گلبرگ میں اربوں کی لاوارث اراضی ہتھیانے کیلئے قبضہ مافیا پھر سرگرم
لاہور (عامر بٹ سے)گلبرگ III میں واقع کینال پارک میں موجود 9 کنال اربوں روپے مالیت کی سرکاری جائیداد ہتھیانے کے لئے لینڈ مافیا ریونیو ملازمین کے ساتھ مل کر 3سال بعد پھر سرگرم ہو گیا ہے مصدقہ ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق چند دن بعد ریٹائرڈ ہونے والے ایڈیشنل کمشنر اشتمال نے بھاری رقوم کی وصولی کے بعد بحق سرکار ضبط کی جانے والی "لاوارث"جائیداد جعلسازوں کے نام منتقل کرنے کا حکم صادر کر دیا ،ایڈیشنل کلکٹر ریونیو سمیت سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب کے دفاتر میں ہونے والی انکوائری اور فیصلہ جات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا حقائق اور قانونی پریکٹس سے ہٹ کر سنایا جانے والا فیصلہ بھی تحریری طور پر مشکوک نظر آیا سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب ،کمشنر لاہور اور ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن پنجاب سے فوری نوٹس لینے کی ا پیل کی گئی ہے ۔ معلوم ہواہے کہ 2008ء کو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کو درخواست دیتے ہوئے اس متنازعہ جائیداد پر قابض البرٹ کلائیو ولد اے ایس کلائیو نے الزام عائد کیا تھا کہ 1965ء سے میرا مقدمہ آنجانی کتھیرین ملز جس میں وہ میری زمین کے وارث ہونے کا دعویٰ کرتی تھی اور جسکو وہ کسی عدالت میں اپنا کیس ثابت نہ کر سکی بالآخر 1978ء میں فوت ہو گئی تاہم اس وقت کے مقامی لینڈ مافیا نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر 1976ء میں جعلسازی سے چھ عدد رجسٹریاں بابت میری زمین واقع کینال پارک چارلس فلپس کے ساتھ مل کر کرالی جس کا علم مجھے یا میڈیم آنجہانی کتھرین ملز کو نہ تھا کتھرین ملز کے فوت ہونے کے چھ سال بعد قبضہ گروپ نے میرے خلاف قبضہ کا کیس کر دیا جو زائد از معیاد تھا یہ مقدمہ سول کورٹ لاہور سے 1995ء میں میرے حق میں ہوا مخالف فریق اس فیصلہ کے خلاف ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ لاہور اپیل میں گیا اور کسی نہ کسی طریقہ سے اپیل میں فیصلہ اپنے حق میں کروا لیا اسکے بعد میں نے 1996ء میں ہائیکورٹ میں نگرانی کی درخواست دائر کی جس کا مقدمہ نمبر C.R. 979/96 تھا تقریباً 10 سال بعد 2006ء میں بعدالت جسٹس نسیم سکندر جج لاہور ہائیکورٹ لاہور میرے حق میں ہوا اس فیصلہ کے تحت ہائی کورٹ نے میرا Adverse Possession مالکانہ حقوق 1959ء میں جو کنفرم ہو گئے تھے اس کو تسلیم کر لیا اور چونکہ اس پلاٹ کا کوئی مالک یا وارث موجود نہ تھا اور اس پلاٹ پر 1947ء سے میرے قبضہ میں تھا اس پلاٹ کا مالک بنا دیا قبضہ گروپ کو ی فیصلہ ناگوار گزرا ہائی کورٹ نے قبضہ گروپوں کی رجسٹریاں بوگس اور دو نمبر اور ٹائم بارڈ قرار دے دیں اور مزید اس فیصلہ میں کیتھریں ملز اور اس کے بیٹے چارلس فلپس کو وارث تسلیم نہ کیا مخالف فریق قبضہ گروپ نے ہائیکورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی جو تاحال زیر سماعت ہے تاہم اس جائیداد کو ہتھیانے کے لئے ایک اور لینڈ مافیا نے سابق پٹواری عابدعلی اور گرداور شیخ عرفان کے ساتھ ساز باز کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کی نہ صرف حکم عدولی کرتے ہوئے چارلس فلپس کے نام انتقال درج کر دیا بلکہ زیر فیصلہ انتقالات کی فرادت بھی جاری کر دی گئی جس سے جو انتقال وراثت ابھی زیر فیصلہ تھے ان کی فرد ملکیت پہلے جاری ہونے کے باعث رجسٹریاں پاس ہو کر آ گئیں اور مزید ان رجسٹریوں کے انتقالات بھی حاجی ناصر حسین ولد عزیز الدین اور ظہیر الدین بابر ولد میاں یونس کے نام درج کر دئیے گئے جس کا علم ہونے پر سابقہ اے سی کینٹ نے مذکورہ پٹواری عابد علی اور شیخ عرفان کو معطل کر دیا اور باقاعدہ اس کی انکوائری رپورٹ بھی طلب کر لی جس پر عابد پٹواری کے بعد تعینات ہونے والے پٹواری حلقہ اچھرہ شیخ اکرم نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا کہ کیتھرین ملز کی وراثت کا بنیادی انتقال 17896 اور اس کے بعد درج کئے جانے والے انتقالات 18095,18096 جو کہ حاجی ناصر حسین و ظہیر الدین بابر کے نام درج کئے گئے ہیں وہ غیر قانونی ہیں اس کے علاوہ جس رپٹ نمبر 1147 مورخہ 16-04-09 کو جاری کی گئی ہیں وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور جو انتقال نمبر 17895 عدالت عالیہ کے حکم کے برعکس ہوا ہے اس لئے زیر فیصلہ انتقالات کو بھی خارج کیا جانا مناسب ہے اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے او ر روزنامہ پاکستان کی جانب سے 9اگست 2012کو شائع ہونے والی خبر میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی اس جعلسازی کو بے نقاب کیا گیا جس کا سابق سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب سمیع سعیدنے فوری نوٹس لیااور سابق ایڈیشنل کلکٹر لاہور نادر چٹھہ کو اس کی باضابطہ انکوائری کا حکم دیا جس کے بعد ریونیو ریکارڈ اور انکوائری کے تحت انتقالات کو خارج کر دیا گیا اور رقبہ بحق سرکار ضبط کر لیا گیا جبکہ اسی رقبے پر سابقہ ڈی سی او نور الامین مینگل نے سرکٹ ہاؤس بنانے کی تجویز بھی دی تھی تاہم 2012میں ضبط کی جانے والی سرکاری زمین اس وقت دوبارہ قبضہ جما لیا گیا جب ان انتظامی افسران کے تبادلے ہوئے اور تین سال کے وقفے کے بعد مذکورہ لینڈ مافیانے چند روز بعد ریٹائرڈ ہونے والے ایڈیشنل کمشنر اشتمال سرور نور کی خدمات حاصل کیں ،مبینہ اطلاعات کے مطابق دو ماہ کے اندر اس کیس کا فیصلہ سنانے کے لئے باقاعدہ لمبی چوڑی رشوت وصول کی گئی اور اس ڈیلنگ میں محکمہ مال کے چند بااثر پٹواری اور تحصیل دار بھی شامل ہوئے،جس کے بعد انتہائی مشکوک تحریر سے مرتب کیا گیا فیصلہ سنا دیا گیا جس کا مقدمہ نمبر (579) ACRمورخہ 20-08-15ہے اور اس میں ایڈیشنل کمشنر کی جانب سے ریونیو افسر کو حکم صادر فرمایا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر بحق سرکار ضبط کیا جانے والا رقبہ درخواست دہندہ کے نام منتقل کریں ،قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ ممبر کالونی ،ہیڈ کلرک نزول برانچ سمیت دیگر انتظامی افسران خاموشی سے سنائے جانے والے اس فیصلے اور بحق سرکار ضبط کی جانے والی اس جائیداد کے حوالے سے لاعلم نظر آئے ،ریونیو ماہرین کا کہنا ہے کہ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب ندیم اشرف ،کمشنر لاہور عبداللہ سنبل اور ڈائریکٹر اینٹی کرپشن پنجاب انور رشید اس لاواراث جائیدا د کی منتقلی کا نوٹس لیتے ہوئے فوری کاروائی عمل میں لائیں دوسری جانب ایڈیشنل کمشنر اشتمال سرور نور کا کہناہے کہ فیصلہ میرٹ پر کیاہے کسی کو اعتراض ہے تو وہ کمشنر لاہور کی کورٹ میں اپیل کرسکتاہے رشوت وصولی کے الزامات بے بنیاد ہیں جس کی سختی سے تردید کرتاہوں ۔