خواندگی کا عالمی دن

خواندگی کا عالمی دن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خواندگی کے عالمی دن کے موقع پر صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ قوموں کی تقدیر بدلنے میں تعلیم اور خواندگی کا اہم کردار ہے، یہی قوم کے مستقبل کی بنیاد ہیں، آئین کے آرٹیکل 25 اے کے مطابق تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے، وہ ہر شہری کو تعلیم فراہم کرنے کے عہد کی تجدید کرتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ پاکستان میں ناخواندگی کے مسئلے کے پیشِ نظر قومی تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا ہے جس کا مقصد نہ صرف سکول سے باہر بچوں کو سکولوں میں داخل کرنا بلکہ سات کروڑ بالغ افراد کو تعلیم دینا بھی ہے۔ اُنہوں نے ہر خواندہ شہری سے اپیل کی کہ وہ کم از کم ایک ناخواندہ شخص کو پڑھائے، تعلیم کے عالمگیر حق کے فروغ کے قومی مقصد کیلئے خود کو دوبارہ وقف کرنا ہوگا، ملک کے مستقبل کی تشکیل میں ہر فرد کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ صدرِ مملکت نے یہ بھی کہا کہ تمام اضلاع میں لڑکوں کیلئے چار ہزار اور لڑکیوں کیلئے ساڑھے چار ہزار روپے تک فی سہ ماہی وظائف دیے جا رہے ہیں جبکہ اِس وقت لگ بھگ ایک کروڑ بچے بینظیر تعلیمی وظائف پروگرام سے مستفید ہو رہے ہیں،اِس کے علاوہ کم آمدنی والے خاندانوں کے طلبہ کو ایک لاکھ سے زائد انڈر گریجوایٹ سکالرشپ بھی دیئے گئے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی عالمی یوم خواندگی کے موقع پر اپنا پیغام جاری کیا جس میں اُنہوں نے کہا کہ خواندگی بنیادی انسانی اور آئینی حق ہے، تعلیم اور خواندگی ہی ملک کے مستقبل کی ضمانت ہیں، خواندگی محض پڑھنے لکھنے کی صلاحیت کا کام نہیں ہے، یہ بااختیار بنانے، اقتصادی مواقع اور معاشرے میں فعال شرکت کا ”گیٹ وے“ ہے۔ تعلیم کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اْنہوں نے کہا کہ وہ باخبر اور پائیدار قوم کیلئے کوشاں ہیں، تعلیم معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اِسی لیے اُنہوں نے ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے طلبہ کے اندراج کی مہم شروع کی، سکول چھوڑنے کی شرح کو کم کرنے اور ہر بچے کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کی ترغیب دینے کے لیے وظائف اور دیگر مراعات متعارف کرائی ہیں، سکولوں میں بچوں کو دوپہر کا کھانا دینا شروع کیا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا میں ٹیکنالوجی کے مطابق خواندگی اور مہارتوں کی ترقی ناگزیر ہے، حکومت ایک جامع منصوبے پر عمل پیرا ہے جس سے ٹیکنالوجی تعلیمی نظام کا حصہ بن جائے گی، ضروری ہے کہ نوجوان ڈیجیٹل معیشت میں ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے ضروری مہارتوں سے لیس ہوں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نجی شعبے اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں حکومت کی اِن کوششوں میں برابر کی شریک ہیں، موثر شراکت داری کے ذریعے ہی تعلیم کو روزگار کے مواقع سے جوڑا جا سکتا ہے، اِس سے زیادہ مضبوط اور جامع افرادی قوت پیدا ہو سکتی ہے۔

واضح رہے کہ چند ماہ قبل پاکستان میں ہونے والی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج منظر عام پر آئے تو معلوم ہوا کہ پاکستان میں خواندگی کی شرح 61 فیصد ہے جبکہ 68 فیصد مرد جبکہ 53 فیصد خواتین خواندہ ہیں اور 10 سال یا زائد عمر کے  10 کروڑ 41 لاکھ افراد پڑھنا لکھنا جانتے ہیں۔ مردم شماری رپورٹ کے مطابق اِس وقت اسلام آباد میں خواندگی کا تناسب سب سے زیادہ ہے، اِس کی 84 فیصد آبادی پڑھی لکھی ہے۔ صوبوں میں پنجاب سر فہرست ہے جس میں شرح خواندگی 66 فیصد ہے، سندھ کی 58 فیصد آبادی خواندہ ہے، خیبر پختونخوا کی 51 فیصد جبکہ بلوچستان کی 42 فیصد آبادی پڑھنا لکھنا جانتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک میں 36 فیصد بچے سکول جانے سے محروم ہیں جبکہ 5 سے 16 سال کی عمر کے 2 کروڑ 53 لاکھ 70 ہزار بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ پنجاب میں سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد 96 لاکھ، سندھ میں 78 لاکھ اور خیبرپختوانخوا میں 49 لاکھ ہے جبکہ بلوچستان میں 50 لاکھ سے زائد بچے سکول نہیں جاتے۔ سکول سے باہر بچوں کی شرح کے حساب سے بلوچستان میں سب سے زیادہ یعنی 58 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں، سندھ میں یہ شرح 46 فیصد اور خیبرپختوانخوا میں 37 فیصد ہے جبکہ پنجاب میں سکول سے باہر بچوں کی شرح 27 فیصد ہے۔ واضح رہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے جاری کردہ نتائج کے مطابق پاکستان کی آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ 90 ہزار ہے اور آبادی کے لحاظ سے اب پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔

 افسوس کی بات یہ ہے کہ جس تناسب سے آبادی بڑھ رہی ہے اِس طرح وسائل میں اضافہ نہیں ہو رہا، ورلڈ پاپولیشن ریویو کی فہرست کے مطابق دنیا بھر کی خواندگی کی مجموعی شرح 88 فیصد کے قریب ہے جبکہ پاکستان ابھی تک 61 فیصد پر کھڑا ہے اور اِس لحاظ سے شاید دنیا کے پہلے سو ممالک کی فہرست میں بھی نہیں آتا۔اس فہرست میں پہلے دس ممالک میں خواندگی کی شرح لگ بھگ 100 فیصد ہے۔ اِس سے بھی زیادہ پریشان کْن اعدادو شمار سکول سے باہر رہنے والے بچوں کے ہیں جو کروڑوں کی تعداد میں ہیں، پاکستان میں تو واجبی سے پڑھے لکھے فرد یعنی جو اپنا نام لکھ لے اور دستخط کر لے اس بھی خواندہ قرار دیا جاتا ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ اگر آبادی میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو آنے والے سالوں میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ وزیراعظم کی طرف سے تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان تو کر دیا گیا ہے  لیکن حقیقی معنوں میں اِس کا اطلاق ہوتا نظر نہیں آتا، شاید ابھی تک معاملات کاغذی کارروائی سے آگے نہیں بڑھے۔ وزیراعظم کو اِس ایمرجنسی کے تحت صوبوں کو پابند کرنا چاہئے کہ وہ بچوں کے لئے بنیادی تعلیم لازمی قرار دیتے ہوئے ہر بچے کو سکول میں رجسٹر کرنے کا جامع منصوبہ بنائیں اور اِس پر عملدرآمد کا طریقہ کار وضع کریں۔ وزیراعظم ٹیکنالوجی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں،ضروری ہے کہ تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور متعلقہ حکام بچوں کی بنیادی تعلیم میں ٹیکنالوجی کو لازمی قرار دیں، پرائمری سے ہی اس کو نصاب میں شامل کریں اور پھر اُن سہولیات کی فراہمی بھی یقینی بنائیں جن کے ذریعے ایسے مضامین پڑھے اور سمجھے جا سکتے ہیں۔انگریزی کتب کا اردو ترجمہ کرایا جائے تاکہ طلبا کو سمجھنے میں آسانی ہو۔تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے اور اِس شعبے میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے،تربیت یافتہ اساتذہ کی تعیناتی یقینی بنائی جائے، ان کی تنخواہوں پر غور کیا جائے، نصاب کو مستقل بنیادوں پر اپ گریڈ کیا جائے۔ اِس ملک میں المیہ یہ ہے کہ اساتذہ کی تنخواہیں انتہائی کم ہے، سیکریٹریٹ میں بیٹھا عام ملازم بھی استاد سے زیادہ خوشحال ہے۔پرائمری سے لے کراعلیٰ تعلیمی اداروں کا ایک سا حال ہے، اِن کی حالت دیکھ کر تو ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ تعلیم کو ترجیحی حیثیت حاصل ہے۔ اگر روشن مستقبل کی خواہش ہے تو تعلیم کو اولین ترجیح بنا کر اس سے جڑے مسائل کو حل کرنا ہو گا،عملی اقدامات کرنے ہوں گے، ناخواندگی میں اضافہ ہوتا رہا تو مسائل میں کمی کیسے ہو سکتی ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -