نوکر شاہی کے بند دروازے،کیا واقعی کھل جائیں گے؟
وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور پنجاب کابینہ نے کمال کر دیا ہے،جو بات مَیں ایک عرصے سے اپنے کالموں میں کہتا آیا ہوں، اُسے عملی جامہ پہنانے کا حکم دے دیا ہے، میرے نزدیک تو یہ خبر بیورو کریسی المعروف افسر شاہی پر بجلی بن کر گری ہو گی کہ پنجاب میں پرچی سسٹم کا خاتمہ کر کے ہر شخص کو بلا رکاوٹ سرکاری عمال تک رسائی کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے۔ اب کوئی بھی سائل دروازہ کھول کر افسر کو مل سکے گا۔اُس کے دروازے پر اب نہ ملاقات کے اوقات لکھے ہوں گے اور نہ ہی دروازے پر کھڑا سنتری پہلے چٹ لے کر اندر جائے گا،پھر انتظار کروائے گا، صاحب کی مرضی ہو گی تو بلائے گا، وگرنہ صبح سے شام تک بٹھائے گا اور پھر دفتر کے سامنے اُس کی گاڑی لگے گی اور بغیر یہ سوچے کہ اُس نے کتنوں کو صبح سے انتظار میں بٹھایا ہوا ہے،شان سے اُس میں بیٹھ کر چلا جائے گا۔
یہ میٹنگ میٹنگ کھیلنے کا ڈرامہ بھی اب بند ہو جائے گا۔امید ہے یہ نظام لاہور سیکرٹریٹ میں بھی نافذ ہو گا اور سب سے پہلے چیف سیکرٹری کا دروازہ عام آدمی پر کھولا جائے گا۔ وہ کلف لگی کلغیوں والے حوالدار اب عوام کو خوفزدہ کر کے صاحب بہادر سے دور نہیں کر سکیں گے۔ اس حکم پر فوری عمل درآمد کرنے کو کہا گیا ہے۔ مَیں آج کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور آر پی او کے دفتر جاؤں گا تاکہ یہ خوشگوار منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں، اگر کہیں نوکر شاہی اس حکم کو نہیں مان رہی تو اُس کی نشاندہی کروں، سب لوگوں کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی،نیا پاکستان ایسے ہی بنے گا۔ اگر کوئی اس کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے تو اُسے اِس نظام سے باہر کر دینے میں کوئی حرج نہیں۔
یاد رہے کہ پنجاب بیورو کریسی کو اسی لئے جنت سمجھا جاتا ہے کہ یہاں افسروں نے اپنے دفاتر کو آہنی قلعے بنا رکھا ہے، جن میں عام آدمی داخل نہیں ہو سکتا۔مجھے ایک بیسویں گریڈ کے پروفیسر نے ایک دن بتایا کہ وہ ایک ہفتے سے ڈی ایس پی ٹریفک کے دفتر جا رہا ہے، سنتری اُسے اندر ہی نہیں جانے دیتا کہ صاحب میٹنگ کر رہے ہیں۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اگر ایک بیسویں گریڈ کا پروفیسر بھی سترھویں گریڈ کے ڈی ایس پی سے نہیں مل سکتا تو عام آدمی کیسے ملتا ہو گا۔مَیں نے کہیں سے نمبر لے کر اُس ڈی ایس پی کو فون کیا اور کہا کہ جہاں اساتذہ رُل رہے ہوں،وہاں تمہارے افسر بننے کا کیا فائدہ ہے، وہ چونکہ مجھے جانتا تھا،اِس لئے اُس نے معذرت کی اور کہا کہ مَیں ابھی انہیں بلاتا ہوں، اُن کا مسئلہ حل کر کے آپ کو فون کرتا ہوں، سو اس طرح یہ مسئلہ تو حل ہو گیا،لیکن مجھے یوں لگا جیسے وہ پروفیسر صاحب ایک مزارع تھے، جن کی سفارش پر داد رسی ہو گئی ہے۔یہ نظام انگریزوں نے دیا تھا اور افسر سے بغیر اجازت کے عام آدمی کو نہیں ملنے دیا جاتا تھا،کیونکہ اُس دور میں افسر انگریز ہوا کرتے تھے اور وہ کالے اچھوتوں سے ملنا توہین سمجھتے تھے۔
آج 71برس ہونے کو آئے ہیں،عوام کی کالے انگریزوں سے جان نہیں چھوٹ رہی۔ ایک سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد عام سے گھرانے سے تعلق رکھنے والا نوجوان انگریزوں والے کروفر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بندے کو بندہ نہیں سمجھتا،جن گلیوں محلوں سے اُٹھ کر وہ آیا ہوتا ہے اب اُنہی سے تعلق رکھنے والے لوگ اُسے زہر لگنے لگتے ہیں، خیبرپختونخوا میں بہت پہلے اس نظام کو اکھاڑ پھینکا گیا تھا، وہاں کوئی افسر دروازہ بند نہیں رکھ سکتا، جو بھی چاہتا ہے دروازہ کھول کر افسر سے مل لیتا ہے، یہاں کیا ہوتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر پنجرے میں بند ہو کر بیٹھ جاتا ہے،اُس کے نیچے جو برانچیں ہوتی ہیں، وہاں بیٹھے ہوئے اہلکار کرپشن کی گنگا بہاتے ہیں۔ انہیں اس بات کا کوئی خوف نہیں ہوتا کہ افسر ساتھ والے کمرے میں بیٹھا ہے۔یہ خوف اِس لئے نہیں ہوتا کہ اُن کا اِس بات پر یقین قائم رہتا ہے کہ جو سائل کیڑے مکوڑوں کی طرح دفاتر میں دھکے کھا رہے ہیں،وہ صاحب بہادر تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ دروازے پر کھڑے فرشتے انہیں اندر نہیں جانے دیں گے۔
پنجاب کے سرکاری محکموں میں کرپشن کی سب سے بڑی وجہ افسروں تک عام آدمی کی رسائی نہ ہونا ہے۔یہاں افسران بالا اِس طرح چھپ کر بیٹھتے ہیں کہ عام آدمی اُن تک پہنچ ہی نہ سکے۔ سی ایس پی افسران دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی کیسے بن جاتے ہیں۔ یہی نچلا نظام اُن کے لئے کماؤ پوت کا کردار ادا کرتا ہے۔یہ نظام اِس لئے بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے کہ افسر تک عام آدمی پہنچ نہیں سکتا اور اس نارسائی کی وجہ سے سائلین رشوت دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے دفاتر کے دروازے کھولنے کا جو حکم دیا ہے، اگر اُس پر عملدرآمد ہو جاتا ہے،اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ماتحت ملازمین کو یہ خوف رہے گا کہ سائلوں کا کام نہ کیا تو وہ افسر تک پہنچ جائیں گے، خود افسر بھی ہر آنے والے کو ٹال نہیں سکے گا، اُسے بہرحال کام کرنا پڑے گا۔پنجاب میں بیورو کریسی کے لئے یہ حکم ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ ’’عوام کے لئے میرے دروازے کھلے ہیں‘‘ کا درد ویسے تو ہر افسر کرتاہے،لیکن عملاً اُس سے ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہی رہتا ہے۔اب یہ کام اُسے عملاً کرنا پڑے گا۔ اس سے عوام میں ایک اعتماد کی کیفیت جنم لے گی،اُن کے ذہنوں پر غلامی کا جو خوف طاری رہتا ہے،اُس کا خاتمہ ہو گا۔اب سوال یہ ہے کہ اس حکم پر عملدرآمد کی نگرانی کون کرے گا؟ ’’عقل عیار ہے سو بھیس بٹا لیتی ہے‘‘ کے مصداق افسر شاہی کوئی نہ کوئی ایسا راستہ تو ضرور نکالنے کی کوشش کرے گی جو اس حکم کو غیر موثر کر دے،کیونکہ یہ حکم تو اُسے وارا نہیں کھاتا، اس طرح تو اُس کی افسری کا غرور خاک میں مل جائے گا۔
بڑے شہروں میں تو عوام کا شعور کچھ زیادہ ہے،لیکن جن علاقوں سے وزیراعلیٰ عثمان بزدار تعلق رکھتے ہیں،یعنی راجن پور،داجل، تونسہ شریف، لیہ وغیرہ وہاں تو سرکاری افسران خدا بنے بیٹھے ہیں، وہاں کا تو سرکاری چپڑاسی بھی بہت طاقتور سمجھا جاتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں پنجاب حکومت کو اپنے اِس اہم ترین حکم پر عملدرآمد کرانے کے لئے مانیٹرنگ کا نظام بھی بنانا چاہئے۔پچھلے چند برسوں سے سیکیورٹی کے مسائل کی آڑ لے کر سرکاری افسران نے خود کو عوام کی دسترس سے دور کر لیا ہے۔اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے، ہر دفتر کے مرکزی دروازے پر واک تھرو گیٹ اور سیکیورٹی سٹاف کو تعینات کر کے ہر شخص کو اندر جانے دیا جائے،جیسے سیکرٹریٹ میں ہوتا ہے،اُس کے بعد اُس پر کوئی قدغن نہ ہو کہ وہ افسر کو اجازت کے بغیر نہیں مل سکتا، کوئی بھی شخص صرف افسروں کے نورانی چہرے دیکھنے کے لئے سرکاری دفتروں میں نہیں جاتا، سب اپنے کسی نہ کسی مسئلے کو لے کر وہاں جاتے ہیں۔ سول سیکرٹریٹ لاہور تک تو جنوبی پنجاب سے چار سو میل کا سفر کر کے بھی لوگ پہنچتے ہیں، وہاں اگر اُنہیں افسر تک رسائی نہیں دی جاتی تو اِس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے؟اُنہیں اپنے مسئلے کے حل کے لئے اگر دو تین دن لاہور میں رکنا پڑے تو اکثریت داتا دربار پر سوتی ہے یا ریلوے سٹیشن پر۔۔۔ اس حکم کے ساتھ یہ حکم بھی جاری کیا جانا چاہئے کہ افسران کم از کم صبح سے دوپہر تک کے وقات میں سوائے دفتری امور کے اپنی کوئی مصروفیت نہ رکھیں تاکہ اُن کی دفتروں میں موجودگی یقینی بنائی جائے۔
مجھے امید ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں صرف دکھاوے کے لئے لیپا پوتی جیسے اقدامات نہیں ہوں گے،بلکہ اُن پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔پنجاب میں تبدیلی کے لئے وزیراعظم عمران خان بہت زور دے رہے ہیں، انہوں نے پنجاب کابینہ کے وزیروں کو اپنی کارکردگی دکھانے کا ٹاسک دے دیا ہے،اس ٹاسک پر پورا نہ اُترنے والے وزیر نہیں رہ سکیں گے، تمام وزراء کو چاہئے کہ وہ اپنے ماتحت اداروں میں سرکاری دفاتر تک عام آدمی کی آسان رسائی کے اس حکم پر عمل کرائیں،جس افسر کے بارے میں شکایت ملے کہ وہ اس کی راہ میں رکاوٹ ہے یا عوام کو ریلیف نہیں دے رہا، اُس کے خلاف انضباطی کارروائی کی جائے۔ مَیں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ عوام کو دفتری نظام کے ظالمانہ جبر سے نجات مل گئی تو اُن کے آدھے مسائل اور محرومیاں خودبخود ختم ہو جائیں گی۔
پنجاب میں وفاق کے جو محکمے کام کر رہے ہیں،یعنی سوئی گیس، واپڈا، پاسپورٹ، نادرا اور ایف آئی اے اُن پر بھی اِس حکم کا نفاذ ہونا چاہئے۔اِن محکموں میں عوام کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے،وہ انتہائی شرمناک ہے،اس پہلو پر بھی گرفت ہونی چاہئے کہ عوام پر بجلی کی اوور بلنگ کے ذریعے بوجھ کیوں ڈالا جاتا ہے۔ تاہم اچھی بات یہ ہے کہ اِس سفر کا آغاز ہو چکا ہے۔ اب یہ سفر رکنا نہیں چاہئے،اس کے راستے میں جو بھی رکاوٹ آئے اُسے دور کیا جائے۔عوام کو ریلیف ملنا چاہئے،اِس لئے بھی ملنا چاہئے کہ بارہ سال بعد تو روڑی کی بھی سُنی جاتی ہے،یہاں تو عوام کو ستر برس ہو گئے ہیں۔