صدر علوی کو رہا کرو

 صدر علوی کو رہا کرو
 صدر علوی کو رہا کرو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 بلاول بھٹو نے 90روز کے اندر انتخابات کا مطالبہ کرکے پی ٹی آئی نواز وکلاءکو جوائن کرلیا ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ اب پی ٹی آئی کب بلاول بھٹو سے اتحاد میں اگلے انتخابات میں اترنے کا اعلان کرتی ہے ۔ دو روز قبل بلاول بھٹو نے جب 90روز کی بجائے آئین کے مطابق انتخابات کرانے کا بیان دیا تھاتو ڈان اخبار جیسا موقر روزنامہ اپنی سرخی میں اس بات کو اجاگر کرتا پایا گیا تھا کہ بلاول بھٹو نے پہلی مرتبہ 90روز میں انتخابات کروانے کے مطالبے سے گریز برتا ہے ۔ اگلے دو روز میں بلاول بھٹو نے 90روز کی پخ لگا کر مطالبہ دہرادیا ۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پاس ہونے کے فوراً بعد انتخابات کروانے کی مخالفت کا راز افشا کرکے مستقبل میں پیپلز پارٹی کے بجائے نون لیگ کا ہاتھ پکڑ کر چلنے کا اشارہ دے دیا ہے جبکہ نواز شریف نے بھی اکتوبر میں وطن واپسی کی تصدیق کردی ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ کہیں ان کی جانب سے غیر ضروری تاخیر پر ملکی سیاست میں موجود خلا پُر نہ ہو جائے ۔ 
یہ ساری صورت حال سیاسی چالوں میں آنے والی تیزی کا پتہ دیتی ہے۔ اس سے قبل آصف زرداری ناراض ہو کر دبئی چلے گئے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ عمران خان کی نااہلی کے بعد پی ٹی آئی بطور پارٹی ان کی جھولی میں ڈال دی جائے گی ۔ تاہم ایسا نہ ہوا اور پنجاب میں جہاں جہانگیر ترین کو ذمہ داری دے دی گئی وہاں خیبرپختونخوا میںپرویزخٹک پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین بنا کر سامنے آ گئے۔ اب پیپلز پارٹی کے حصے میں بچی کھچی پی ٹی آئی ہی آئے گی بشرطیکہ وہ اور پی ٹی آئی نواز وکلاءمل کر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 90 روز میں انتخابات کا زور دیتے دیتے 120سے 150دن میں انتخابات یقینی بنانے کی طرف لے جائیں۔ آگے موسم بھی سیاسی سرگرمیوں کے بہت سازگار بن جائے گا اور کوئی بھی سیاسی کھلاڑی نہیں چاہتا ہے کہ شدید موسم سرما کے آنے سے قبل عوامی رابطہ مہم چلانے میں تاخیر کرے ۔ ویسے محکمہ موسمیات کے مطابق اس مرتبہ موسم سرما کے شروع ہونے میں تاخیر کا امکان ہے ۔
جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے تو اسے عوام کی جانب سے اپنی حمائت کی کچھ خاص توقع نہیں ہے کیونکہ موجوہ آرمی چیف کی جانب سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کی خوش خبری پر اس طرح سے خوش دکھائی نہیں دے رہے ہیں جس طرح جنرل مشرف کی جانب سے معاشی بحالی کے لئے سات نکاتی ایجنڈا پیش کرنے پر خوش تھے۔ تب اور اب میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ تب عدلیہ ڈٹ کر جنرل مشرف کے ساتھ کھڑی ہو گئی تھی مگر اس مرتبہ تو خود عدلیہ کی حالت اس قدر پتلی ہو چکی ہے کہ وہ یہ رسک لینے کے تیار نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ پرانی اور نئی اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی میں موجودہ عدالتی اعلیٰ حکام نے پرانوں کا ساتھ دینے کو ترجیح دی تھی اس لئے بھی جنرل عاصم منیر کے لئے اپنی حمائت میں اس طرح کا بلینک چیک حاصل کرنا ممکن نہیں ہے جو جنرل مشرف کو حاصل تھا۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے 90 نہیں تو 120دن میں انتخابات کا ڈول ڈالنا پڑے گا کیونکہ نواز شریف یا کوئی بھی سیاسی لیڈر نہیں چاہے گا کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا کریڈٹ اسٹیبلشمنٹ لے جائے ۔ اس کے برعکس وہ چاہیں گے کہ سی پیک کی طرح یہ کریڈٹ بھی ان کے حصے میں آئے کہ ایک طرف آصف زرداری کلیم کریں کہ ان کی کوششوں سے سی پیک کی راہ ہموار ہوئی تھی اور نواز شریف اتراتے پھریں کہ انہوں نے سی پیک کو عملی شکل دے کر ملک میں سڑکوں اور بجلی کے کارخانوں کا جال بچھایا ۔ اب جبکہ اس کا پھل کھانے کی باری آئی ہے تو دونوں جماعتیں کیونکر ہاتھ باندھ کر اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے چلیں گی، وہ یقینی طور پر لیڈکرنے کو ترجیح دیں گی تاکہ عوام میں ان کی پذیرائی کو نئی جہت مل سکے۔ 
اسٹیبلشمنٹ کے لئے نون لیگ اورپیپلز پارٹی کے علاوہ میڈیا بھی ایک چیلنج بنا ہوا ہے ۔ خود اپنے اندر تو اسٹیبلشمنٹ کافی حد تک تطہیر کرکے پی ٹی آئی نواز عناصر کا قلع قمع کر چکی ہے لیکن اپنے اندر ابھی تک میڈیا پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت پیدا نہیں کر سکی ہے جہاں ہر ٹی وی چینل پر تھوک کے حساب سے پی ٹی آئی نواز چہرے براجمان ہیں اور ہر شام عمران خان کی مقبولیت کے گیت گاتے ہیں اور نواز شریف سمیت اسٹیبلشمنٹ کو کوستے پائے جاتے ہیں۔ وہ ابھی تک یہ بات سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ عمران خان بہت مقبو ل ہوں گے لیکن انہوں نے اپنی مقبولیت سے بڑا جرم کرلیا ہے جس کی سزا انہیں بھٹو بناسکتی ہے !
جہاں تک پی ٹی آئی سے مالی طور پر مستفید ہونے والے وکلاءکی انتخابات کے بروقت انعقاد کے لئے چلائی جانے والی ممکنہ مہم کا تعلق ہے تو ان سے صرف یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ وہ پہلے اس حوالے سے صدر عارف علوی کی گوشمالی کریں کہ انہوں نے اس کا اعلان کیوں نہیں کیا ۔ تاہم اگر وہ بوجوہ گوشمالی نہیں کرسکتے تو اب نئے انتخابات کی مہم چلانے کی بجائے ”صدر عارف علوی کو رہا کرو“ کی مہم کا آغاز کریں کیونکہ ان کی حالت صدر فضل الٰہی سے مختلف نہیں رہی ہے۔ 
موجودہ سیاسی صورت حال بتا رہی ہے کہ نواز شریف کو وطن واپسی پر عمران خان کی بجائے بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے چیلنج کا سامنا ہوگا اور عمران خان اور ان کی پارٹی کو پیپلز پارٹی کی قیادت میں آگے بڑھنا ہوگا۔ دیکھتے ہیں کہ یہ ماحول پیدا کرنے کے لئے پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نواز وکلاءکس قدر کامیاب ہوپاتے ہیں !

مزید :

رائے -کالم -