لاتعلقی ختم کرنا ہوگی
یہ 1930 سے قبل کی بات ہے ۔ سندھ کی سیاست میں سائیں جی ایم سید، کراچی میں جمشید نسرواں جی، اور دیگر درجنوں ایسے افراد زندہ تھے اور ایسی سیاست میں سرگرم تھے جس سے مخلوق کا بھلا ہوتا تھا۔ سائیں اگر خواتین ، ہاریوں ، ناخواندہ عام لوگوں کی تعلیم کے لئے کوشاں تھے تو کراچی میں جمشید جی شہر کو انسانوں کی سہولتوں کا مرکز بنانے کے ساتھ ساتھ جانوروں کی سہولتوں کے لئے اس حد تک سرگرم رہتے تھے کہ سڑک پر چلتے ہوئے اگر کسی گاڑی سے کسی زخمی گدھے کو بندھا ہوا دیکھ لیتے تھے تو خود اسے اسپتال لے جاتے تھے۔ اس کے مالک کو قائل کرتے تھے کہ اس کا علاج کراﺅ۔ مال بردار گاڑیوں سے بندھے ہوئے گدھے اکثر زخمی ہوتے ہیں۔ 1930ءمیں جمشید جی کو خیال آیا کہ ہاریوں کی زندگی میں تبدیلی لائی جائے ۔ انسانوں کی زندگی میں تبدیلی لانے کی خواہش رکھنے والوں نے میر پور خاص میں اجلاس کرنے کا فیصلہ کیا۔ سندھ بھر سے رہنماءجمع ہوئے۔ سندھ ہاری کمیٹی کی داغ بیل ڈالی گئی تاکہ ہاریوں کو منظم کیا جاسکے اور انہیں ان کے حقوق دلائے جاسکیں۔ اس دور میں بھی برصغیر میں انسانوں کا عجیب استحصال کیا جاتا تھا۔ لیکن ایک فرق تھا۔ وہ یہ کہ اس وقت کی حکومت اور سیاسی رہنماءعام لوگوں کے معاملات میں گہری دلچسپی رکھا کرتے تھے۔ بہر حال اجلاس ہوا، ہاری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ بعد میں سرگرمی معدوم ہو گئی۔ لوگوں نے ہاریوں کو منظم کرنے کے لئے اس طرح کام نہیں کیا جس کا تقاضہ تھا۔ کمیٹی کی داغ بیل ڈالنے والے حضرات اپنی دیگر سیاسی مصروفیات کی وجہ سے بھی وقت نہیں دے سکے۔
پھر قیام پاکستان سے تھوڑا قبل اور بعد میں ہاری کمیٹی میں دوبارہ جان پڑی جس کی وجہ حیدر بخش جتوئی کی اپنی سرکاری ملازمت سے مستعفی ہو کر ہاری کمیٹی میں شمولیت تھی۔ انہوں نے 1945 سے اپنی موت تک ہاریوں کو منظم کرنے کا کام کیا ۔ یہ سارا کام حیدرآباد میں ہاری حقدار کی عمار ت میں ہوتا رہا جہاں ایک حصے میں حیدر بخش جتوئی کی رہائش بھی تھی۔ وہ حیدر منزل جہاں حیدر محفل جمع ہوتی تھی اب کسی بلڈر کے حوالے ہوئی جو ہاری حقدار عمارت کا نام و نشان مٹا کر حیدرآباد میں ایک اور بے ڈھنگی عمارت لوگوں کے پیسوں سے تعمیر کرے گا۔ حیدر بخش جتوئی کے دور میں کمیٹی کا اہم ترین کارنامہ ہاریوں کو منظم کرنے کے ساتھ سندھ ٹینسی ایکٹ کی منظوری تھی۔ ایکٹ کی منظوری میں سندھ اسمبلی میں موجود زمیندار نمائندے رکاوٹ تھے۔ ہاری کمیٹی نے سندھ اسمبلی کا گھیرا ﺅ کیا اور ایکٹ منظور کرا لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایکٹ پر اس کی روح اور مقاصد کو نظر میں رکھتے ہوئے عمل نہیں کرایا گیا۔ اسی دور میں سرکاری افسر مسعود کھدر پوش کی ہاریوں کے بارے میں تیار کردہ رپورٹ میں اختلا فی نوٹ سامنے آگیا تھا جس کی وجہ سے ہاریوں کا مقدمہ مضبوط ہو گیا تھا۔ مسعود کو ہاری بھگوان پکارتے تھے۔ اسی طرح جیسے جبری مشقت سے ہاریوں کو رہائی دلانے کی جدو جہد کرنے والے شکیل پٹھا ن مرحوم کو اوتار قرار دیتے تھے۔ شکیل مرحوم نے تو وہ کام کردیا جو اس ملک میں بڑی بڑی سیاسی جماعتیں نہیں کر سکیں۔ کسی انسان کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دلانا ہی تو ہر دور کا کارنامہ رہا ہے۔ جبری مشقت جس طرح کی غلامی ہے وہ اس غلامی کی ایک شکل ہے جس کے لئے امریکہ کے صدر ابراہم لنکن نے شہرت حاصل کی۔ مارٹن لوتھر کنگ نے خواب دیکھا۔محنت کشوں کے مجموعی حالات تبدیل کرانے کے لئے پاکستان میں سیاست کرنے والے لوگ اپنے اپنے طورپر مختلف ادوار میں سرگرم رہے۔
ماہی گیروں کے لئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان فشر فوک فورم نے حال ہی میں ہاریوں کی قومی اسمبلی کا اہتمام کیا۔ اس اسمبلی میں ہاریوں کے حالات کار پر بحث ہوتی رہی۔ وہ مطالبہ جو بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں کرتی رہتی ہیں دہرایا گیا۔ وہ مطالبہ یہ ہے کہ ملک سے جاگیرداری ختم کر کے بے زمین ہاریوں کو زمین دی جائے تاکہ وہ اپنی زندگی بہتر طور پر گزار سکیں۔ مشہور زمانہ صوفی بزرگ شاہ عنایت کی تو پوری تحریک اسی نکتہ پر مرکوز تھی کہ جو بوئے وہ کھائے ۔ پاکستان میں کی گئی تمام زرعی اصلاحات کسی نہ کسی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوئیں ۔ شاہ عنایت کا خواب تعبیر نہیں پا سکا۔ اس کی بڑی وجہ وہ لوگ نظر آتے ہیں جو ہاریوں کی زندگی میں تبدیلی لانے کی بات تو کرتے ہیں لیکن ہاریوں کو منظم کرنے کے معاملے میں کوتاہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہاریوں کی قومی اسمبلی زیادہ بڑے پیمانے پر منعقد کی جانی چاہئے تھی جس میں ہاریوں کی بڑی تعداد موجود ہونا چاہئے تھی۔
ہاریوں کو منظم کرنا، ان کو کسی ایسی تنظیم میں شامل کرنا جس کا ایجنڈا کسی حالت میں سیاسی نہ ہو، انہیں ان کے علاقوں میں پولس سے تحفظ دلانا، عدالتوں میں ان کے مقدمات کی پیروی کا انتظام کرنا اس لئے اہم ہے کہ اس کے بغیر ان کے حقوق کے لئے جدوجہد نہیں کی جا سکتی۔ آج بھی اگر سندھ ٹینسی ایکٹ پر اس کی روح کے مطابق عمل کرالیا جائے تو بھی ہاری سکون کا سانس لے سکیں گے۔ دوسرا نہایت ضروری کام یہ ہے کہ ہاری کو اپنے روز گار کے لئے زمین دلانے کا مطالبہ کرنے سے قبل اسے سر چھاپانے کے لئے کوئی ایسا قطعہ اراضی دلایا جائے جہاں وہ اپنا گھر بنا سکے۔ سندھ میں ہاریوں کی تعداد کسی بھی طرح پچاس لاکھ سے کم نہیں لیکن ایک شخص کا بھی اپنا گھر نہیں ہے۔ وہ اپنی رہائش کے لئے اپنے زمیندار کا محتاج ہوتا ہے۔ہمارے آج کے سیاسی رہنماءکسر شان تصور کرتے ہیں کہ سڑک پر چلتے ہوئے کسی غریب سے اس کا حال احوال معلوم کر لیں۔ جانوروں کی بات کیا کرنی۔ لیکن اس ملک میں تو محنت کش لوگ جانوروں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں۔ کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے کہ تم نے پیٹ بھر کھانا کھایا، پینے کو صاف پانی مل رہا ہے، تمہارے جسم پر کپڑے کیوں نہیں ہیں،تمہارے پاﺅں میں جوتے کیوں نہیں ہیں، تمہارے بچوں کی تعلیم کا کیا بندوبست ہے، بیماری کی صورت میں علاج کی کیا سہولت حاصل ہے، گھر تمہارا ہے یا کرایہ پر کہیں رہائش رکھتے ہو۔ اکثر زمیندار اپنے ہاریوں کے معمولات سے اسی طرح لا تعلق رہتے ہیں جیسے اس تماش گاہ میں سیاست کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد زمینی حقائق سے لا علم رہتے ہیں اسی وجہ سے نہ ان کی زندگی میں تبدیل آتی ہے اور نہ ہی ملک کی زرعی پیدا وار میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی پاکستان کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔