سیاسی رشتے پاگل پن ۔۔۔؟
اندلس کے عظیم فقیہہ اور فلسفی ابن رشد نے انسانی رشتوں کے بارے میں کہا تھا’’اب رب ، ام فم، عم غم، خال و بال، اقارب عقارب‘‘ ۔۔۔ یعنی باپ پرورش کرنے اولا، ماں مونہہ سے نکلنے والی ہر بات پوری کرنے والی، چچا، نراغم، ماموں اور خالووبال اور رشتے دار، بچھو ہوتے ہیں۔نوع انسانی کی افزائش و سہولت انہی رشتوں کے باعث ہے رشتوں کا باہمی تعلق، تعلق خاطر پر ہو تو زندگی فرحت و مسرت کا گہوارہ ہوتی ہے ورنہ زندگی عذاب بن جاتی ہے۔رشتہ داروں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں، یعنی قریب کے رشتہ دار، دور کے رشتہ دار اور بھنبھور کے رشتہ دار ۔۔۔قریب کے رشتہ دار تو ماں باپ اور اولاد کے تعلق سے، دور کے رشتہ دار دادا، نانا یا اولاد کے سسرال کے حوالے سے اور بھنبھور کے رشتہ دار ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی تفصیل سردردی کا باعث بن جاتی ہے، مثلاً ’’یہ کون ہے؟‘‘ یہ ممانی کے چچا کی بیٹی کے دیور کے سالے کی بیوی کے بھائی کے بیٹے کا سسر ہے۔‘یا بعض رشتہ دار خوامخواہ کے ہوتے ہیں یعنی ’’وہ جو تمہاری بیٹی کا سسر ہے اس کے بھائی کی بیٹی جہاں بیاہی ہوئی ہے وہ ہماری عزیز داری میں قریب کے رشتہ دار ہیں۔‘‘
خون کی رشتہ داری سب سے قریبی سمجھی جاتی ہے، حالانکہ معاشرتی طور پر اس کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، اگر خون کی رشتہ داری ہو تو جو نشئی بلڈ بینک کو خون بیچتے ہیں اور وہ خون مختلف مریضوں کو لگا دیا جاتا ہے، اس خون کی وجہ سے نشئی اور مریض کا رشتہ کیوں نہیں بن جاتا؟ اصل رشتہ تو میل ملاپ کا ہوتا ہے یا اخلاص و نظریات کا ہوتا ہے۔ہارون الرشید کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا کہ وہ ’’امیر المومنین‘‘ کا ہم زلف ہونے کا دعویدار ہے۔ ہارون نے پوچھا’’تم میرے ہم زلف کیسے ہو گئے؟‘‘ اس نے کہا’’امیر المومنین! دو بہنیں تھیں، ایک راحت دوسری آفت، راحت آپ کے گھر آ گئی اور آفت میرے گھر، اس رشتہ سے آپ میرے ہم زلف ٹھہرے۔‘ہارون الرشید اس جواب پر مسکرا دیا، وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ کوئی ’’حاجت مند‘‘ ہے۔ حکم دیا، اس کو چند سو اشرفیاں عطا کر دی جائیں۔ اس آدمی نے کہا ’’امیر المومنین، اپنے رشتہ دار کو اتنی سی اشرفیاں؟‘‘ ہارون الرشید نے کہا ’’جلدی سے یہ سنبھال لو، ورنہ تمہاری طرح کے اور رشتہ داروں کو خبر ہو گئی تو یہ بھی تمہارے حصے میں نہ آئیں گی۔‘‘
تھوڑا عرصہ قبل سرگودھا اور لالہ موسیٰ سے ایک سی خبریں آئی تھیں کہ وہاں سگے باپ بیٹے نے دو سگی بہنوں سے شادی کر لی تھی جس پر عُلما نے مختلف قسم کے فتوے صادر کئے تھے اس انوکھی شادی سے جو سوالات ابھرے تھے وہ بذات خود دلچسپ تھے۔ باپ کی بیوی، بیٹے کی ماں ہوئی تو کیا بیٹا اس ماں کی بہن (جو رشتے میں اس کی خالہ بنی) سے شادی کر سکتا ہے؟ یا بیٹے کی بیوی (جو باپ کی بہو ہے) کی بہن سے باپ شادی کر سکتا ہے؟ عُلما اس طرح کے سوالات پر بحث کر رہے تھے، لیکن ہمیں الجھن تھی کہ باپ بیٹا، اس شادی کے بعد آپس میں کس نئے رشتہ کی لڑی میں الجھ گئے ہیں اور خود دونوں بہنوں کا باہمی رشتہ کیا ہو گا؟باپ بیٹا، دونوں ہم زلف بھی بنتے ہیں تو باپ کی بیوی لڑکے کی ماں بھی اور دوسرے رشتے سے یہی ماں، سالی بھی ٹھہری۔ اسی طرح باپ کی بیوی بیٹے کی بیوی کی بہن تو ہے مگر رشتے میں ساس بھی، جبکہ بیٹے کی بیوی باپ کی بہو بھی اور سالی بھی۔ باپ کی بیوی کی بہن بھی اور سالی بھی!
آگے چل کر دونوں کے بچے ہوئے تو وہ آپس میں کن کن رشتوں کے جنجال میں پھنسیں گے؟ سوچنے !’’باپ کا بچہ، بیٹے کا بھائی بھی ہو گا اور بیوی کے حوالے سے بھانجا بھی، بیٹے کی بیوی اس بچے کی خالہ بھی ہو گی اور بھابھی بھی۔ بیٹے کے گھر بچہ ہوا تو باپ کی بیوی، اس بچے کی خالہ بھی اور دادی بھی، جبکہ باپ، اس بچے کا خالو بھی، دادا بھی، سوچتے چلے جائیں تو معلوم نہیں کیا کیا رشتے معرض وجود میں آئیں گے اور نت نئے گل کھلائیں گے!کہتے ہیں، ایک وزیر صاحب، ایک پاگل خانے کے دورے پر تشریف لے گئے، وہاں ایک مریض کو دیکھا جو صحت مند دکھائی دیتا تھا۔ وزیر صاحب نے پوچھا ’’میاں ! تم پاگل خانے کس طرح آئے؟‘‘ اس نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا ’’کیا بتاؤں؟، میں صحت مند ہوں ۔ بس! کچھ عرصہ قبل ایک بیوہ سے شادی کر لی تھی، اس کی ایک بیٹی تھی، میرے باپ نے اس لڑکی سے شادی کر لی، پھر میرے باپ کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی، نو مولود بچی رشتہ میں میری بہن لگی کہ میں اس کے باپ کا بیٹا تھا، دوسر ی طرف وہ میری نواسی بھی تھی کہ میں اس کی نانی کا خاوند تھا۔ گویا میں اپنی بہن کا نانا بھی بن گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد میرے گھر لڑکا پیدا ہوا، ایک طرف میری سوتیلی ماں میرے بیٹے کی بہن لگتی تھی کہ وہ بچہ اس کی ماں کا بیٹا تھا دوسری طرف وہ اس کی دادی لگتی تھی کیونکہ وہ میرے باپ کی بیوی اور میری سوتیلی ماں تھی، چنانچہ میرا بیٹا اپنی دادی کا بھائی بھی تھا اور پوتا بھی ۔۔۔ وزیر صاحب! ذرا سوچیں ! میرا باپ، میرا داماد ہے اور میں اپنے باپ کا سسر ہوں، میری ماں ، میرے بیٹے کی بہن ہے چنانچہ میرا بیٹا میرا ماموں ہوا اور میں اپنے بیٹے کا بھانجا ٹھہرا جبکہ میری بیوی اس رشتے سے اپنے ہی بٹیے کی بھانج بہو بھی ہوئی اور میری سوتیلی ماں میرے بیٹے ۔۔۔‘‘ ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ وزیر صاحب نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا اور چیخ کر کہا’’خدا کے لئے چپ ہو جاؤ، نہیں تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘
اس واقعہ میں بیان کردہ رشتوں سے دماغ کی چولیں ہل جاتی ہیں، اسی طرح ہمارے ملک میں جونت نئے جمہوری و سیاسی تماشے ہوتے اور بیان بازیوں، کہہ مکرنیوں کے قصے سامنے آتے رہتے ہیں وہ بھی دل و دماغ میں ہل چل مچا دیتے ہیں، سمجھ میں نہیں آیا کہ ان ’’یوٹرن‘لینے اور بے اصولیاں کرنے والے لیڈروں اور بیانات بدلتے رہنے والے سیاست دانوں سے ہمارا رشتہ ہے کیا؟ چاہت کا رشتہ ہے یا برداشت کا؟ آئینی ضرورت کا یا معاشرتی مجبوری کا؟ نظریات و اصول کا یا مفادات و اغراض کا ؟ ۔۔۔ ملکی ترقی و خوشحالی کا یا ہنگامہ شور و شری کا ؟ ۔۔۔عقیدت کا یا تماش بینی کا ؟۔۔۔اسی طرح ملکی پارٹیوں کا باہمی رشتہ کیا ہے؟ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے باعث حلیفوں کا ہے یا ایک دوسرے سے ازلی دشمن کا ؟ مصلحت کا یا منافقت کا؟مسلم لیگ (ن) اور (ق) میں کیا رشتہ ہے، سوتیلی بہنوں کا یا سوتنوں کا؟ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان کیا رشتہ ہے، ’’جانی دشمنوں‘‘ کا یا ’’جگری دوستوں ‘‘ کا ؟ ایک دوسرے کے خفیہ معاونوں کا یا انتخابی حلیفوں کا؟۔۔۔قومی اسمبلی میں موجود حکومتی اتحادیوں اور اپوزیشن پارٹیوں کی، ’’رشتہ داری‘‘ بھی عجیب و غریب ہے ایک طرف نظریات و اصول ہیں تو دوسری طرف مفادات و اغراض ۔۔۔ 2018ء کے الیکشن کی پیش بندیاں بھی سامنے ہیں اور موجودہ حالات کے تقاضے بھی۔ گزشتہ تلخ بیانات کی بازگشت بھی گونج رہی ہے اور حال کی ضروریات بھی مدنظر ہیں۔ تحریک انصاف کے کنٹینروں کی تند زبانی بھی ہے اور ’پانامہ لیکس‘‘ کے نام کی صف بندی بھی۔ اکیلے جلسوں کی عادت بھی سامنے ہے اور اسپیکر کی طرف سے الیکشن کمیشن کو بھیجے ریفرنس پر ’’یک زبانی‘ کی خواہش بھی ۔۔۔۔۔۔ سیاسی رشتے بھی نرا پاگل پن ہیں اور کچھ نہیں۔