پیش آیا ۔۔ مقامی صحافی طفیل رند صبح کے وقت اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے جارہے تھے کہ کچھ مسلح افراد نے ان کی کار پر فائرنگ کردی ۔۔۔ گولیاں لگنے سے طفیل رند جاں بحق ہوگئے ، وہ میرپور ماتھیلو پریس کلب کے جنرل سیکرٹری بھی تھے ۔۔ پولیس نے واردات میں ملوث ہونے کے شبے پر دو ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے ۔۔ ایف آئی آر کے مطابق یہ واقعہ بھی ذاتی دشمنی کے نتیجے میں پیش آیا ۔۔۔
اس واقعے کے بعد مرکزی ملزم نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں اس نے کہا کہ چار سال قبل طفیل اور ان کے بھائیوں نے میرے بیٹے کو قتل کیا تھا ۔۔ اس واقعے پر مجھے انصاف نہیں ملا اور آج میں نے اپنا بدلہ لیے لیا ۔۔۔
یہ دونوں افسوسناک واقعات پیش آنے کے بعد حیران کن طور پر انادولو ایجنسی کی رپورٹ میں اسے آزادی صحافت پر حملے اور صحافیوں کی زباں بندی سے جوڑ دیا گیا ہے ۔۔ حالانکہ ان واقعات کے تمام شواہد ، ایف آئی آر ، مدعیوں کا موقف اور پولیس کی تفتیش یہی واضح کرتے ہیں کہ یہ واقعات ذاتی رنجش کی بنا پر پیش آئے ۔۔ اس سلسلے میں تمام میڈیا ادارے چاہے وہ ملکی ہوں یا غیرملکی ، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خبر چلانے کے ساتھ اس کے متعلق تمام حقائق غیرجانبداری سے بیان کریں ۔۔ اگر غیرملکی میڈیا میں پاکستان سے متعلق کوئی منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے تو قومی میڈیا کا یہ فرض ہے کہ وہ حقائق کو اجاگر کرے اور پروپیگنڈے کا حقائق کے ساتھ جواب دے ۔۔۔
اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بھی فرض ہے کہ وہ اصل مجرموں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دلوائے تاکہ پاکستان کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کا موثر طریقے سے مقابلہ کیا جاسکے ۔۔۔
.
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔
