سراج الحق کا انتخاب اور چہ میگوئیوں کا سیلاب
سراج الحق جس دن سے جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے ہیں کالم نگار صاحبان کے ہاتھ ایک نیا مشغلہ آگیا ہے ،ہر کوئی اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے ،ان مختلف راگوں کو سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کے انتخابات کے نتائج کا اتنی بے چینی سے انتظار ارکان جماعت کو نہیں تھا جتنی بے چینی ہمارے ان بھائیوں کو تھی ۔اکثر سینئر کالم نگاروں نے بھی اپنی رائے کے اظہار میں مثبت کی بجائے منفی پہلو ﺅںکوتلاش کرنے اور مین میخ نکالنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی ہے ،ہرایک کی اپنی اپنی منطق ہے ،کسی نے خالصتا قرآن و سنت کے مطابق ہونے والے اس انتخاب کو سخت مقابلہ بازی کا نام دیا ہے تو کسی نے اپنے طور پر شکست و ناکامی اور عدم اعتماد سے دو قدم آگے نکل کر سید منورحسن کی پالیسیوں کو مسترد کردیئے جانے تک بات بڑھا دی ہے ،حالانکہ رات گئے جب سید منورحسن نے نومنتخب امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو مبارک باد اور استقامت کی دعا کیلئے فون کیا تو سراج الحق کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی ،ان کیلئے بات کرنا مشکل تھا ،انہوں نے ہچکیوں میں کہا کہ ”یا اللہ !میں یہ بوجھ کیسے اٹھاﺅں گا“؟
سید منورحسن نے ان کی ہمت بندھائی اور حوصلہ دیا،یہ منظر جماعت اسلامی میں پہلی بار دیکھنے میں نہیں آیا ،جماعت اسلامی کے کسی بھی منصب کیلئے منتخب ہونے والا کوئی بھی فرداپنی ذمہ داریوں کو پھولوں کی سیج نہیں سمجھتا ،اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے بوجھ تلے دب جاتا ہے اور اچھے بھلے تواناشخص کی کمر جھک جاتی ہے ،بلکہ جماعت اسلامی کے حلقوں میں تو ایک مقولہ مشہور ہے کہ ”جس کی داڑھی اور سر کے بال جوانی میں ہی سفید نظر آئیں سمجھو کہ وہ کوئی تحریکی ذمہ داری پر نبھایا نبھاتا رہا ہے ،، دوسال قبل جب پرو فیسر ابراہیم صوبائی یا نائب امیر کا حلف امارت اٹھانے لگے تھے تو وہ بھی بچوں کی طرح بلک بلک کر رودیئے تھے ،سید منورحسن جب امیر جماعت کا حلف لینے لگے تھے تو ان کی آواز بھر ا گئی تھی اور ان کیلئے حلف کی چند سطروں کی عبارت پڑھنا مشکل ہوگیاتھا !
جماعت اسلامی میں اس طرح کے مناظر اکثر دیکھنے میں آتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو کئی کئی دن تک حلف اٹھانے کا معاملہ اس لئے لٹکا رہتا ہے کہ جن صاحب کی ذمہ داری لگائی جاتی ہے وہ معذرت کرلیتے ہیں کہ میں اس منصب کے اہل نہیں ،آپ میرے کسی دوسرے بھائی کو منتخب کرلیں ۔دوسری طر ف ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں کے اندر اپنے ہی ہم جماعت لوگوں کے درمیان پائی جانے والی مخاصمت ،عہدوں کیلئے رسہ کشی اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی افسوسناک خبریں آئے روز اخبارات کی شہ سرخیاں بنتی رہتی ہیں ۔ کاش ہمارے ملک کی سیاسی و دینی جماعتیں جماعت اسلامی کے اس مستحسن اور خالص اسلامی طریقہ انتخاب سے راہنمائی لیتے ہوئے اپنے افراد کے درمیان پائی جانے والی رنجشوں اور غلط فہمیوں کا خاتمہ کرنے کے بارے میں سوچیں ۔جماعت اسلامی اس حوالے سے قومی سیاسی جماعتوں میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے کہ یہ جماعت اپنے آغاز ہی سے اپنا ایک دستور رکھتی ہے ،جس پر من وعن عمل ہوتا ہے اوردستور کی خلاف ورزی کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔
آغاز ہی سے جماعت اسلامی کے امیر کا چناﺅ خفیہ رائے دہی سے ہوتا آیا ہے ،جماعت اسلامی کی شورٰی ارکان جماعت کی سہولت کیلئے تین نام تجویز کردیتی ہے مگرارکان کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ تجویزکئے گئے ناموں کے علاوہ بھی اگر کسی کو اس منصب کازیادہ اہل سمجھتے ہوں تو اسے ووٹ دے سکتے ہیں ، دستور کی دفعہ ,13میں امیر کے انتخاب کا طریقہ درج ہے جس کے مطابق ارکان جماعت کوایسے فرد کو منتخب کرنے کا پابند بنایا گیا ہے جو امارت کا خود امیدوار نہ ہو اور اس سے کوئی ایسی بات ظہور میں نہ آئی ہو جس سے پتہ چلے کہ وہ امارت کا خود خواہش مند یااس کیلئے کوشاں ہے ،یہ کہ ارکان جماعت اس کے تقویٰ ،علم کتاب و سنت ،امانت و دیانت ،دینی بصیرت ،تحریک اسلامی کے فہم ،اصابت رائے ،تدبر ،قوت فیصلہ ،راہ خدا میں ثبات و استقامت ،اور نظم جماعت کو چلانے کی اہلیت پر اعتماد رکھتے ہوں۔
جماعت اسلامی میں انتخابات کا یہ انوکھا اور منفرد طریقہ ہے جس میں کسی بھی منصب کیلئے کوئی امیدوارنہیں ہوتا،نہ کوئی لابنگ ہوتی ہے ،نہ دھڑے بندیاں بنتی ہیں ، کسی کی ذات پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے اور نہ ہی کسی کی عیب جوئی کی جاتی ہے ،بلکہ چھپ چھپ کر اپنے پروردگار سے رو روکر دعائیں کی جاتی ہیں کہ میرے اوپر یہ گراں بوجھ نہ ڈالنا !جماعت اسلامی کے تمام امراءنے ہی مرکزی شورٰی سے امیر جماعت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیئے جانے کی درخواست کی ،بانی¿ جماعت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ،میاں طفیل محمد ؒ ،قاضی حسین احمد ؒ اور خود سید منورحسن نے بھی شورٰی سے امیر جماعت کی ذمہ داری سے فراغت کی استدعا کی۔سید منورحسن تک منتخب ہونے والے امراءجماعت قبل ازیں سیکریٹری جنرل کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے تھے،مگر سراج الحق کے انتخاب سے یہ روائت قائم نہیں رہی ۔امیر جماعت کے انتخاب میں کسی کی فتح و شکست یا کامیابی و ناکامی نہیں ہوتی، کامیابی اس دستور کی ہوتی ہے جس میں اس منصب کو دنیاوی جاہ و جلال کیلئے نہیں بلکہ اللہ کے دین کے غلبہ اور اخروی کامیابی اور رضائے الہیٰ کے حصول کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ اتنی بڑی ذمہ داری کے احساس ہی سے بندے کی کمر جھک جاتی ہے اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے خوف سے آنکھیں چھلک جاتی ہیں ۔