قریشی صاحب بس کریں
امریکی ایجنٹ بلیک واٹر تنظیم کے اہم رکن ریمنڈ ڈیوس کو جب امریکہ واپس جانے کی اجازت دی گئی تو پوری قوم اپنی حکومت کی بے بسی پر ماتم کر رہی تھی۔ ہر پاکستانی شرمسار تھا کہ ایک جاسوس کو، جو نام نہاد سفارتی چھتری میں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف تھا، حکومت نے اپنے تین شہریوں کے قتل کے بعد بھی ملک سے باہر جانے کی اجازت کیوں دی۔ افواہوں اور سرگوشیوں کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ پاکستان کے وزیرخارجہ کے استعفے کی خبر آ گئی۔بعض لوگوں کے نزدیک وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی مخالفت کی تھی اور اسی اختلاف کی بناء پر وہ وزارت خارجہ سے علیحدہ ہو گئے۔ اس وقت یہ حقیقت آشکار ہوئی جب 16فروری 2011ء کے روز انہوں نے امریکی سینیٹر جان کیری کے ساتھ اپنی ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ انہوں نے جان کیری پر واضح کر دیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو کوئی سفارتی استثناء حاصل نہیں ہے۔ اس پریس کانفرنس کے بعد شاہ محمود قریشی کے لئے عام پاکستانی کے دل میں عزت کے جذبات ابھرے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے امریکی دباؤکے سامنے سجدہ ریزی کی، لیکن اس کے وزیر خارجہ نے اصولی موقف اختیار کیا۔ پھران دنوں جب نئی کابینہ تشکیل دی گئی تو شاہ محمود قریشی اس میں نہیں تھے۔ انہیں دوسری وزارتِ پیش کی گئی تھی جو انہوں نے منظور نہ کی۔
عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد جب شاہ محمود قریشی کو وزیر خارجہ بنایا گیا تو بہت سے ذہنوں میں فروری 2011ء کی یاد باقی تھی اور یہ احساس کہیں موجود تھا کہ وہ پاکستان کے موجودہ نازک حالات میں ایک اچھے وزیرخارجہ ثابت ہوں گے، لیکن ایک مربتہ پھر جب امریکہ کی سیاست کا ہی شکار ہوناپڑا تو شاہ محمود قریشی فروری 2011ء سے بالکل مختلف نظر آئے۔ کیا انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ جب امریکی صدر کشمیر کے حوالے سے ثالثی کی بات کررہے تھے تو بھارت میں مودی کیا منصوبہ بندی کررہے تھے؟ کشمیر میں نئے نظام کو متعارف کروانے سے ایک ہفتہ قبل ہی کشمیر میں انتظامی اور احتیاطی تبدیلیاں شروع کر دی گئی تھیں۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ کشمیر میں تیزی کے ساتھ بھارتی فوج کی تعداد میں اضافہ کسی بڑے حادثے کے سبب ہے۔ شائد یٰسین ملک تہاڑ جیل میں وفات پا چکے ہیں اور ان کے علاوہ دوسرے رہنماؤں کے بارے میں بھی خبریں گرم تھیں، لیکن جو کچھ واشنگٹن میں ہو رہا تھا، اس کا کسی کو علم نہیں تھا۔ جب اچانک مودی نے پارلیمنٹ سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا تو امریکہ نے واضح طور پر اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا۔ اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک نے سوائے چین اور کسی حد تک ترکی کے پاکستان کشمیر پر عالمی حمایت حاصل نہ کر سکا…… اور تو اور دوست اور اسلامی ممالک نے بھی ہماری مدد نہ کی۔
مودی کو سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور بحرین نے خصوصی اعزازات سے نوازا۔ وزیر خارجہ ہمیں بتاتے رہے کہ دوست مسلم ممالک ہم سے ہمدردیاں رکھتے ہیں، لیکن ان کے اپنے معاشی اور تزویراتی مفادات بھی ہیں،گویا ان کے مفادات پاکستان کے مفادات سے مختلف نوعیت کے تھے۔ ہم اس پر بھی وزیرخارجہ کی حق گوئی کے اسیر رہے کہ کم از کم وہ ہمیں جھوٹی تسلیاں نہیں دے رہے۔ خلیجی اور عرب ممالک کے رویوں کے خلاف عوامی احساسات ابھی موجود تھے کہ گزشتہ دنوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے بیک وقت پاکستان کا دورہ کیا۔ ایک تصویراخبارات میں یوں شائع ہوئی کہ ہمارے وزیرخارجہ دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان ”محبت“ کا سینڈوچ بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔اس پر وزیرخارجہ نے بیان جاری کیا کشمیر پر غلط فہمی دور ہو گئی ہے۔ سعودی عرب اور امارات کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے ساتھ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بدھ کے روز سعودی نائب وزیر خارجہ عادل الجبیر اور متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ پاکستان کے ایک روزہ دورے پر آئے۔ انہوں نے وزیراعظم، وزیرخارجہ اور آرمی چیف سے ملاقات کی اور ان کی اس ملاقات کے بعد جو بیان جاری کیا گیا اس کے مطابق دونوں مہمانوں کا دورہ پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے تھا۔ اس بیان میں کشمیر کے حوالے سے دونوں مہمانوں نے کوئی لفظ ادا نہیں کیا تھا۔