پیش ہوا تو صاحب بولے”کل آپ نے بدتمیزی کی اور دھمکی بھی دی، معطل کر رہاہوں اب جاؤ“وہ ہکا بکا رہ گیا۔ یہ تھی صاحب کی مجھ سے محبت

 پیش ہوا تو صاحب بولے”کل آپ نے بدتمیزی کی اور دھمکی بھی دی، معطل کر رہاہوں اب ...
 پیش ہوا تو صاحب بولے”کل آپ نے بدتمیزی کی اور دھمکی بھی دی، معطل کر رہاہوں اب جاؤ“وہ ہکا بکا رہ گیا۔ یہ تھی صاحب کی مجھ سے محبت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:315
ملہی کی بلیٰ؛    
 سیالکوٹ کے رہنے والے صاحب کے دوست ”عتیق سیٹھی“ بڑے رئیس اور زندہ دل انسان تھے نیو یارک میں بھی ان کا گھر تھا۔جہاں وہ”مائیکل“کے نام سے جانے جاتے تھے۔لاس ویگسLos Vegas  میں بھی ان کا بڑا چر چا تھا۔ بڑے دل کے رنگین مزاج آ دمی تھے۔صاحب سے ان کے دیرینہ مراسم تھے۔ ایک روز صاحب سے ملنے آئے ان کے ساتھ ایک شخص بھی تھا۔ کہنے لگے؛”سر! یہ میرا دوست ٹھیکیداری کرتا ہے۔ اس کے پاس سیالکوٹ ٹی ایم اے کا کوئی ٹھیکہ تھا۔ کام مکمل کر دیا ہے لیکن ٹی ایم اے اس کی ادائیگی نہیں کر رہا۔اس کی رقم دلوا دیں۔“ انہوں نے مجھے کہا؛”ٹی ایم او کو فون کر دیں۔“ میں نے ٹی ایم او ”سکندر ملہی“ کو فون کرکے پیغام دیا اورکہا یہ شخص کل آ پ کے پاس کس وقت آ ئے۔“ کہنے لگے؛”10بجے۔“ بات ختم ہو گئی۔ ہفتے دس دن بعد سیٹھی صاحب دوبارہ صاحب سے ملنے آ ئے۔ صاحب ابھی دفتر نہیں پہنچے تھے۔ کہنے لگے:”شہزاد صاحب! او ملہی نوں دوبارہ فون کرو، انے کم نئیں کیتا۔“ میں نے اسے دوبارہ فون کرکے ادائیگی بارے پوچھا تو وہ انتہائی بد تمیزی سے بولا؛”میں پرویز صاحب(چیف منسٹر)نال گل کر کے تیری تے چھٹی کراناں توں کی سانوں مصیبت پائی او ئی اے۔“(ان کے خاندانی تعلقات پرویز الٰہی کے ساتھ تھے۔)میں نے اسے جواب دیا؛”ملہی صاحب! میرا کوئی ذاتی کام نہیں۔ ویسے آ پ جیسی زبان مجھے بھی بو لنی آتی ہے مگر میری تربیت اجازت نہیں دیتی۔“  فون بند کر دیا۔سچی بات تھی اس کی گفتگو کا مجھے حد درجہ افسو س ہوا تھا۔ سیٹھی صاحب بو لے؛”کیا ہوا ہے۔ بد تمیزی کی اس نے۔“ میں چپ رہا۔ کہنے لگے؛”او ہے ہی بڑا بد تمیز، پرویز دا منہ چڑیا۔“ اتنے میں صاحب آ گئے۔ سیٹھی صاحب نے جا کر صاحب سے بات کی ہو گی۔ صاحب نے مجھے بلایا اور پوچھا کیا بات ہوئی ہے؟“ میں نے کہا؛”کچھ نہیں سر۔“ کہنے لگے؛”شہزاد صاحب تین سال ہو گئے ہیں ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ۔ آپ کا چہرہ بتا رہا کچھ ہوا ہے۔“ میں نے انہیں ساری بات بتادی۔انہوں نے سیکرٹری بلدیات کو فون کرکے کہا؛”ملہی نامی ٹی ایم او کل صبح دس بجے میرے دفتر بلا لیں اور اسکے معطلی کے آ ڈرز بھی تیار کر لیں کسی کو بتانا نہیں۔“تھوڑی ہی دیر میں مجھے ایڈیشل سیکرٹری جاوید لطیف صاحب کا فون آیا۔ کہنے لگے؛”یار! توں ملہی نو ں بلایا اے۔“ میں نے جواب دیا؛”سر! میں نے نہیں صاحب نے بلایا ہے۔“ کہنے لگے؛”اونے کوئی نہیں آنا توں آپی سنبھال لئیں۔ سب جاندے ایں اوی ہونا جو توں کینا اے۔“ میں نے کہا؛”سر! صاحب نے بلایا ہے تو میں کیسے کہہ دوں یہ نہ آئے۔ اسے آ نا ہی ہو گا۔“ خیر تھوڑی ہی دیر میں ملہی کا فون آ گیا۔کہنے لگے؛”شہزاد صاحب! مجھے نہیں پتہ تھا کہ آ پ خالد فاروق کے بھائی ہیں۔ وہ میرے بڑے محسن ہیں۔ میں آ پ کا بھی تابعدار ہوں۔ صبح پہنچ جاؤں گا آپ نے شفقت کرنی ہے۔“ میں نے اسے کہا؛”کام کر نا نہ کر نا اور بات تھی۔ بد تمیزی ناقابل برداشت ہے۔“ خیر اگلے روز وہ آ گیا۔ معذرت کی۔ صاحب آئے تو اسے اند ر بلانے سے پہلے سیکرٹری بلدیات اخلاق تارڑ صاحب کو بھی بلا لیا۔ یہ پیش ہوا تو صاحب بولے؛”کل آپ نے شہزاد صاحب سے بدتمیزی کی اور دھمکی بھی دی کہ سی ایم صاحب کو بتا ؤ گے۔ میں تمھیں معطل کر رہاہوں اب جاؤ اور سی ایم صاحب کو بتاؤ۔“وہ ہکا بکا رہ گیا۔ یہ تھی صاحب کی مجھ سے محبت۔ دو تین ہفتے بعد سی ایم نے صاحب سے کہا؛”راجہ صاحب جے غصہ اٹھنڈا ہوگیا جے تے او ملہی نوں تے بحال کر دئیو۔“ اسی روز صاحب نے اسے بحال کر دیا تھا۔ بعد میں وہ مجھے بڑی عزت سے ملتا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -