الیاس شاکر: میرا دوست

الیاس شاکر: میرا دوست
الیاس شاکر: میرا دوست

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سات سمبر 2018ء کی رات الیاس شاکر رخصت ہوگیا۔ ابھی اس کی لحد پر پھولوں کی تازہ پتیاں بکھری ہوئیں ہیں۔ احباب اور دوستوں کا ایک ہجوم ہے۔ یادوں کی کتاب کھلی پڑی ہے، اور یادوں کا سلسلہ بھی سوکھے پتوں کی طرح بکھرتا جارہا ہے۔ ان گذری یادوں اور باتوں کو سمیٹنے میں خود بھی کئی بار بکھر چکا ہوں۔


یادوں کا ایک ہجوم ہے۔ صحافت اور تحریر سے اسے عشق تھا، اس نے اس قدر کتابیں پڑھی کہ اس کے چشمے کا نمبر بڑھتا ہی چلا گیا، ایک موٹی عینک اس کی شخصیت کا حصہ بن گئی۔ سٹی کالج کے دروازے پر مہاجر طلبہ کی بھوک ہڑتال میں الیاس شاکر بھی شامل تھا، 1968ء کا زمانہ تھا، سندھی مہاجر کی کشمکش اور لسانی سیاست کا ابتدائی زمانہ تھا، نواب مظفر اور جی ایم سید دونوں جانب شدت تھی، ایک طرف سندھو دیش کا نعرہ لگ رہا تھا تو دوسرے جانب مہاجر پنجابی پختون اتحاد جنم لے رہا تھا، بعد میں اس لسانی سیاست نے اس محبت کی سرزمین کو خون میں نہلادیا۔ الیاس شاکر ان دنوں مارکسزم اور کمیونزم کا لڑیچر گھول گھول کر پی رہا تھا، مکتی گلی میں اس کے گھر کی سیڑھیوں کے نیچے اس کا ٹھکانہ تھا۔ جہاں رات کے دو تین بجے آکر وہ پڑ جاتا تھا، ایک کتابوں سے بھر صندوق اور اس کا بستر وہی اس کا کل اثاثہ تھا۔ گھر والے اس کی شبینہ سرگرمیوں سے تنگ تھے، دن میں وہ شہر کی ہوٹلوں، پریس کلب، اور ریشم گلی کے کونے پر یا فردوس ہوٹل میں مل جاتا، غربت کے ایام میں کبھی کبھی اتنے ہی پیشے ہوتے کہ نعمت کدہ بخارا میں ایک سموسہ اور چائے پر گذارا کرلیتے۔
وہ بائیں بازو کی سیاست کا سرخیل اور میں جمعیت کا کارکن لیکن، وہ دوستوں کا دوست تھا، کتابیں پڑھنے پر اکساتا، حوالے دیتا، بحث کرتا، دلائل دیتا۔ بحث میں اسے ملکہ حاصل تھا۔

بہت اچھا مقرر تھا، مباحثوں میں تقریر کرتا تو سماں باندھ دیتا اس زمانے میں حیدرآباد میں مقررین کی بہت بڑی کھیپ تھی، کالجوں میں مباحثے ہوتے، سٹی کالج کا ہفتہ طلبہ اور انٹر کالجیٹ مباحثہ تو پورے پاکستان میں مشہورتھا۔ سٹی کالج میں دیواری اخبار کی روایت الیاس شاکر اور جمعیت ہی نے ڈالی۔ کاغذ کی شیٹوں پر اس دیواری اخبار میں خوب پھلجھڑیاں چلتی۔
اس دوران اسے اخبار اور رسالہ نکالنے کا جنون سوار تھا۔

اس نے حیدرآباد سے طالبعلم رسالہ باقاعدہ شائع کیا۔ پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو اس نے غلام مصطفی جتوئی اس وقت کے وزیراعلیٰ کے دور میں نوپس بنائی، لیکن اس دور میں بھی وہ اپنے دوستوں کو نہیں بھولا، سٹی کالج اسے ہمیشہ عزیز رہا۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ حیدرآباد پریس کلب میں الیاس شاکر کا داخلہ ممنوع تھا، وہ صداقت کراچی کا نمائندہ اور صحافت کا بیورو چیف تھا۔ ضیا شاہد کے اس پرچے میں اس نے بہت سی تحقیقاتی رپورٹ اور انٹرویو کیے ان دنوں میں نے بھی صحافت میں قدم رکھا تھا، عبدالقادر حسن کا ہفت روزہ افریشیا کے دوسرے ہی شمارے میں میری ٹائیٹل اسٹوری شائع ہوئی تھی اس وقت اس کے ایڈیٹر عبدالکریم عابد تھے، جو نئے لکھنے والوں کی خوب حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

1977ء میں، میرا داخلہ کراچی یونیورسٹی میں شعبہ صحافت میں ہوگیا اور میں کراچی منتقل ہوگیا۔ الیاس شاکر کراچی یونیورسٹی میں طاہر مسعود اور طارق محمود میاں سے خاص طور پر ملنے آیا، وہ ان کی تحریروں کا مداح تھا۔ طارق محمود میاں نے بعد میں مقبول رسالہ دھنک کی طرز پر ایک رسالہ عقاب نکالا۔ اس کی افتتاحی تقریب میں ہم دونوں شریک تھے۔ میں نوائے وقت کراچی میں تھا، اور الیاس شاکر صحافت، آغاز روزنامہ میں قلم کی مزدوری کرتا، شام میں ایک مشغلہ اخباری اسٹالوں کا سروے، اخبارات اور جرائد کی فروخت کے حوالے سے ایجنٹوں سے معلومات اور نئے اخبارات اور رسائل اور کتابوں سے تھی، ان دنوں اس کا پڑاؤ جنگ کے سامنے ٹی اینڈ ٹی کالونی میں ٹیلی فون یونین کا دفتر تھا۔

جہاں حاجی یونس کا دفتر تھا۔ حاجی یونس بہت مہربان شخصیت تھے۔ اخبار نویسوں سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ شام کو ان کے دفتر میں بیٹھک جم جاتی تھی۔ یہیں رات گئے الیاس شاکر کہیں پڑ کر سوجاتا تھا۔ ہم اکثر کھوڑی گارڈن جاتے جہاں پرانے رسائل کتب اور میگزین ہماری دلچسپی کا مرکز تھے، ایک عرصے تک الیاس شاکر نے نوائے وقت میں کلچرل رپورٹنگ کی، ہم پی ٹی وی اکثر ساتھ جاتے جہاں مسنر احسان افسر تعلقات عامہ تھیں۔
اس زمانے میں خبروں کے لیے صبح دس بجے ہی سے لوگ قومی اخبار کا انتظار کرنے لگتے۔ اس کی سرخیاں اور خبروں سے لوگ شہر کی سیاست کے موسم اندازہ کرلیتے تھے۔
ایم کیو ایم کی تشکیل کے بعد الیاس شاکر اور مختار عاقل کی سیاسی ڈائریوں نے الطاف حسین اور ان کے نظریات کو خوب پروان چڑھایا۔ ایک زمانے میں ہم ایک ساتھ رپورٹنگ کے لیے جایا کرتے تھے۔ میں خرم بدر کے نام سے ہفت روزہ تکبیر میں سیاسی ڈائری لکھا کرتا تھا۔

اس زمانے میں الطاف حسین مختلف علاقوں میں جلوس نکالتے اور جلسے کرتے، اس دن ان کا جلسہ لیاقت آباد میں سندھی ہوٹل کے قریب تھا۔ ہفت روزہ تکبیر ان دنوں ایم کیوایم اور الطاف حسین کے سیاسی نظریات کے خلاف بہت سی اسٹوریاں شائع کرتا تھا۔

الطاف حسین بھی مولانا صلاح الدین شہید پر شدید تنقید کرتے۔ اس جلسے کے دوران الطاف حسین نے پی آئی اے کے طیارے کو دیکھ کر کہا تھا کہ یہ پی آئی اے نہیں پنجاب ایئر لائین ہے۔ جلسہ کے دوران ہی ایم کیو ایم کے ایک گروپ کو پتہ چل گیا کہ صحافیوں میں تکبیر کا نمائندہ بھی موجود ہے،انہوں نے مطالبہ کردیا کہ اسے ہمارے حوالے کردو، اس وقت الیاس شاکر نے ان ورکرز سے کہا کہ جاکر الطاف حسین سے کہہ دو کہ یہ ہمارے ساتھ آیا ہے اور ہمارے ہی ساتھ جائے گا۔

اس کی یہ جی داری اور بہادری کام آئی اور ہم بخیر وخوبی اس جلسے سے نکل آئے۔ وہ وقت تھا، جب الطاف حسین الیاس شاکر سے مشورے لیا کرتے تھے۔ وہ سیاسی جماعتوں کے سربراہ، خصوصاً پیر پگارا، سردار عبدالقیوم، پروفیسر غفور احمد سے بہت قریب تھے۔
الیاس شاکر نے زندگی بھر ایک چو مکھی لڑائی لڑی۔ اس نے صحافت کے بڑے بڑے ستون گرائے، ان سے جنگ لڑی، اور کامیاب رہا اور اپنا وجود اور اخبار باقی رکھا۔
قومی اخبار نکالنے کے لیے اس نے بہت محنت کی، اس اخبار کا ڈیکلیریشن سردار عبدالقیوم اور پیرپگارا کی وساطت سے ضیا ء الحق کی اجازت سے حاصل ہوا تھا۔ ایک کمرے کے دفتر سے شروع ہونے والا اخبار الیاس شاکر کی دن رات محنت سے ایک میڈیا ہاؤس کا روپ دھار گیا، وہ برسوں دفتر کے ایک کونے میں پڑے کمبل اور گدے پر سوتا رہا، وہ رات گئے تک کام کرتا اور صبح سویرے سے دوبارہ کام شروع کردیتا، اس کے کام کرنے کی صلاحیت انتھک تھی۔

وہ خبروں پر گہری نظر رکھتا اور نئی انداز کی سرخیوں اور نئے بات کرنے اور اسے مارکیٹ کرنے کا ہنر جانتا تھا۔ شام کا اردو اخبار ایک نئے دور کا آغاز تھا، اس زمانے میں خبروں کے لیے صبح دس بجے ہی سے لوگ قومی اخبار کا انتظار کرنے لگتے۔

اس کی سرخیاں اور خبروں سے لوگ شہر کی سیاست کے موسم اندازہ کرلیتے تھے۔ جہاں اخبار کی مقبولیت تھی وہاں یہ اخبار اس کے ایڈیٹر کے لئے کانٹوں کی سیج تھی۔ اخبار کے مارکیٹ میں آتے ہی، الیاس شاکر اور مختار عاقل کے فون بجنا شروع ہوجاتے۔

ابتدائی زمانے میں دونوں نے یہ بوجھ مل کر اٹھایا، بعد میں الیاس شاکر اکیلا ہی اس بوجھ کو سہارتا رہا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب کوئی بھی لفظ یا جملہ مزاج شاہی پر گراں گزرتا تو زندگی عذاب ہوجاتی، پیپلز اسٹوڈینس کے رہنما نجیب کی شہادت کی سرخی کے ساتھ قومی اخبار شائع ہوا تو تین دن تک اس کے دروازے کھلے رہے، دفتر میں کوئی گھس نہیں سکتا تھا۔ قائد کے اشارہ ابرو پر جان نثار اس کا گھیراؤ کئے رہے۔
الیاس شاکر نے زندگی بھر ایک چو مکھی لڑائی لڑی۔ اس نے صحافت کے بڑے بڑے ستون گرائے، ان سے جنگ لڑی، اور کامیاب رہا اور اپنا وجود اور اخبار باقی رکھا۔ وہ غریبوں کی مدد بھی کرتا، بیواؤں اور یتیموں کا بھی خیال رکھتا، لیکن اس طرح کے معاملات کو وہ کبھی شیئر نہ کرتا۔

وہ جمعیت علماء پاکستان کے رہنما مولانا شاہ احمد نورانی اور حاجی حنیف طیب کا بہت گہرا عقیدت مند تھا۔ فریضہ حج کے بعد اس کے دفتر میں بہت دیر ملاقات رہی۔ اس ملاقات کے دوران اس کے دونوں بیٹے اور اہلیہ بھی آگئی تھیں۔

الیاس شاکر نے دو شادیاں کیں، پہلی بیوی سے ایک بیٹی اور دوسری سے دو بیٹے ہیں۔ بیماری کے بعد اس نے اپنے آپ کو گھر تک محدود کر لیا تھا، دوستوں اور بہت قریبی لوگوں سے بھی ملنے سے انکار کردیا تھا، شائد وہ اپنی کمزوری کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کرنا چاہتا تھا۔ ستائیس رمضان کو میں نے اسے میسج کیا کہ میں نے تماری صحت یابی کے لئے دُعا کی ہے۔ اس نے آمین کہا۔
وہ آخری دنوں میں بھی کالم لکھتا رہا۔

اس کے کالم میں کراچی سے محبت جھلکتی تھی۔ وہ کراچی اور حیدرآباد دونوں شہروں کی محبت کا اسیر تھا۔ اپنے پرانے دوستوں کو یاد کرتا اور انہیں یاد رکھتا تھا۔ حیدرآباد سے آنے والے بہت سے افراد کا روزگار کا وسیلہ بنا۔ آج طارق روڈ کے قبرستان میں بہت سے احباب جمع تھے۔ الیاس شاکر کا سفر اختتام پذیر ہوا۔ اللہ اس کی مغفرت فرمائے۔

مزید :

رائے -کالم -