بلاوا بڑے گھر کا تھا ہچکچاہٹ کی گنجائش بھی نہ تھی جانا ہی تھا اور وہ چلی گئی، میری آنکھوں کے گوشے بھیگے،اس افسوسناک خبر کی اطلاع سب گھر والوں کودی

 بلاوا بڑے گھر کا تھا ہچکچاہٹ کی گنجائش بھی نہ تھی جانا ہی تھا اور وہ چلی گئی، ...
 بلاوا بڑے گھر کا تھا ہچکچاہٹ کی گنجائش بھی نہ تھی جانا ہی تھا اور وہ چلی گئی، میری آنکھوں کے گوشے بھیگے،اس افسوسناک خبر کی اطلاع سب گھر والوں کودی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:221
 وہ جمعہ کا روز تھا ٹھیک اس وقت جب کہ مسجدوں سے نماز جمعہ کی اذانیں سنائی دینا شروع ہوئیں تو اسی گھڑی میں سامعہ اپنے رب کے حضور پیش ہوگئی۔ ویسے بھی بلاوا بڑے گھر کا تھا ہچکچاہٹ کی گنجائش بھی نہ تھی۔ اس لیے اسے جانا ہی تھا اور وہ چلی گئی۔ تب ہی میری آنکھوں کے گوشے بھیگے لیکن میں نے آنسو نہیں بہنے دئیے۔
میں نے اس افسوس ناک خبر کی اطلاع سب گھر والوں کو کردی اور سامعہ کے جسد خاکی کو گھر منتقل کرنے کے انتظامات شروع کر دئیے۔ ہم نے مغرب کی نماز کے بعد ہی جنازہ رکھا، کیونکہ ان دنوں کووڈ 19 عروج پر تھا میں نے اپنے تمام اہل خانہ اور عزیزوں کو آنے سے منع کردیا تھا۔ حالانکہ ان کی طرف سے آنے کے لیے بہت اصرار کیا جا رہا تھا۔ یہاں صرف میرے علاوہ میری بیٹیاں عاشی اور سمعیہ اپنے خاندان کے چند دیگر افراد کے علاوہ کچھ دوستوں کے ساتھ یہاں موجود تھیں۔ باجی شاہدہ بھی پہنچ چکی تھیں۔ اس لیے ان تینوں نے مل کر اسلامی تعلیمات کے مطابق میت کو غسل دیا اور ابدی سفر کے لیے تیار کردیا، ایسا سفر جو اب مکمل ہو چکا تھا۔ اس کی نماز جنازہ بلال مسجد میں ادا کی گئی اور پھر ہم اسے اسی قبرستان میں چھوڑ آئے جہاں وسیمہ اس کی منتظر تھی۔ کیسا اتفاق تھا کہ دونوں کی آخری آرام گاہیں ساتھ ساتھ ہی تھیں۔ میں نے ان قبروں پر حسرت بھری نگا ہ ڈالی جس میں وہ دونوں عظیم خواتین موجود تھیں، جنہوں نے میری زندگی کو  پُرسکون اور خوشگوار بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ چھوڑا تھا۔
یوں لگا مجھے ازدواجی زندگی کے 2 دو را نیے ملے تھے وسیمہ اور سامعہ۔ میں نے اللہ کی رضا کے سامنے سر جھکا دیا اور تھکے تھکے قدموں سے اپنے گھر کا رخ کیا جو ایک مرتبہ پھر خالی ہو گیا تھا اور جہاں مجھے اب تنہا ہی رہنا تھا۔
 باقی رہے نام اللہ کا
خاندان کا مختصر ملن
عمر دنیا کی مشہور آئی ٹی کمپنی  میں سینئر ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا جو کیلیفورنیا میں واقع سلیکون ویلی میں ہے یہ آئی ٹی انڈسٹری کے حوالے سے امریکہ کا ایک بہت مشہور قصبہ ہے۔ مستقل بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کی وجہ سے وہ مسلسل دباؤ میں رہتا تھا۔ جس میں اس کو ایک تسلسل کے ساتھ امریکہ اور دوسرے ممالک میں سفر کرنا پڑتا تھا۔ سلیکون ویلی میں نوکری کرنا ایک سخت کام ہے۔ حالانکہ وہاں معاوضہ اور سہولتیں بھی اسی مناسبت سے ہیں پھر بھی یہ ایک تھکا دینے والی ملازمت ہوتی ہے۔ ایسے ہی دباؤ کے تحت عمر ایک بار تو بیہوش بھی ہوگیا تھا اور اس کو ہسپتال لے جانا پڑا تھا جہاں ایمرجنسی میں اس کا علاج کیا گیا تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ مسلسل ذہنی دباؤ اسے بری طرح متاثر کر رہا تھا۔ اس لیے اس نے کمپنی سے استعفیٰ دے دیا تاکہ سکھ کا سانس لے سکے۔ میں بھی یہ سن کر پریشان ہو گیا تھا۔ نومبر 2018 ء میں، میں خود اس کو ملنے پالو آلٹو چلا گیا تاکہ صحیح صورتحال کا پتہ لگا سکوں۔ میں نے محسوس کیا کہ اسے تازہ دم ہونے کے لیے تھوڑے آرام کی ضرورت ہے۔ ہم نے وہاں بیٹھ کر اس مشکل کے مختلف حل پر بات کی جن میں ایک یہ بھی تھا کہ وہ مستقل طور پر پاکستان واپس آ جائے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -