خیبر پختونخوا پولیس جدید تربیت کی جانب گامزن ہے ،افتخار شاہ
چارسدہ(بیورورپورٹ)خیبر پختونخوا پولیس جدید تربیت ،نئی عمارتوں اور بہتر رویوں کے ساتھ کمیونٹی پولیسنگ کی جانب گامزن ہے۔ ڈی آر سی، پی ایل سی اور پولیس اسسٹنٹ لائن نے عوام اور پولیس کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔میرٹ پر بھرتی اور سیاسی اثر و رسوخ سے آزادی نے بھی پولیس کی کارکردگی پر مثبت اثر ڈالاہے۔ ان خیالات کا اظہار سی آر ایس ایس کے زیر اہتمام چارسدہ میں منعقدہ اولسی پولیس ورکنگ گروپ اجلاس کے دوران پولیس افسران اور عوامی نمائندوں نے کیا ۔ سی آر ایس ایس خیبر پختونخوا کے تین اضلاع پشاور چارسدہ اور مردان میں یو ایس ایڈ ایمبیسیڈر فنڈز اور سمال گرانٹ کے تعاون سے قانون کی عملداری یقینی بنانے کے لئے منصوبہ روبہ عمل لا رہا ہے جس میں ریڈیو اور ٹی وی پروگرامز کے علاوہ پولیس اور عوام کے درمیان براہ راست مباحثے بھی شامل ہیں۔ پراجیکٹ کا مقصد پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد کو بڑھانا اور خوف کو کم کر کے ایک دوسرے کو قریب لانا ہے تاکہ عوام کو عالمی معیار اور قانون کے مطابق سروسز فراہم کی جا سکے۔ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پولیس افسران نے بتا یا کہ پولیس کی تربیت کے لئے چھ جدید ترین تربیتی مراکز کے قیام سے ان کی کاکردگی اور رویوں میں بہتری آئی ہیں اور آج کی پولیس دس سال پہلے کی پولیس سے کافی بہتر نظر آرہی ہے۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر چارسدہ افتخار شاہ نے کہا کہ آئی وی ایس ، وی وی ایس اور سی آر وی ایس جیسے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے عوام کے مسائل مہینوں کی بجائے منٹوں میں حل ہورہے ہیں جبکہ پولیس اسسٹنس لائن اور پولیس ایکسز سروس سے عوام کے مسائل تیزی اور آسانی سے حل ہو رہے ہیں۔ ورکنگ گروپ اجلاس میں شرکت کرنے والے کمیونٹی ممبران نے پولیس کی کارکردگی میں بہتری کی تعریف کی اور کہا کہ افسران کی بجائے پولیس اہلکاروں کی رویوں کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے جس کے لئے مزید تربیت اور چیک اینڈ بیلنس کا عملا نفاذ ضروری ہے ۔ کمیونٹی ممبران نے کہا کہ دیہی علاقوں میں رہائش پزیر عام لوگ پولیس اصلاحات سے ناواقف ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اب بھی پولیس سے خوفزدہ ہیں اور اصلاحات سے بھر پور فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ انھوں نے تجویز پیش کی کہ سی آر ایس کی طرح آگہی پراجیکٹس کے دائرہ کار کوگاوں اور دیہات تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ ان اصلاحات سمیت قانون کی حکمرانی یقنی بنانے کے لئے مقامی علماء کی خدمات حاصل کی جائے۔