پانچویں ایٹمی بجلی گھر کا افتتاح
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے سی پیک کے ثمرات ملنے شروع ہو گئے، آج آٹھ ماہ بعد پانچویں ایٹمی بجلی گھر سی فور کا افتتاح خوش آئند ہے،کسی بھی بین الاقوامی امداد کے بغیر چشمہ میں دسمبر2016ء کو منصوبے کا باقاعدہ آغاز ہوا،جب چشمہ یونٹ ون کی تعمیر کا معاہدہ ہوا تھا اُس وقت مُلک میں نواز شریف کی حکومت تھی، چشمہ میں چلنے والے تینوں یونٹ مُلک میں بہترین کارکردگی کے حامل ہیں اور اِس وقت مُلک کو300 میگاواٹ سے زائد بجلی ارزاں نرخ پر فراہم کر رہے ہیں۔ یہ منصوبہ ملکی ترقی کے لئے اہم قدم ثابت ہو گا یہی وہ منصوبہ ہے، جس نے مُلک میں نیو کلیئر توانائی کی بنیاد رکھی، جلد ہی کے ٹو اور کے تھری کو بھی مکمل کر لیا جائے گا مُلک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے،جس کے لئے ہم نے طاقتور جوہری منصوبے کی بنیاد رکھی، حکومت نے10ہزار میگاواٹ کے منصوبے لگائے جن کی وجہ سے ماضی کی نسبت آج بجلی کی صورتِ حال انتہائی بہتر ہے،نومبر میں لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی ہم نے رواں سال ترقی کا ہدف6فیصد مقرر کیا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ سی پیک کی بدولت مُلک میں ترقی کی رفتار میں مزید تیزی آئے گی، سی پیک کے تحت مُلک میں سڑکوں کا جال پھیلایا جا رہا ہے۔ تھرکول کو ڈویلپ کیا جا رہا ہے، گوادر پورٹ بھی تکمیل کے مراحل میں ہے اور ان کی بدولت مُلک کی ترقی کی شرح نمو5فیصد سے تجاوز کر گئی ہے چشمہ اور مظفر گڑھ میں جوہری توانائی کے مزید منصوبے لگائے جا رہے ہیں،جن سے 2020ء تک8800 میگاواٹ جوہری بجلی کا ہدف ہے۔
ہم گزشتہ دو عشروں میں توانائی کے جس خوفناک بحران سے گزرے ہیں اُس کی یادیں ہی بہت اذیت ناک ہیں اِس دوران مختلف حکومتیں آئیں اور گئیں،لیکن یہ بات تسلیم کی جانی چاہئے کہ مسلم لیگ(ن) کی موجودہ حکومت نے2013ء کا الیکشن جیت کر برسر اقتدار آنے کے بعد اس شعبے میں تیز رفتار منصوبے شروع کئے،جن میں سے بعض پیداوار دے رہے ہیں اور مزید کئی منصوبے جلد ہی آپریشنل ہونے والے ہیں اِس وقت بھی مُلک میں20ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جو پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کا ریکارڈ ہے،قیامِ پاکستان کے وقت پورے مُلک کی پیداوار ڈیڑھ سو میگاواٹ بھی نہیں تھی، اگر اِن اعداد و شمار کو ذہن میں رکھا جائے تو20ہزار میگاواٹ تک پہنچ جانا اگرچہ کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے تاہم ترسیلی نظام کی خرابیوں اور بوسیدہ نظام کی وجہ سے لوڈشیڈنگ اب بھی ہوتی ہے،جس کی اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ پیداوار میں جو اضافہ ہو رہا ہے اس سے لوگوں کو بھرپور استفادے کا موقع ملے۔
اِس وقت لوڈشیڈنگ کی ایک وجہ بجلی چوری بھی ہے، جو ایک منظم منصوبے کے تحت متعلقہ کمپنیوں کے عملے کے ساتھ مل کر ہوتی ہے، بجلی چوری کے سلسلے میں یہ بات دلچسپ ہے کہ ایک ڈیڑھ برس پہلے فرنس اور سٹیل کمپنیوں کے بعض مالکان نے مظاہرہ کیا تھا،جس میں اُن کا یہ نقطہ نظر سامنے آیا کہ سٹیل کا کاروبار گھاٹے کا سودا ہے اور بچت یا منافع وہی ہے جو بچلی چوری کی وجہ سے ہوتا ہے۔اب آپ تصور فرمائیں کہ جہاں ایسے ایسے نادر خیالات اور تصورات چوری کے حق میں موجود ہوں اور تعاون کرنے والا عملہ بھی ہو وہاں حکومت اگر چاہے بھی تو یہ کام نہیں روک سکتی اِس وقت بھی بجلی چوری ہوتی ہے اور دھڑلے سے ہوتی ہے،مُلک کے بعض شہر اور علاقے اس سلسلے میں خاصے شہرت یافتہ ہیں جہاں کُنڈے ڈال کر چوری برسر عام کی جاتی ہے،لیکن کسی حکومت یا مائی کے لال میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ اسے بند کرا سکے،حالانکہ بڑے بڑے ادارے موجود ہیں چوری رُک جائے تو اِس وقت بھی بجلی طلب کے مطابق مُلک کے اندر موجود ہے۔
اِس وقت بھی مُلک میں سستی ترین بجلی پانی سے حاصل ہوتی ہے اِس لئے ہماری اولین ترجیح ہائیڈل پراجیکٹس ہی ہونے چاہئیں اور بڑے ڈیم جنگی بنیادوں پر بنانے کی ضرورت ہے،کیونکہ یہ ڈیم ملٹی پرپز ہوتے ہیں جن سے زراعت کے لئے پانی اور ضرورت کے مطابق سستی بجلی حاصل ہوتی ہے،اور سیلابی پانی کو روک کر سیلابوں کی روک تھام میں بھی مدد ملتی ہے،ڈیموں میں جمع شدہ پانی اُن مہینوں میں زراعت کے لئے قابلِ استعمال ہوتا ہے جو خشکی کے مہینے کہلاتے ہیں اس وقت صوبے پانی کے مسئلے پر بعض شکایات سامنے لاتے رہتے ہیں اگر ڈیم بن جائیں تو نہ صرف پانی کی کمی کی شکایت دور ہو جائے،بلکہ صوبوں کے گلے شکوے بھی ختم ہو جائیں اِس لئے جو ڈیم صوبائی منافرت کی وجہ بنتے ہیں جب اُن سے پانی اور بجلی پیدا ہوتی ہے تو یہی ڈیم ملکی یکجہتی کو مضبوط کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔
جوہری بجلی کے حصول میں پاکستان کی کامیابیاں ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں تاہم اگر ہدف کے مطابق چشمہ اور مظفر گڑھ میں مزید ایٹمی بجلی گھر لگتے ہیں تو پھر بجلی کی پیداوار میں جوہری توانائی کا حصہ بڑی حد تک معقول ہو جائے گا،دُنیا کے کئی مُلک اب بجلی کے لئے جوہری توانائی پر ہی انحصار کر رہے ہیں،روس اِس سلسلے میں بڑی ترقی کر چکا ہے اور ایران میں روس کی معاونت سے جوہری توانائی کے ایسے بجلی گھر لگائے جا رہے ہیں، جن سے ساڑھے چار ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی حاصل ہو گی مستقبل کی منصوبہ بندی میں اگر ہم بڑے ایٹمی بجلی گھروں کو بھی شامل کر لیں، تو ہم بڑی آسانی سے ضرورت سے زیادہ بجلی حاصل کر سکتے ہیں،جس سے صنعتوں کا پہیہ چوبیس گھنٹے رواں رکھنے میں مدد مل سکتی ہے، وزیراعظم کے اعلان کے مطابق اگر نومبر میں لوڈشیڈنگ ختم ہو جاتی ہے تو اسے حکومت کی ایک بڑی کامیابی تصور کیا جائے گا۔
تھرمل بجلی کی پیداوار کے لئے پنجاب کی حکومت نے جو کوششیں کی ہیں یہاں اُن کا تذکرہ بھی ضروری ہے،اُن کی وجہ سے بہت کم مدت میں معقول مقدار میں بجلی قومی گرڈ میں شامل ہوئی ہے۔ یہ منصوبے چین کے تعاون سے ریکارڈ مدت میں مکمل ہوئے ہیں،جن کی وجہ سے ہی چین میں ’’پنجاب سپیڈ‘‘ کی ایک نئی اصطلاح متعارف ہوئی۔اگرچہ یہ سپیڈ کئی حضرات کو خوش نہیں آئی اور انہوں نے میٹرو بس ملتان کے پردے میں شہباز شریف کو بدنام کرنے کے لئے جعل سازی کا ایک بڑا ڈرامہ رچایا۔چین کے سفیر اور وزارتِ خارجہ نے بروقت تردید کر کے چند ہی روز میں اس غبارے سے ہوا نکال دی،جس کو پُھلانے میں بہت سے ٹی وی اینکر لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اُترے ہوئے تھے۔اب وہ شاید ایسی کسی دوسرے جعل سازی کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں،اس کا تذکرہ یوں کرنا پڑا کہ جو منصوبے زیر تکمیل ہیں اور تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں وہ ایک مخصوص لابی کو قطعاً پسند نہیں، اور وہ ان میں کیڑے تلاش کرتے رہتے ہیں، اگر اندر سے مل جائیں تو بہتر نہ مل پائیں تو باہر سے کیڑے پکڑ کر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے،میٹرو ملتان کے ساتھ یہی کیا گیا، چینی کمپنی کے نام سے جعل سازی کی گئی،جو پکڑی گئی اب چین کی حکومت اس کمپنی کو جرمانہ کر رہی ہے۔ دراصل جو منصوبے بھی چین کے ساتھ منسلک ہیں اُن پر بہت سی غلط انداز نگاہیں بھی پڑ رہی ہیں اِس لئے ان منصوبوں کو ان کی نظر بد سے بچانا ضروری ہے۔بہرحال قوم کو چین کے تعاون سے بننے والا پانچواں ایٹمی بجلی گھر مبارک۔