کشمیریوں کی مدد ضرور کیجئے لیکن……
چائنا ہمارا ہمہ موسمی اتحادی ہے۔ ہم دونوں ایک ہی وقت آزاد ہوئے تھے لیکن آج سات عشرے گزرنے کے بعد ہم کہاں کھڑے ہیں اور چین کہاں جا پہنچا ہے۔ اس تضاد کی بہت سی وجوہات گنوائی جا سکتی ہیں جن میں چین کا جغرافیہ اور تاریخ پیش پیش ہیں۔ جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے چینی، زمانہ ء قدیم سے ایک قوم ہیں جبکہ پاکستان دو قومی نظریئے کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ حالیہ صدیوں میں اس پر جاپانیوں، فرانسیسیوں اور برطانویوں نے ایک عرصے تک اپنا تسلط قائم رکھا۔ برصغیر کی بھی تقریباً یہی حالت تھی لیکن سب سے بڑی وجہ جو آزاد چین اور پاکستان کے درمیان خطِ امتیاز کھینچتی ہے وہ ماقبلِ آزادی، چینی عوام کی عسکری جدوجہد ہے۔
ماوزے تنگ چین کا سیاسی لیڈر بعد میں تھا اور عسکری قائد پہلے تھا۔ پاکستان میں حضرت قائداعظم صرف سیاسی رہنما تھے۔ انہوں نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے کوئی عسکری جدوجہد نہیں کی۔ تحریک پاکستان ”تقریباً“ایک پُرامن سیاسی تحریک تھی جس کو دوسری عالمی جنگ کی شکست خوردہ برطانوی قوم نے آزادی ’عطا‘ کرکے اپنے سر سے وہ بوجھ اتار ڈالا جو اس کے لئے دردِ سر بن رہا تھا۔ چین کی لانگ مارچ کی تاریخ پڑھ کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کوئی قوم جب جنگ و جدال کی بھٹی سے گزرتی ہے تو کس طرح کندن بن جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جاپان، جرمنی اور اٹلی چونکہ جنگ عظیم دوم کی برباد شدہ اور شکست خوردہ محوری (Axis) اقوام تھیں۔ اس لئے جنگ کے بعد مزید نکھر کر منصہ ء شہود پر آئیں۔ پاکستان نے یہی تجربہ 1971ء کی شکست کے بعد کیا۔ اگر یہ شکست نہ ہوتی تو آج پاکستان ایک جوہری اور میزائلی قوت نہ ہوتا۔جہاں تک ہماری معاشی بدحالی کا تعلق ہے تو یہ ہماری اس لیڈرشپ کی دین ہے جو 1971ء کے بعد پاکستان پر حکمران ہوئی۔ اس میں ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی مارشل لائی اور پی پی پی اور نون لیگ کی سویلین حکومتیں شامل تھیں۔ جس طرح چین کو ماوزے تنگ کے بعد چو این لائی اور دوسرے قائدین میسر آئے، پاکستان کو قائداعظم اور شہید ملت کے بعد کوئی ایسا فوجی یا سویلین لیڈر نہ ملا جو اپنی ذات کے حصار سے باہر نکل کر پاکستان کے استحکام اور اس کے عوام کی خوشحالی کی طرف متوجہ ہوتا۔ مقامِ افسوس ہے کہ ہم آج بھی قیادت کے بحران کی دلدل سے باہر نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔
ہم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہم نے قیامِ پاکستان کے لئے ہزاروں جانوں کی قربانی دی۔ لیکن میری نظر میں اس دعوے کے دو پہلو محلِ نظر ہیں۔ ایک یہ کہ اگست 1947ء میں جو کشت و خون ہوا وہ زیادہ تر صرف متحدہ پنجاب میں ہوا۔ باقی انڈیا اور پاکستان اس زد و خورد سے محفوظ رہے(اس میں مشرقی پاکستان بھی شامل تھا۔ وہاں بھی کوئی جانی قربانی نہیں دی گئی) اور دوسرے وہ کشت و خونریزی سویلین نوعیت کی تھی۔ اس میں فوجی جدوجہد کا کوئی شائبہ نہ تھا۔ اور تیسرے اس قربانی کا انداز (Postuere) سراسر دفاعی تھا۔ پاکستان اور بھارت کی مسلح سول آبادیوں کے جتھوں نے نہتے مرد و زن کو تہہ تیغ کیا۔ اگر یہ تصادم دونوں طرف سے مسلح فریقوں کے درمیان ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ ہم نے حصولِ پاکستان کے لئے ہزاروں لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کئے تھے۔ مشرقی پنجاب کے مسلمان مہاجرین،غیر مسلم مسلح جتھوں اور پاکستان کے ہندو مہاجرین مسلح لشکریوں کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کٹتے رہے…… 1947ء میں مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کو جسم و جان کی قربانیاں دے کر پاکستان چلے آنے کا موقع میسر تھا لیکن آج کشمیری مسلمانوں کو صرف گردنیں کٹوانے اور زخم کھانے کے مراحل درپیش ہیں، وہاں سے نکل کر کسی پاکستان میں چلے آنے کے مواقع فراہم نہیں۔ اگر ہم پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ ہندو، کشمیری مسلمانوں کو آزاد کر دے گا تو یہ آزادی غزنوی و غوری سنت کی پیروی کے بعد ہی مل سکتی ہے، نعرے لگانے اور پاکستان میں یومِ آزادی ’منانے‘ سے نہیں ……
چین کی تاریخ کے بعد اس کے جغرافیے پر نظر ڈالیں۔ کتنا وسیع و عریض ملک ہے اور کتنا وسیع و عریض بحرالکاہل اس کا مشرقی اور جنوبی ساحل ہے!…… لیکن یہ سب کچھ تو اس وقت بھی تھا جب چین پر غیروں کی حکمرانی تھی۔ ان اغیار حکمرانوں میں چین کا ہمسایہ جاپان پیش پیش تھا۔ جاپان کے جغرافیے پر نظر ڈالیں تو وہ چین کا محض ایک بغل بچہ معلوم ہو گا۔ لیکن اس نے عشروں تک گراں خواب اور افیون خور چینیوں کو محکوم بنائے رکھا۔ اس سے کیا سبق ملتا ہے؟ سبق یہ ہے کہ جغرافیے کو عسکری قوت کنٹرول کرتی ہے۔ جزائر برطانیہ کا جغرافیائی رقبہ دیکھیں اور سوچیں کہ دو تین صدیوں تک یہ بظاہر کم رقبہ قطعہء زمین، دنیا کے چار براعظموں (ایشیاء، افریقہ، امریکہ اور آسٹریلیا)کے بیشتر حصوں پر قابض رہا۔
وجہ یہ تھی کہ اس کی ملٹری مضبوط تھی۔ اسی طرح عربوں نے چار دانگ عالم میں صدیوں تک حکومت کی اور اس کی وجہ بھی عربوں کی فوجی قوت تھی۔ فوجی قوت، اقتصادی قوت کی کوکھ سے پھوٹتی ہے۔ ذرا تاریخ اٹھا کر دیکھیں سن 2ہجری میں جنگِ بدر حق و باطل کا معرکہ بعد میں تھا اور اقتصادی برتری کا پہلے تھا…… ابو سفیان جس تجارتی قافلے کو لے کر شام اور عراق گیا تھا اس کا راستہ کاٹنے (Interdiction) کے خوف نے کفارِ مکہ کو مدینہ پر چڑھ دوڑنے کی ترغیب دلائی اور یہی انصار و مہاجرینِ مدینہ کے سالارِ اعظم حضرت محمدﷺ کی حکمت عملی تھی…… سبق یہ ہے کہ اقتصادی قوت کا حصول پہلے اور عسکری قوت کا بعد میں …… پاکستان کو آج جس اہم ترین چیلنج کا سامنا ہے وہ یہی اقتصادی چیلنج ہے۔
ہمیں اس سے پہلے نبردآزما ہونا ہے اور کشمیر کے سوال پر مرمٹنے کے لئے جنگ کا راستہ بعد میں اختیار کرنا ہے۔
میں دوچار روز پہلے الجزیرہ اور AFP کی ایک خبر دیکھ رہا تھا جس میں مودی اور پوٹن ولاڈی واسٹک میں ایک بندرگاہی شپ یارڈ میں کھڑے ہیں۔ اور پوٹن، مودی کو اپنے اس جہاز سازی کے کارخانے (Ship Yard) کے ماڈل پر کھڑے بریفنگ دے رہے ہیں۔ ان کی مترجم لڑکی دونوں کے درمیان کھڑی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں نے اپنی برآمدات کو فروغ دینے کے لئے کئی قسم کے ڈھونگ (Forums)کھڑے کر رکھے ہیں۔ ایک ایسے ہی فورم کا نام ”بحرالکاہل کے ملکوں کا فورم“ ہے جس کی غرض و غائت رشین اسلحہ بازار میں اردگرد کے ممالک کو بلا کر ان کو یہ ترغیب دینا ہے کہ وہ روسی اسلحہ خریدیں اور ”عیش کریں“…… اس شپ یارڈ کے ماڈل پر بریفنگ کے بعد مودی نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: ”میں اپنے نہائت ’گہرے دوست‘ پوٹن کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مل بیٹھنے کا یہ موقع فراہم فرمایا۔
ہم اب باہمی اشتراک کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں“…… اس بریفنگ میں یہ اشارہ بھی دیا گیا کہ دونوں ملک سلامتی کونسل کی تنظیمِ نو چاہتے ہیں جو آج کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے۔ اس کے جواب میں صدر پوٹن نے کہا: ”مسٹر مودی میرے ایک عظیم دوست ہیں اور انڈیا ہمارا ایک سٹرٹیجک پارٹنر ہے“۔ اس فورم میں جاپان اور ملائیشیاء کے وزرائے اعظم اور منگولیا کے صدر نے بھی شرکت کی۔ لیکن پوٹن نے دن کا بیشتر حصہ مودی کے ہمراہ ولاڈی واسٹک میں گزارا۔ یہ روس کی واحد بندرگاہ ہے جو سارا سال کھلی رہتی ہے۔
برسبیلِ تذکرہ، میں مودی کا یہ فقرہ پڑھ کر ہنسے بغیر نہ رہ سکا جب اس نے پوٹن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”جنابِ صدر! آپ کے سائبیریا کے بگلے اور کونجیں ہر سال ہجرت کرکے میرے صوبے گجرات میں آتی ہیں اور میں آپ کے ساتھ شیروں کی اقسام پر بھی بات کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ ٹائیگروں کی نسل کی افزائش میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں!“
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
انڈیا روسی سلاحِ جنگ کا ایک بڑا خریدار رہا ہے۔2018ء میں انڈیا کی روسی دفاعی درآمدات کا حجم 11ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔2015ء میں انڈیا نے روس کے ساتھ ہیلی کاپٹر سازی کا ایک مشترکہ معاہدہ بھی کیا تھا جس پر پیش رفت جاری ہے۔ یہ ہیلی کاپٹر بھارت میں تیار کئے جائیں گے اور ان کا نام کاموف۔226 ہو گا۔ قارئین کو یاد ہو گا گزشتہ برس انڈیا نے روس سے S-400نام کا ائر ڈیفنس سسٹم خریدنے کا معاہدہ بھی کیا ہے جس کی مالیت 5ارب ڈالر ہے اور اسے 2023ء تک انڈیا کے حوالے کر دیا جائے گا۔ یہ حقیقت بھی مدنظر رکھیں کہ انڈیا کا دفاعی بجٹ 62 ارب ڈالر ہے اور پاکستان کا 12ارب ڈالر۔
قارئین کرام اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں بھارتی عسکری یا اقتصادی قوت سے مرعوب ہوں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے چار ہمسایوں (بھارت، چین، افغانستان، ایران) میں سے تین کی اقتصادیات کا حجم دیکھ لیں (افغانستان کو فی الحال ڈسکس نہیں کرتے) اور پھر فیصلہ کریں کہ ہم نے کشمیر کے سوال پر انڈیا کے ساتھ فوری جوہری جنگ کی طرف جانا ہے یا اس وقت تک انتظار کرنا ہے جب تک ہم اپنی معیشت کو مستحکم بنا کر کشمیریوں کو ہندو مظالم سے نجات دلوانے کی پوزیشن میں نہیں آ جاتے۔