پولیس کا معاملہ بد انتظامی سے زیادہ سیاسی، اشرافیہ کی سوچ بدلنا ہوگی
تجزیہ: ایثار رانا
مجھے لگتا ہے کہ پولیس کا معاملہ بد انتظامی سے زیادہ سیاسی لگ رہا۔آئی جی پنجاب ایک پروفیشنل سپاہی ہیں۔ساری بد انتظامی انکے کھاتے ڈالنا زیادتی ہوگی۔۔ماضی میں پولیس شہریوں کا ماتھا نہیں چومتی تھی۔۔جب تک ہم سنجیدگی سے اس معاشرتی نظام کا جائزہ نہین لیں گے ماورائے عدالت قتل اور بد سلوکیاں جاری رہیں گی۔آج پولیس کو وڈیروں سیاستدانوں اور طاقتوروں کے ٹول کے طور پہ ہی استعمال کیا جاتا ریایے۔وزرا کی ذاتی سیکیورٹی سے لے کے انکے ڈیروں پر اشتہاریوں کی موجودگی میں ڈیوٹیاں دینے مخالفین کو سبق سکھانے جھوٹے ہرچے درج کرانے سے لیکر سانحہ ماڈل ٹاؤن بند روڈ پولیس مقابلوں کے پیچھے نہ صلاح الدین تھا نہ کانسٹیبل فائزہ یہی وڈیرہ شاہی اور طبقاتی وڈیرے تھے۔سوال یہ ہے کہ ملک کی تقدیر کے ٹھیکیداروں کی سوچ بدل گئی ہے۔کیا وہ بندے کو بندہ سمجھنے لگے ہیں؟؟کیا کمزور طاقتور کا فرق ختم۔ہوگیا ہے؟اگر نہیں تو پولیس صرف نیا پاکستان کہنے سے نہیں سدھر سکتی۔اسکے لیے امرا اشرافیا کو سوچ بدلنا ہوگی جو سر دست ممکن نہیں۔جو سپاہی طاقتور اتنا ہو کہ اسکی ایف آئی آر پہ وزیراعظم کو پھانسی لگ جائے اور بے بس اتنا کہ ڈیوٹی سے واپسی پہ خجل خجل لفٹ مانگتا پھرے اس نے خاک انصاف کرنا ہے۔۔مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ ان واقعات کو بنیاد بنا کے کسی کا جانا ٹہر گیا ہے بس ماحول بنایا جارہاہے۔وزیراعلی بزدار صرف فاتحہ خوانی سے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرسکتے۔اسی طرح آئی جی پنجاب عارف تھانوں میں موبائل کے استعمال پر پابندی لگا کے صرف بری مینیجمبٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ واقعات کسی کا عہدہ لے کے ٹلیں گے۔کاش پولیس اصلاحات کو سنجیدگی سے لیا جاتا۔لیکن بیانات کی حد تک تبدیلی آتی رہی۔ایک بھی ملزم اہلکار کو سزا نہیں ملی۔آئی جی عارف نواز کے پاس اب بھی موقع ہے وہ کمانڈ اینڈ کنٹرول کا مظاہرہ کریں وزیر اعلی کے بعد سب سے زیادہ انکی ساکھ داؤ پہ لگی ہوئی ہے۔یہ جدید ترین میڈیا کا دور ہے کسی نہ کسی طرح ظلم سامنے آجاتا ہے موبائل پہ پابندی سے کچھ نہیں ہوگا۔وردی میں ظلم کی اپروچ کو روکنا ہوگا۔جو کہ بیانات سے نہیں ہوسکتا۔حیرت ہے وزیراعظم عمران خان بھی اس صورتحال پہ خاموش ہیں۔کیا اگر یہ سب شہباز شریف کے دور میں ہوتا تو خاموش رہتے؟؟عوام اب باتوں سے بہلنے والے نہیں انہیں روٹی کپڑا اور مکان کے ساتھ تحفظ امن بھی چاہئیے۔دہشت گردوں سے بھی اور پولیس سے بھی۔
تجزیہ ایثار رانا