زیر نظر مضمون کا عنوان قرآن مجید کی سورة النمل نمبر16،آیت نمبر70،سورة الحج نمبر22 آیت نمبر5 اور سورة الاحقاف نمبر46 آیت نمبر15 سے اخذ کیا گیا ہے۔اِن آیات مبارکہ میں اَر±ذَلِ العُمرُ کے الفاظ آتے ہیں۔سورہ نمبر36 یٰسین آیت نمبر68 میں لفظ”ننکسہ“ آتا ہے۔اِسی طرح40سالہ عمر کے متعلق سورئہ یوسف نمبر12،آیت نمبر32 اور سورة القصص نمبر28 آیت نمبر14میں” فلما بلغ اشدہ“ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن آیاتِ مقدسہ کے بالترتیب معنی اور تشریح ملاحظہ فرمائیں۔
(1) سورة النمل:۔ ”اور اﷲ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے تمہیں۔پھر جاں قبض کرے گا تمہاری اور تم میں سے بعض ایسے ہیں جنہیں لوٹا دیا جاتا ہے ناکارہ عمر کی طرف تاکہ وہ کچھ نہ جانیں جان لینے کے بعد۔بیشک اﷲ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہر چیز پر قادر ہے“.... یعنی گوناگوں نفع رساں چیزوں کو اﷲ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔اے انسان! تیرا بھی وہی خالق ہے۔قدرت کی کرشمہ کاریوں کا مشاہدہ کر۔جب تو پیدا ہوا تھا، تیرا کیا حال تھا۔تیری جسمانی ا ور دماغی قوتوں میں کس طرح آہستہ آہستہ ترقی ہوتی گئی، یہاں تک کہ تم نے شباب کی منزل میں قدم رکھا۔پھر دھیرے دھیرے تمہاری قوتوں کو زوال شروع ہوا۔ یہاں تک کہ تم پیر فرتوت(کبڑے) بن گئے۔ سنجیدگی رخصت ہوگئی۔عقل وخرد نے ساتھ چھوڑ دیا۔قوت وطاقت کی جولانیاں بھولی بسری کہانیاں بن گئیں۔آنکھ کے چراغ دھندلا گئے۔قوتِ سماعت میں کمی ہوگئی۔قوتِ یادداشت میں کمی واقع ہوگئی۔چلنے پھرنے کی طاقت بھی سلب ہوگئی۔ ایک ایک کرکے سارے دوست اور عزیز واقارب چل بسے۔اﷲ تعالیٰ اِس چیز پر قادر ہے کہ جس نے تمہیں بچپن کی ناتوانی سے جوانی کی شیرا فگن قوتوں تک پہنچایا پھر وہاں سے اُتار کر بڑھاپے کے بستر پر لٹا دیا“....!
(2) سورة الحج: ترجمہ:” اے لوگو! اگر تمہیں کچھ شک ہو روزِمحشر جی اُٹھنے میں تو ذرا اِس امر میں غور کرو کہ ہم نے ہی پیدا کیا تھا تمہیں مٹی سے پھر نطفہ سے،پھر خون کے لوتھڑے سے،پھر گوشت کے ٹکڑے سے۔ بعض کی تخلیق مکمل ہوتی ہے اور بعض کی نامکمل، تاکہ ہم ظاہر فرمادیں تمہارے لئے اپنی قدرت کا کمال اور ہم قرار بخشتے ہیں رحموں میں جسے ہم چاہتے ہیں ایک مقررہ میعاد تک،پھر ہم نکالتے ہیں تمہیں بچہ بنا کر،پھر پرورش کرتے ہیں تمہاری تاکہ تم پہنچ جاﺅ اپنے شباب کو ۔اور تم میں سے کچھ پہلے فوت ہوجاتے ہیں اور تم میں سے بعض کو پہنچادیا جاتا ہے نکمی عمر تک تاکہ وہ کچھ نہ جانے ہر چیز کو جاننے کے بعد، یعنی پیدائش سے موت تک انسانی زندگی جن مراحل سے گزرتی ہے، اُن کا بیان وضاحت کے ساتھ فرما دیا۔اگر انسان فقط اِسی میں غور وفکر کرے تو اُسے پتا چل جائے گا کہ اﷲ تعالیٰ ہی انسان کا خالق ہے جو استقرار حمل سے لے کر وضع حمل تک،پھر بچپنے سے لے کر موت تک حفاظت فرماتا ہے۔غرضیکہ زندگی کے کسی دور کا آپ مطالعہ کریں تو اﷲ تعالیٰ کے علم اور اُس کی حکمت کے چراغ جگمگاتے نظر آئیں گے“۔
(3)سورة الاحقاف:(ترجمہ)” اور ہم نے حکم دیا ہے انسان کو کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔اپنے شکم میں اُٹھائے رکھا اِس کو اُس کی ماں نے بڑی مشقت سے اور جنا اُس کو بڑی تکلیف سے اور اُس کے حمل اور اُس کے دودھ چھڑانے تک تیس مہینے لگ گئے۔یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری قوت کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوگیا تو اُس نے عرض کی اے میرے رب! مجھے والہانہ توفیق عطا فرما کہ میں شکر ادا کرتا رہوں گا تیری اُس نعمت کا جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمائی اور مَیں ایسے نیک کام کروں جن کو تو پسند فرمائے اور صلاح ورُشد کو میرے لئے،میری اولاد میں راسخ فرما دے۔بیشک مَیں توبہ کرتا ہوں تیری جناب میں اور مَیں تیرے حکم کے سامنے سرجھکانے والوں میں سے ہوں“.... یعنی انسان کی عمر40سال ہوتی ہے تو اُس کی جسمانی اور ذہنی قوتیں پورے شباب پر ہوتی ہیں۔اُس وقت نہ عنفوان شباب کا وہ اندھا جوش باقی رہتا ہے، نہ بڑھاپے کی کمزوریوں نے پنجے گاڑے ہوتے ہیں۔ جسمانی اور ذہنی اعتبار سے یہ وقت بڑا معتدل ہوتاہے۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ آدمی جس کی عمر چالیس سال سے متجاوز ہو ، پھر بھی وہ تائب نہ ہو تو شیطان اُس کے منہ پر ہاتھ پھیرتا ہے(پنجہ مارتا ہے) اور کہتا ہے کہ یہ ایسا چہرہ ہے جو کبھی سرخرو نہیں ہوگا۔
حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے.... جس کے چالیس سال گزر جائیں، پھر بھی اُس کی نیکی اُس کی بُرائی پر غالب نہ ہو تو ایسے شخص کو دوزخ کی تیاری کرنی چاہیے۔یہ امر مسلمہ ہے کہ انسان کی چالیس سالہ عمر زندگی میں ایک فیصلہ کن مرحلہ ہوتا ہے۔یہی عمر ہے جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار کیا ہے اور مثالیں دی ہیں،پیغمبروں اور رُسولوں کو40سال کے بعد نبوت عطا فرمائی ہے۔شیخ سعدیؒ نے انسانی زندگی چالیس، پچاس اور ستر کے بارے میں اِس طرح سے توضیح فرمائی ہے:۔
چہل سال عمر عزیزت گزشت
مزاجِ تواز حال طفلی نہ گشت
اے کہ پنجاہ رفت درخوابی
مگر ایں پنج روزہ دریابی
بیا ایکہ عمرت بہفتاد رفت
مگر خفتہ بودی کہ برباد رفت
(4)سورئہ یٰسین نمبر36 آیت نمبر68:۔” اور جس کو ہم طویل عمر دیتے ہیں توکمزور کردیتے ہیں اِس کی طبعی قوتوں کو ،پھر کیا یہ اتنی بات بھی نہیں سمجھتے“.... یعنی جس کو ہم طویل عمر دیتے ہیں،اِس کی تخلیقی اور طبعی قوتیں آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ جواب دینے لگتی ہیں، یہاں تک کہ اُس کے تمام اعضائے رئیسہ میں ضعف وزوال پیدا ہوجاتا ہے۔ قوت مدافعت وبرداشت ختم ہوجاتی ہیں۔ نسیان کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔انسان کا ڈھانچہ ”SKELETON“ جسے جلد”SKIN“ نے منڈھ رکھا ہے، ڈھیلی ہوکر ہڈیوں سے علیحدہ ہوکر لٹک جاتی ہے۔بدیں وجہ انسان چلنے پھرنے سے بھی عاجز ہوجاتا ہے۔شکل وصورت جو کبھی چمک دمک رہی ہوتی ہے، وہ عجیب طرح کی گھناﺅنی صورت بن جاتی ہے۔ فاعبتروایا اولی الابصار! اِس عمرِ ناتواں میں بھلا کوئی حکومتی اُمور کس طرح خوش اُسلوبی اور مستعدی سے سرانجام دے سکتا ہے؟
(5) سورة نون 40آیت نمبر67کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:۔”اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس نے پیدا کیا تمہیں مٹی سے،پھر نطفہ سے،پھر گوشت کے لوتھڑے سے۔پھر نکالا تمہیں شکم مادر سے بچہ بنا کر۔ پھر پرورش کی تمہاری تاکہ تم پہنچو اپنی جوانی تک۔ پھر تمہیں زندہ رکھا تاکہ تم بوڑھے ہوجاﺅ اور بعض تم میں سے فوت ہوجاتے ہیں۔پہلے ہی اور یہ سارا نظام اِس لئے ہے کہ تم پہنچ جاﺅ مقررہ میعاد تک تاکہ تم رب کی عظمتوں کو سمجھ سکو“....یعنی انسان کی تخلیق کے نقطہ آغاز سے لے کر اُس کی آخری منزل تک تمام مراحل بیان کردئیے ہیں۔ہر انسان کی موت کا وقت پہلے ہی متعین ہوتا ہے۔ کوئی بچپن میں،کوئی جوانی میں چل بستا ہے اور کسی کو بڑھاپے تک مہلت دے دی جاتی ہے۔موت کس عمر میں،کہاں اور کس طرح آنی ہے، یہ راز اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاس ہی رکھا ہے۔
(6)سورئہ یوسف نمبر12آیت نمبر22میں ارشادِ ربانی ہے:” اور جب وہ پہنچے(حضرت یوسف علیہ السلام)اپنے پورے جوبن کو تو ہم نے عطا فرمائی اُنہیں نبوت اور علم اور یونہی ہم نیک جزا دیتے ہیں اچھے کام کرنے والوں کو“....” اَشُدَّہ“ سے مراد عمر کا وہ حصہ ہے ،جس میں انسان کی تمام تر جسمانی اور عقلی قوتیں پوری طرح نشو ونما پالیتی ہیں۔حکماءکے نزدیک یہ تیس اور چالیس سال کے درمیانی عرصہ کا نام ہے۔جب حضرت یوسف علیہ السلام کی فطری صلاحتیں پوری طرح رونما ہوچکیں تو اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں علم وحکمت عطا فرمائی۔ (جاری ہے) ٭