بار کے ادارے اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں اور وکلاء کی فلاح و بہبود کے کاموں پر اپنی تمام تر توجہ صرف کریں تاکہ وہ ملک و ملت کی بہتر خدمت انجام دے سکیں 

بار کے ادارے اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں اور وکلاء کی فلاح و بہبود کے کاموں پر ...
بار کے ادارے اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں اور وکلاء کی فلاح و بہبود کے کاموں پر اپنی تمام تر توجہ صرف کریں تاکہ وہ ملک و ملت کی بہتر خدمت انجام دے سکیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:رانا امیر احمد خاں 
قسط:183
 اس طرح ذوالفقار علی بھٹو اپنے ذاتی اقتدار کی خاطر پاکستان کو دولخت کر دینے میں یحییٰ خان کے ساتھ برابر کے شریک جرم تھے۔ صد افسوس آج بھٹو کے شریک کار ساتھی بھٹو جیسے خود غرض، موقع پرست، فسطائی لیڈر جو کہ مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن کروانے اور ہزاروں لوگوں کو قتل کروا دینے کی تحریک میں بھی پیش پیش تھے بھٹو کی حمایت میں لب کشائی کرکے تاریخ کا چہرہ مسخ کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔  
پریس ریلیز
رانا امیر احمد خاں ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قاضی محمد جمیل کی صدارت میں منعقد کئے گئے اجلاس کے اْس فیصلہ کو سراہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار کی نئی منتخب شدہ باڈی سیاست میں ملوث نہیں ہو گی اور قانون کی حکمرانی کے حصول کیلئے حکومت اور عدلیہ سے بھرپور تعاون کرے گی جبکہ گزشتہ چند سالوں میں سابقہ باڈی نے حکومت اور عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کر کے بار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ 
رانا امیر احمد خاں ایڈووکیٹ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بار ایسوسی ایشن کے ادارہ کا بنیادی فریضہ وکلاء کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل رہنا اور وطن عزیز میں آئین و قانون کی حکمرانی کیلئے حکومت اور عدلیہ کے ساتھ مل کر سستے اور فوری انصاف کی فراوانی کے نصب العین کا حصول ہونا چاہئے۔ بار ایسوسی ایشن کے اراکین مختلف سیاسی جماعتوں اور مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا بار کے اتحاد اور بار کی آزادی کا تحفظ اسی صورت ممکن ہے کہ بار کے ادارے محاذ آرائی کی سیاست بازی کی بجائے اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں اور وکلاء کی فلاح و بہبود کے کاموں پر اپنی تمام تر توجہ صرف کریں تاکہ وہ ملک و ملت اور وکلاء برادری کی بہتر طور پر خدمت انجام دے سکیں۔
عراق پر متوقع امریکی حملے کے خلاف قرارداد مذمت 
پاس کردہ لاہور ہائی کورٹ بار اجلاس عام مورخہ 6-3-2003
متن قرارداد:عراق پر متوقع امریکی حملے کے خلاف مصر سے لے کر نیوزی لینڈ تک اور شام سے لے کر یورپ، امریکہ، کینیڈا تک کروڑوں عوام نے بے مثال مظاہرے کرکے اپنے شدید ردعمل اور جنگ کے خلاف اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ 
امریکہ کے پاس عراق پر جنگ ٹھونسنے کا کوئی ٹھوس جواز نہ ہے۔ قیاس غالب یہ ہے کہ بش انتظامیہ نے 1991ء کی خلیجی جنگ میں جس ایجنڈے پر کام شروع کیا تھا اب اس کی تکمیل مقصود ہے۔ اول عراق کو اس وقت امریکہ کی ”حفظ ماتقدم ڈاکٹرائن“ کے مطابق ہدف بنایا جا رہا ہے۔ اس ڈاکٹرائن کے تحت فوجی خطرہ نہ ہونے کے باوجود امریکہ اپنے حفظ ماتقدم کے لیے فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔ امریکی سائیکی کی کمزوری کا عالم دیکھئے کہ مستقبل کے خطرے کا خوف بھی امریکہ کو عراق پر چڑھائی کرنے اور اسرائیل کو فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھانے پر ہر دم آمادہ کئے ہوئے ہے۔ اور اسی ڈاکٹرائن کے تحت اسرائیل آزادی اور مرضی سے عرب ملکوں پر حملہ آور ہو سکتا ہے اور اسی زاویئے سے بھارت بھی آزاد کشمیر اور پاکستان کو اپنا ہدف بنا سکتا ہے۔ 
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -