پاکستان کے خلاف مودی کی بے جا الزام تراشیاں
پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ہمسایہ مُلک دہشت گردوں کی مالی مدد کر رہا ہے، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو نے بتا دیا کہ کون سی قوم دہشت گردی میں ملوث ہے، وزیراعظم نواز شریف عالمی فورم (اقوام متحدہ) میں مسئلہ کشمیر بھرپور انداز میں اٹھائیں گے، شملہ معاہدہ کسی بھی صورت اقوام متحدہ کی قراردادوں کا متبادل ثابت نہیں ہو سکتا۔ بھارت امریکہ معاہدوں سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن متاثر نہیں ہونا چاہئے، بھارت نے ابھی تک اقوام متحدہ اور او آئی سی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کا مثبت جواب نہیں دیا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم کے تازہ سلسلے کو 62روز ہو گئے ہیں اِس دوران90سے زائد کشمیری شہید اور دس ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں، چھرّا بندوقوں سے 700کشمیریوں کی بینائی متاثر ہوئی ہے، جو افسوسناک ہے۔شملہ معاہدہ1971ء کی جنگ کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان اُس وقت ہوا تھا، جب بھارت نے سازش کر کے پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیئے، جس کا کریڈٹ نریندر مودی اب کھلے عام لیتے پھر رہے ہیں، شملہ معاہدے کو بھی اب کم و بیش نصف صدی ہونے والی ہے، بھارت مخلص ہوتا تو اِس معاہدے کے تحت کشمیر کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل ہو سکتا تھا، لیکن بھارت نے اِس سلسلے میں کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور نہ ہی کوئی ایسے مذاکرات شروع کئے، جن کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل ہونے کی امید کی جا سکتی۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ جب کبھی ایسے مذاکرات کا آغاز ہوا، دو چار سیشن کے بعد ہی بھارت نے پینترا بدل کر یا تو مذاکرات ہی ختم کر دیئے یا پھر معاملے کو تجارتی بھول بھلیوں میں اُلجھانے کی کوشش کی۔ بھارت کا ہمیشہ سے یہ خیال ہے کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات بڑھیں گے تو مسئلہ کشمیر خودبخود ختم ہو جائے گا یا پس منظر میں چلا جائے گا اس قسم کا بیان بھارتی ہائی کمشنر بمبانوالے نے بھی حال ہی میں دیا تھا غالباً اس کی وجہ سے انہیں کراچی چیمبر میں خطاب کی دعوت منسوخ کرنا پڑی، حالانکہ یہ خیالِ خام ہے اور متعدد بار غلط ثابت ہو چکا ہے اب تو حالت یہ ہے کہ بُرہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ رُکنے میں نہیں آ رہا، کشمیری عوام کرفیو کے باوجود احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں،بھارت کی سیکیورٹی فورسز نے اِس دوران سنگدلی کی انتہا کر دی، لیکن معاملے کو دبانے میں ناکام رہا، سو کے لگ بھگ شہادتوں اور700افراد کی بینائی زائل ہونے کے باوجود اگر کشمیری ڈٹے ہوئے ہیں تو یہ بھارت کے سوچنے کی بات ہے کہ یہ مسئلہ کیسے حل ہو گا؟
شملہ معاہدے کی اِس شق کا کہ دونوں مُلک اپنے تنازعات بات چیت کے ذریعے طے کریں گے، بھارت نے ہمیشہ یہ مطلب نکالا کہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ یا کسی دوسرے عالمی فورم پر نہیں اُٹھایا جا سکتا، یہ معاہدے کی عجیب و غریب توجیح ہے، جو بھارت کرتا ہے۔ اگر اِس سلسلے میں بھارتی نقطہ نظر مان بھی لیا جائے، تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نصف صدی کے دوران بھارت نے اِس مسئلے کے حل کی جانب پیش رفت کیوں نہیں کی؟ یہ تو عجیب بات ہے کہ باہمی مذاکرات بھی نہ کئے جائیں اور اگر کئے جائیں تو وقت گزاری کا رویہ اختیار کیا جائے اور جب پاکستان معاملے کا ذکر اقوام متحدہ میں کرے تو یہ شور مچا دیا جائے کہ یہ مسئلہ نہیں اُٹھایا جا سکتا۔ دفتر خارجہ نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان اِس مسئلے کو اقوام متحدہ میں پوری شدو مد سے اُٹھائے گا اور اِس سلسلے میں شملہ معاہدہ کوئی رکاوٹ نہیں۔اب اگر بھارت یہ محسوس کرتا ہے کہ عالمی ادارے میں کشمیر کا مسئلہ اٹھانے سے اُس کی سُبکی ہو گی تو اِس کا بہترین حل تو یہی ہے کہ وہ صِدق دلی سے مذاکرات کا آغاز کرے اور مسئلے کے حل کی راہ نکالے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو پاکستان کو جب بھی موقع ملے گا وہ اِس مسئلے کو اُٹھاتا رہے گا اور اقوام متحدہ کی توجہ اس جانب دلاتا رہے گا۔ کشمیریوں کی اخلاقی اور سیاسی حمایت بھی جاری رکھے گا اور اُن مظالم کی مذمت سے بھی گریز نہیں کرے گا، جنہوں نے انسانیت کو بھی شرما دیا ہے اور خود بھارت کے اندر سیاسی رہنما مظالم کا یہ سلسلہ روکنے کے مطالبات کر رہے ہیں اور کشمیری قیادت بھارتی حکومت کی شاطرانہ چالوں میں نہیں آ رہی۔ بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے چند روز قبل سری نگر کے دورے کے دوران حریت رہنماؤں سے ملنے کی کوشش کی تو انہوں نے انکار کر دیا۔مسئلہ کشمیر اور دوسرے تنازعات حل کرنا تو دور کی بات ہے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی تو اب ہر جگہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا رونا روتے پائے جاتے ہیں، وہ عالمی رہنماؤں سے ملتے ہیں، تو پاکستان کے خلاف شکایتوں کے انبار لگا دیتے ہیں، چینی قیادت کو کئی بار انہوں نے پاک چین اقتصادی راہداری کے سلسلے میں گمراہ کرنے کی کوشش کی، لیکن چینی قیادت نے ہمیشہ بُرد باری کا روّیہ اپنایا اور مودی کو سمجھایا کہ پاک چین اقتصادی راہداری سے بھارت کو پریشان نہیں ہونا چاہئے یہ صرف پاکستان اور چین، بلکہ خطے کے دوسرے ممالک کے لئے بھی جس میں بھارت شامل ہے گیم چینجر منصوبہ ہے، لیکن مودی کے دِل کا بوجھ اُس وقت تک ہلکا نہیں ہوتا، جب تک وہ پاکستان کے خلاف بھڑاس نہیں نکال لیتے۔ چین کے صدر سے انہوں نے سی پیک کی شکایت کی تو آسیان کے اجلاس میں ایک بار پھر پاکستان پر پابندیوں کا مطالبہ کر دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ دُنیا سے دہشت گردی کو مٹانا ہے، تو پاکستان پر پابندیاں لگانا ہوں گی۔
بھارت کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ قربت کی پینگیں بڑھانے، دفاعی معاہدہ کرنے اور نیو کلیئر سپلائرز گروپ(این ایس جی) کے معاملے پر امریکہ کی حمایت حاصل ہو جانے کے بعد وہ یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ وہ اب اِس گروپ کا رکن بنا کہ بنا، لیکن جواب میں پاکستان کی جارحانہ سفارت کاری نے اُسے ایسا جھٹکا دیا کہ مودی کی ساری دوڑ دھوپ، بلکہ اُچھل کود اکارت گئی اور چین نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ اگر این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والے ممالک کے لئے گروپ کی رکنیت کے دروازے کھولنے ہیں، تو پھر بھارت ہی کیوں؟ اور پاکستان کیوں نہیں؟ امریکہ بھارت کی حمایت پر اُدھار کھائے بیٹھا تھا، لیکن اس حمایت کا بھی اُسے فائدہ نہ ہوا، جو لوگ مودی کے دوروں کے بعد یہ سمجھ رہے تھے کہ بھارت اب اِس میدان میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ جائے گا اُن کے ہوش بھی ٹھکانے آ گئے اور اُنہیں معلوم ہو گیا کہ سفارت کاری محض بے کار دوروں اور بھاگم بھاگ ایک سے دوسرے ملک میں جانے کا نام نہیں، اس کے لئے سفارتی مہارت ضروری ہے، چنانچہ بھارت اب اپنے زخم چاٹ رہا ہے تو اُسے خیال آتا ہے کہ جب تک اس سنگِ گراں کو راستے سے نہیں ہٹایا جائے گا نیو کلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت ملنا مشکل ہے، چنانچہ دُنیا کو گمراہ کرنے کے لئے اس نے پاکستان کو دہشت گردی میں ملوث قرار دے دیا، حالانکہ دُنیا جانتی ہے کہ اِس میدان میں پاکستان کی خدمات کسی دوسرے مُلک سے کم نہیں، قربانیاں تو سب سے زیادہ ہیں دہشت گردی تو وہ ہے جو بھارتی فورسز کشمیر میں کر رہی ہیں اب بھارت کو یہ خدشہ پیدا ہوا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اقوام متحدہ میں اِس کا تذکرہ کر کے دُنیا کو بتائیں گے کہ بھارت کشمیر میں کیا غیر انسانی کھیل کھیل رہا ہے تو یہ سوچ کر مودی آپے سے باہر ہو رہے ہیں اور پاکستان پر پابندیوں کا مطالبہ کرنے لگے ہیں، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں، مودی کو پاکستان کی حقیقت اُسی طرح تسلیم کرنا چاہئے، جس طرح اُن کی پارٹی کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے سترہ برس قبل تسلیم کی تھی اور مینارِ پاکستان پر جا کر اس کی شہادت بھی دے دی تھی۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمسائے تبدیل نہیں کئے جا سکتے، مودی یہ حقیقت جتنی جلد مان جائیں اتنا ہی اُن کے لئے بہتر ہو گا۔