بھارتی آبی جارحیت سے کیسے محفوظ رہا جائے؟
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خط کا جواب بھیج دیا ہے اور ان کی طرف سے آزاد کشمیر کے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے کی جانے والی پیشکش کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے لئے تمام تنازعات کے حل کی ضرورت کا بھی احساس دلایا ہے۔ نریندر مودی نے سری نگر(مقبوضہ کشمیر) کے سیلاب زدہ علاقے کا دورہ کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم کو خط لکھ کر سیلاب سے ہونے والے نقصان پر ہمدردی اور افسوس کا اظہار کیا اور پیشکش کی کہ پاکستان چاہے تو وہ (نریندر مودی) آزاد کشمیر کے متاثرین کی مدد کر سکتے ہیں، وزیر اعظم پاکستان نے اس پیشکش کے جواب میں احسن طریقے سے معذرت کر لی ہے جبکہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید نے کہا ہے کہ بھارت کشمیریوں کو آزاد کر دے تو یہی ان کی مدد ہو گی۔
سیلاب اور بارشیں قدرتی امر ہیں۔ ان پر کسی کا بھی اختیار نہیں تاہم اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو عقل و فہم عطا کیا اس کی بدولت نقصان کو کم کرنے کی فکر کی جا سکتی ہے اور وہ اب اس طرح ممکن ہے کہ دریاﺅں پر ڈیم بنائے جائیں جو سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کر لیں اور اس کی شدت بھی کم ہو جائے، بھارت نے اس سلسلے میں سندھ طاس معاہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ، جہلم اور چناب کے بالائی حصے پر کشن گنگا اور ایسے دوسرے ڈیم بنائے ہیں جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں، دریائے راوی اور ستلج کے طاس پر بھی پانی کا ذخیرہ کیا جاتا ہے اور ان دریاﺅں میں پانی سیلاب کے زمانے میں چھوڑا جاتا ہے جب بھارت کے ڈیم بارشوں سے برسنے والے پانی کا بوجھ نہیں سہار سکتے، یوں برسات اور سیلاب کی صورت میں ان دریاﺅں میں بھی پانی چھوڑ دیا جاتا ہے جو پاکستانی علاقے میں نقصان کا باعث بنتا ہے۔اس سال بارشیں تاخیر سے ہوئیں اور مسلسل شدت سے ہوتی رہیں جس کی وجہ سے چناب جہلم، راوی اور ستلج کے طاس پر بھی سیلاب کی کیفیت بنی جسے بھارت کے ماہرین نے پاکستان کی طرف زیادہ پانی چھوڑ کر سنبھالنے کی کوشش کی۔ یوں چناب اور جہلم بپھر گئے تو راوی نے بھی نقصان کیا۔
جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید نے اسے ”واٹر وار“ (پانی کی جنگ) قرار دیا اور حکومت پاکستان سے کہا کہ وہ بھارت سے احتجاج کرے، یہ حقیقت ہے کہ جس انداز سے اور جتنی مقدار میں بھارت کی طرف سے یکایک پانی چھوڑا گیا اس سے پاکستان میں ان دریاﺅں کے علاقوں میں بہت زیادہ نقصان ہوا اور شدید سیلاب آیا ہے جو پنجاب میں دو سو سے زیادہ جانوں کا نذرانہ لے کر اور کروڑوں کا نقصان کر کے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ نقصان مکانات اور مال و اسباب کے علاوہ فصلوں کی تباہ کاری کی صورت میں بھی ہوا ہے۔حافظ محمد سعید کی بات کو آپ زیربحث نہ بھی لائیں تو بہرحال یہ احساس تو لازمی ہو چکا کہ مستقبل میں ہمارا دشمن اسلحہ اور فوج کے بغیر بھی ہمیں نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتا ہے ، اس لئے اب ہمارے لئے اپنا دفاع ضروری ہو گیا اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ ہم جس قدر جلد ہو سکے ، ان دریاﺅں پر ڈیم بنا لیں۔ اس سے برساتی پانی کا ذخیرہ ہ جائے گا اور سیلاب کی شدت بھی کم ہو گی جبکہ ڈیموں میں ذخیرہ کیا گیا پانی فصلوں کے کام بھی آئے گا اور پھر یہ ڈیم سستی بجلی بھی دیں گے۔حالیہ سیلاب نے یہ اجاگر کر دیا اور ضرورت کا احساس بھی دلا دیا ہے چنانچہ ہمیں یہ کام ترجیحی بنیادوں کرناچاہئے۔
یہاں یہ درخواست بے محل نہیں ہو گی کہ ایسے اہم ترقیاتی اور حفاظتی پروگراموں کے لئے ملک کے اندر امن و استحکام کے علاوہ باہمی تعاون اور رواداری کی بھی ضرورت ہے اگر عمران خان ڈیموں کا ذکر کرتے ہیں تو ان کو یہ بھی احساس ہونا چاہئے کیا قومی نقطہ نظر سے یہ ممکن ہے کہ حکمران صحیح سوچیں اور حزب اختلاف بھی تعاون کرے؟