کبھی دریا بیچ دیتے ہیں، کبھی انتہائی قیمتی اور اہم خطہ پیش کر دیتے ہیں،ہمارے بس میں سوائے کڑھنے کے کیا تھا، ہم نے گاڑی کابل کی طرف موڑ دی

 کبھی دریا بیچ دیتے ہیں، کبھی انتہائی قیمتی اور اہم خطہ پیش کر دیتے ...
 کبھی دریا بیچ دیتے ہیں، کبھی انتہائی قیمتی اور اہم خطہ پیش کر دیتے ہیں،ہمارے بس میں سوائے کڑھنے کے کیا تھا، ہم نے گاڑی کابل کی طرف موڑ دی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:19
زاہدان کے ساتھ300 مربع میل کا علاقہ تھا جو ایران کو دیا گیا یہاں ہر طرف فیکٹریاں اور بھاری کارخانے نظر آ رہے ہیں۔ یہ ایران کا بہت معروف صنعتی علاقہ ہے۔ ہمیں بہت سے مقامی لوگوں نے یہ معلومات فراہم کیں اور ہم سب پریشان تھے کہ حکمران پاکستان کے ٹکڑے بانٹتے ہیں۔ کبھی دریا بیچ دیتے ہیں، کبھی زاہدان جیسا انتہائی قیمتی اور اہم خطہ ایران کو پیش کر دیتے ہیں۔ بہرطور…… ہمارے بس میں سوائے کڑھنے کے کیا تھا۔ سو ہم پاکستانی کی حیثیت سے اس پر اظہار افسوس کرتے رہے اور پھر ہمیں بتایا گیا کہ زاہدان سے کوئٹہ تک سڑکوں کی حالت خستہ ہے کیونکہ یہاں پر یپٹرول کے کنویں اور ٹینکرز کی وجہ سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اس لئے ہمیں افغانستان میں سے گزر کر پاکستان جانا چاہئے۔ اس وقت یعنی 1970-71ء میں افغانستان سیاسی طور پر مستحکم ملک تھا اور جنگ یا جہاد کا نام ونشان نہیں تھا۔
کابل ان دنوں ظاہرشاہ کا ملک تھا۔ وہاں امریکیوں نے بہت چوڑی اور اچھی سڑکیں بنائی تھیں جن کا شہرہ ایران تک میں تھا۔ ہم نے گاڑی کابل کی طرف موڑ دی۔ پہلے ہم ہرات پہنچے۔ بہت خوبصورت تاریخی شہر ہے۔ یہاں ہم رات ٹھہرے کھانا بھی کھایا اور اگلے روز ہم قندھار پہنچے جہاں فروٹ تازہ اور بے شمار تھا۔ ڈرائی فروٹ بھی ہر جگہ بڑی کم قیمت پر میسر تھا۔ ہم افغانستان کی سیر کرتے ہوئے کابل پہنچے۔ دوران سفر ایک رات محمود غزنوی کے شہر غزنی میں بسر کی۔ وہاں ایک ہی بڑی سڑک تھی جو کہ بیروت سے قندھار، کابل، جلال آباد تک امریکہ نے بنائی تھی۔ ہر شہر سے پہلے بہت بڑے ہوٹل کی طرز پر ’سرائے‘ بنائی گئی تھی جہاں رہائش آرام دہ اور سستی بھی تھی۔ کئی جگہ افغانستانی لوگوں سے ملاقات ہوئی جو اکثر پاکستان میں آ کر لکڑی کا کاروبار یا تعمیر کے کام کرتے تھے اور اردو اچھی طرح بولتے اور سمجھتے تھے۔ پاکستان کے کئی شہروں سے واقف تھے۔جہاں سے ہم نے پاکستان کی سرحد کی طرف رُخ کیا اور وہاں سے ہم براستہ طورخم پشاور شہر میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد ساہیوال کا رُخ کیا۔
پاکستان واپسی
1971ء کے اوائل میں، میں انگلینڈ سے واپس پاکستان پہنچا۔ میری خواہش تھی کہ میں لاہور ہائی کورٹ میں وکالت شروع کروں مگر بار کونسل کی طرف سے بتایا گیا کہ ابتدائی 2سال مجھے لوئر کورٹس میں وکالت کرنا ہو گی جس پر میں نے ساہیوال میں ہی وکالت شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ضلع ساہیوال چونکہ میرا شہر ہے جہاں میں پلا بڑھا۔ ابتدائی تعلیم سے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ میرے عزیز و اقارب، دوست احباب کی اکثریت بھی اسی ضلع میں مقیم ہے۔ چنانچہ میں نے یہاں مقامی سینئر ایڈووکیٹ شیخ حفیظ احمد کے چیمبر میں وکالت شروع کر دی۔ 6 ماہ پریکٹس مکمل کرنے کے بعد میں نے ساہیوال میں اپنا چیمبر بنایا اور 1977ء تک یہاں وکالت کرتا رہا۔ 1978ء کے شروع میں، میں نے لاہور شفٹ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -