ایٹمی اثاثوں کا تحفظ، پاکستان نے اہم اقدامات کئے: امریکی ماہرین

ایٹمی اثاثوں کا تحفظ، پاکستان نے اہم اقدامات کئے: امریکی ماہرین
ایٹمی اثاثوں کا تحفظ، پاکستان نے اہم اقدامات کئے: امریکی ماہرین

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

واشنگٹن (اے پی پی) پاکستان نے اپنے جوہری اثاثوں کے تحفظ کے لئے نمایاں اقدامات کئے ہیں، بھارت سے درپیش مسلسل خطرات کی وجہ سے جوہری طاقت کو برقرار رکھنا پاکستان کے قومی مفاد کا تقاضا ہے، این ایس جی کی رکنیت کے حصول کے لئے امریکہ کی بھارت کے لئے حمایت ٹھیک نہیں، پاکستان کو ایٹمی طاقت بڑھانے کے لئے مجبور کرنے کے ذمہ دار امریکہ اور بھارت ہیں۔

اس کا اظہار امریکی سینٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے اجلاس میں امریکی ماہرین نے کیا۔ اجلاس میں پاکستان امریکہ تعلقات اور امریکہ کو درپیش چیلنجز پر بات چیت کی گئی۔ امریکی ماہرین نے پاکستان کے جوہری اثاثوں کے تحفظ کے لئے پاکستان کی طرف سے کئے گئے اقدامات کی تعریف کی اور کہا کہ پاکستان نے اپنے جوہری اثاثوں کے تحفظ کے لئے نمایاں اقدامات کئے ہیں جس سے اس پر 2000ءمیں ڈاکٹر اے کیو خان نیٹ ورک کے باعث ابھرنے والا منفی تاثر ختم ہو گیا۔ کمیٹی کی سماعت میں کارنیگی اینڈومنٹ فارپیس کے شعبہ نیوکلئیر پالیسی پروگرام کے معاون ڈائریکٹر ڈاکٹر ٹوبی ڈلٹن، سی آئی اے کاونٹر ٹیررزم سنٹر کے سابق سربراہ اور سکیورٹی فرم ای آر جی پارٹنرز کے رابرٹ ایل گرنیئر اور جان ہوپکنز یونیورسٹی کے سینئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر ڈینیئل مرکے نے بطور گواہ شرکت کی اور بیان ریکارڈ کرائے۔

بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت نہ ملنے پر امریکہ مایوس، سعودی عرب سے متعلق بھی اہم اعلان کردیا

ڈاکٹر ٹوبی ڈلٹن نے کہا کہ پاکستان میں جوہری استعداد رکھنے پر مکمل سیاسی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستانی انتظامیہ اپنے جوہری اثاثوں کو محفوظ بنانے کے لئے یقینی اور نمایاں اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے سٹریٹجک پلاننگ ڈویژن کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ خالصتاً پیشہ وارانہ ہے جو اپنے ملک کو درپیش چیلنجز سے اچھی طرح واقف ہے اور اپنے کو درپیش خطرات کو سمجھتا ہے۔ سٹریٹجک پلاننگ ڈویژن میں پیشہ وارانہ تقسیم پائی جاتی ہے۔ پاکستان اپنے کو درپیش چیلنجز سے عہدہ برا ہونے اور خطرات سے نمٹنے کے لئے اپنے نظام اور بساط کے تحت کوششیں کر رہا ہے۔ ڈاکٹر ٹوبی ڈلٹن نے کہا کہ پاکستان نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ان کی جوہری ریسرچ لیبارٹریز میں کوئی ایسا شخص نہ ہو جس کی ہمدردیاں غیرریاستی گروہوں سے ہوں۔ ایک امریکی سینیٹر کے بیان کردہ مشاہدے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں پاکستان اور شمالی کوریا کے درمیان جوہری تعاون کے بارے میں جواز پیش کیا جاتا تھا۔ 2000ءکے ابتدا میں ڈاکٹر اے کیو خان نیٹ ورک کے خاتمے کے بعد یہ جواز بھی ختم ہو گیا ہے، ہمیں اب اس بارے کوئی جواز نظر نہیں آتا ماسوائے جو بھارتی میڈیا گاہے بگاہے پیش کرکے واویلا کرتا رہتا ہے۔

روزنامہ پاکستان کی خبریں اپنے ای میل آئی ڈی پر حاصل کرنے اور سبسکرپشن کیلئے یہاں کلک کریں

انہوں نے امریکی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کی توجہ ان اقدامات کی طرف دلائی جو پاکستان نے اپنے جوہری اثاثوں کے تحفظ کے لئے کئے جن میں لیگل فریم ورک، ایکسپورٹ کنٹرول سٹرکچر کا قیام اور ایٹمی سائنسدانوں کی نگرانی شامل ہے۔ پاکستان یہ سمجھ چکا ہے کہ اے کیو خان نیٹ ورک کی وجہ سے اس کے قومی تشخص کو کتنا نقصان پہنچا وہ اس بات کے لئے عملاً پ±رعزم ہے کہ آئندہ کبھی ویسا نہ ہو وہ چاہتا ہے کہ اس کے جوہری پروگرام کو قانونی سکیورٹی اقدام کی نظر سے دیکھا جائے۔ رابرٹ ایل گرینیئر نے کمیٹی کو بتایا کہ1990ءمیں امریکہ کی طرف سے سخت پابندیوں کی وجہ سے پاکستان بھارت سے درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے کسی بھی دوسرے سے مدد لینے پر مجبور تھا۔