جماعت اسلامی کے نئے امیر: سراج الحق!
وقت کی قلت تو ضرور آڑے آئی۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اپنا پالیسی بیان مکمل کر کے ہی چھوڑا اگرچہ ان کو تیز بولنا پڑا۔ نماز عصر سے نماز مغرب کے درمیانی عرصہ کے دوران نومنتخب امیر کی تقریب حلف برداری کے لئے یقیناً وقت کم تھا، تاہم یہ منتظمین کی صوابدید ہے کہ وہ جس طرح مناسب جانیں کریں۔ امکانی طور پر نومنتخب امیر کی اجازت ہی سے یہ ہوا ہو گا کہ صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے سپیکر سمیت قریباً تمام صوبائی وزراءبھی آئے ہوئے تھے۔ تقریب حلف برداری بڑی بارونق اور پرجوش تھی، منصورہ کا مرکزی سبزہ زار حاضرین سے بھرا ہوا تھا تو اردگرد کی جگہوں پر بھی لوگ کھڑے ہوئے تھے۔
نومنتخب امیر سراج الحق کا اپنا خطاب بھی جوش بھرا اور جماعت کی دیرینہ پالیسی کے مطابق تھا، تاہم انہوں نے اپنی تقریر میں ایک تبدیلی کا بھی اشارہ دیا، امیر جماعت نے کہا کہ شوریٰ میں بحث اور جماعتی فیصلے کے بعد حالیہ انتخاب سے پہلے طے کیا گیا کہ جماعت اسلامی خود اپنے بینر اور اپنے انتخابی نشان ترازو پر انتخابات میں حصہ لے گی، انتخابی نتائج نے ثابت کیا کہ عوام نے متوقع پذیرائی نہیں دی کہ شاید ابھی پیغام پوری طرح نہیں پہنچ سکا، اس حوالے سے حتمی بات تو بہرحال نہیں کہی لیکن یہ ضرور واضح کیا کہ ملک میں تبدیلی نظام کے لئے ہم خیال اور ہم نظریہ دینی اور سیاسی جماعتوں سے مکالمہ شروع کر کے اجتماعی جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نئے امیر کی اپنی رائے اتحاد کے حق میں ہے اب یہ مسئلہ نئی شوریٰ میں ہی زیر بحث آ کر فیصلہ ہو سکتا ہے کہ جماعت کا طریق کار یہی ہے۔
سبزہ زار میں ہونے والی یہ تقریب واقعی پر اثر تھی کہ جماعت سے وابستہ جو حاضرین اور کارکن موجود تھے انہوں نے سابقہ امیر سید منور حسن کے لئے بھی نعرے لگائے اور نئے امیر کو بھی خوش آمدید کہا، سراج الحق کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے لیکن انہوں نے بڑی صاف ستھری اردو بولی تاہم لہجے میں صوبائی تاثر موجود تھا، اس سے مرحوم قاضی حسین احمد بہت یاد آئے اور یہی اندازہ ہوا کہ جماعت کے رائے دہندگان نے شاید امارت کا بوجھ ان کے کندھوں پر اسی ارادے سے ڈالا ہے۔
لیاقت بلوچ نے سٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیئے تو نبھایا بھی خوب، تلاوت اور نعت کے بعد انہوں نے ناظم انتخاب عبدالحفیظ احمد کو دعوت دی اور انہوں نے ذرا تفصیل سے طریق کار کی وضاحت کی اور بتایا کہ رائے دہندگان نے سراج الحق کو نیا امیر منتخب کیا ہے، ان کی تفصیل کے مطابق یہ تو بتایا گیا کہ قریباً 31ہزار اہل رائے دہندگان میں سے پچیس ہزار نے حق رائے دہی استعمال کیا اور اکثریت نے سراج الحق کے حق میں رائے دی ان کی طرف سے یہ نہیں بتایا گیا کہ کس کو کتنے ووٹ پڑے، ناظم انتخابات کے مطابق شوریٰ نے تین نام سید منور حسن، لیاقت بلوچ اور سراج الحق تجویز کر کے رائے دہندگان کو بھیجے کہ وہ ان تینوں میں سے جس کسی کو چاہیں تو اسے منتخب کر لیں اگر یہ نہ ہو تو وہ جماعت میں سے کسی اور کو بھی منتخب کر سکتے ہیں۔
ماضی کی روایات کو دیکھا جائے تو جماعت اسلامی کی امارت کی تبدیلی یا تو امیر کی طرف سے معذرت یا پھر کسی امیر کی وفات کی وجہ سے ہوئی دوسری صورت میں جو امیر منتخب ہوئے وہ تسلسل سے ہوتے چلے آئے تاہم اس مرتبہ ایسا نہ ہوا اور سید منور حسن کی جگہ سراج الحق کو ذمہ داریاں سونپی گئیں، یہ تبدیلی اچانک محسوس کی گئی اور پھر تجزیے اور تبصرے بھی شروع ہو گئے خبریں دینے والوں نے یہ بھی کہا کہ سید منور حسن شکست کھا گئے، سید منور حسن اس انداز سے رنجیدہ نظر آئے کہ انہوں نے اپنی تقریرمیں میڈیا والوں سے شکوہ کر ہی دیا اگرچہ انداز مصالحانہ تھا۔ ان کے بقول ان کو شکست خوردہ قرار دے کر زیادتی کی گئی کہ یہ جماعت کا طریق کار نہیں کیونکہ جماعت میں کوئی از خود امیدوار نہیں ہوتا نام شوریٰ اجتماعی طور پر تجویز کرتی ہے، اس لئے کسی کے فتح یاب یا کسی کے شکست کھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے ان پانچ ہزار رائے دہندگان کا خصوصی ذکر کیا جنہوں نے یہ حق استعمال نہیں کیا اور اکابرین جماعت سے کہا کہ وہ ان سے رابطے کریں۔
جماعت اسلامی کے قواعد اور ضابطے کے مطابق سید منور حسن کی بات درست ہے لیکن اس کا کیا کیا جانے کہ یہ انتخاب غیر روایتی ثابت ہوا، ورنہ تو ان پر ہی اعتماد کا اظہار ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا محسوس ہوا ہے کہ سید منور حسن نے ”شہید“ والا جو تنازعہ پیدا کیا اس نے تنقید کے بہت سے راستے کھول دیئے اور وہ مسلسل اصرار کرتے اور میڈیا میں ان پر تنقید ہوتی رہی ممکنہ طور پر رائے دہندگان ضرور متاثر ہوئے ہوں گے۔ تقریب حلف برداری میں بھی انہوں نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا تو شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی پر زور حمایت اور وکالت کی بلکہ یہ کریڈٹ لیا کہ سب سے پہلے جماعت اسلامی نے مذاکرات کی بات کی اور آج سبھی حمایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ مذاکرات کامیاب ہوں گے تو امن بھی ہو گا اور اگر کامیاب نہ بھی ہوئے تو حوصلہ نہیں ہارنا پھر مذاکرات ہوں گے تاآنکہ مکمل امن قائم نہیں ہو جاتا۔
نومنتخب امیر سراج الحق نے جماعت کی نظریاتی اساس کا ذکر کیا اور زور دے کر کہا کہ جماعت اسلامی پرامن، سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے ملک میں موجودہ نظام کو تبدیل کرنا چاہتی ہے اور یہاں قرآن و سنت کے مطابق نظام رائج کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے جو جاری رہے گی۔ انہوں نے موجودہ ملکی انتخابی نظام پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اسے تبدیل کرنا ہو گا کہ انتخابات کے ذریعے صحیح قیادت منتخب ہو سکے۔ موجودہ طریق انتخاب کے ذریعے تو ملک کے پچانوے فیصد عوام پر صرف پانچ فیصد اشرافیہ حکومت کر رہی ہے۔ محترم امیر چاہتے ہیں کہ سعودی عرب اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے اور مصر یا دوسرے ممالک میں اسلامی تنظیموں اور صحیح اسلامی نظریئے کی حمایت کرے مصر میں صدر مورسی منتخب صدر تھے ان کی بحالی ضروری ہے۔ انہوں نے سعودی عرب اور ایران سمیت تمام مسلمان ممالک سے متحد ہونے کی بھی اپیل کی۔
امیر سراج الحق پر جوش اور متحرک شخصیت ہیں۔ ان کا اندازہ بیان بھی خوب ہے۔امکان ہے وہ قاضی حسین احمد کی طرح تحرک پیدا کریں گے۔