تربیلا وزٹ کے بعد کور کمانڈرز کانفرنس !
چونکہ پاکستان ایک طویل عرصے سے حالت ِ جنگ میں ہے اس لئے ملٹری کمانڈروں کی کانفرنسیں ایک معمول بن چکی ہیں۔ ان میں جو موضوعات زیر بحث لائے جاتے ہیں، ان کا ایجنڈا پہلے سے مرتب کر لیا جاتا ہے۔ ایک ایک آئٹم پر ڈسکشن کی جاتی ہے اور آخر میں جو فیصلہ یا نتیجہ ہوتا ہے اس کو بھی ریکارڈ پر لایا جاتا ہے۔ یہ تمام ریکارڈ جی ایچ کیو کی ایک برانچ میں محفوظ ہو جاتا ہے اور وقت آنے پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جب مستقبل میں کسی وقت یہ ریکارڈ اوپن ہو گا تو اس کو دیکھا جا سکے گا۔ مگر تب تک تو سب کچھ تاریخ کا حصہ بن چکا ہو گا۔ ہاں آئندہ کے لئے اسباق اخذ کرنے کا یہ وسیلہ ایک مفید اور کارآمد ذریعہ ہو گا۔
حالیہ کور کمانڈر کانفرنس جو دو روز پہلے منعقد ہوئی اور اس کی جو کوریج میڈیا پر آئی ہے، اس کا کوئی باوثوق اور مستند ماخذ نہیں ماسوائے اس بیان کے کہ جو آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کیا گیا ہے۔ البتہ ایک دوسرا ماخذ جو غیر مصدقہ اور غیرمستند ہوتا ہے وہ افواہوں کا وہ پنڈورا باکس ہے جو ہمارا میڈیا ہر شام کھولتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جب بھی حالت ِ جنگ میں ہوتے ہیں یا ان کو اُسی قسم کے سنگین مسائل درپیش ہوتے ہیں جو ایک طویل عرصے سے پاکستان کو درپیش ہیں تو اس تناظر میں ہونے والی کسی کور کمانڈر کانفرنس کا پیشگی اعلان نہیں کیا جاتا۔ یہ ایک راز دارانہ اور خفیہ کانفرنس ہوتی ہے جس کی کانوں کان خبر نہیں دی جاتی! مگر صاحبو! ہمارا تو باوا آدم ہی نرالا ہے!
یادش بخیر ایک بار پچھلی حکومت میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے موضوع پر پارلیمنٹ کو بریفنگ دی گئی تھی اور اس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی شامل تھے۔ ڈی جی ISI نے جو بریفنگ اراکینِ پارلیمان کو دی تھی، اس کے بارے میں اعلان کیا گیا تھا کہ یہ بریفنگ ”اِن کیمرہ“ ہو گی، یعنی ”خفیہ“ ہو گی۔ لیکن ابھی بریفنگ جاری تھی کہ ایک معزز رکن ِ اسمبلی نے (شائد بریک کے دوران) باہر آ کر اس بریفنگ کے تمام چیدہ چیدہ نکات میڈیا کے ”گوش گزار“ فرما دیئے تھے۔ پھر جب شام ہوئی تھی اور اس ”اِن کیمرہ“ بریفنگ کا جو تیا پانچہ کیا گیا تھا بلکہ آئندہ دس دن تک کیا جاتا رہا تھا، اس کو دیکھ اور سُن کر مجھے خیال آتا تھا کہ کیا کوئی کور کمانڈر بھی (دورانِ بریک) کانفرنس روم سے باہر نکل کر میڈیا کے سامنے (یا آئی ایس پی آر کے سامنے) کانفرنس میں طے کئے گئے ”چیدہ چیدہ“ نکات کا اظہار اس طرح کر سکتا ہے؟.... قارئین! ایسا سوچنا بھی ملٹری اصطلاح میں ناقابل ِ تصور جرم ہے! آپ خود فیصلہ کریں کہ ندیا کے دو کنارے ”سول اور ملٹری“ ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں چل سکتے۔ اور یہ بھی کہ کیا ان دونوں کو ملانا ضروری بھی ہے یا نہیں ہے؟
فوج اور میڈیا کا جبلّی مزاج ایک دوسرے سے متضاد ہے۔ فوج اپنے معاملات پوشیدہ رکھتی ہے کہ دشمن کو اس کی خبر نہ لگے جبکہ میڈیا ”کھمب“ کا ”کاں“ بنا کر اسے اڑانے میں ایک سرخوشی اور سرشاری کی سی کیفیت محسوس کرتا ہے۔
حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس میں جو نکات (Points) زیر بحث آئے ہوں گے، ان کا 99فیصد علیہ ما علیہ عسکری اور خالصتاً پیشہ ورانہ امور کو محیط ہو گا۔ لیکن ان نکات کے بارے میں نہ کسی شہری کو ہوش ہے اور نہ کوئی چاہتا ہے کہ ہوش کرے۔ وہ تو ایسی خبروں کا دیوانہ ہے جن کا خمیر سنسنی خیزی، تحیر اور تشکیک سے اٹھایا جاتا ہے۔ چنانچہ ابھی یہ کانفرنس جاری تھی کہ خبریں آنی شروع ہوئیں کہ فوج نے ”خواجہ آصف کے بیان پر اظہارِ ناپسندیدگی کر دیا ہے!“
پھر ٹی وی چینلوں پر پٹیاں چلانے کی بھیڑ چال نے اس خبر کو مزید توثیق عطا کر دی۔ کوئی ان چینلوں کے ناخداﺅں سے پوچھے کہ کس کور کمانڈر نے یا فوج کے کس ترجمان نے یہ خبر دی تھی کہ فوج نے وزیر دفاع کے بیان پر اظہارِِ ناپسندیدگی کر دیا ہے؟۔ وزیر دفاع نے جنرل راحیل شریف کے اس عمومی بیان کو کہ ” فوج اپنے وقار کا سختی سے دفاع کرے گی“، ایک خصوصی شکل دے کر اس پر ایک اور بیان جاری فرما دیا تھا کہ ”پارلیمان سپریم ہے“.... ان کا خیال ہو گا کہ فوج کو ایسا بیان دینے کا کیا حق ہے؟.... وہ اپنے وقار کا دفاع کرنے والی کون ہوتی ہے؟ ....اس طرح کا بیان اگر آئے بھی تو حکومت کی طرف سے آئے، وزارتِ اطلاعات و نشریات کی طرف سے آئے اور وزیر دفاع اس کا اظہار کرے، یہ آرمی چیف کون ہوتے ہیں کہ اپنے ٹروپس کا دل خوش کرنے اور اپنی فوج کا مورال اونچا کرنے کے لئے سویلین حکومت کی SoPs کی خلاف ورزی کریں۔.... یہ حق تو صرف پارلیمان کا ہے جو سپریم ہے.... آئین کی فلاں شق اُٹھا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ کسی سروس چیف کا اس قسم کا بیان کیا معنی رکھتا ہے؟....
خیال ہے کہ وزیر دفاع کے اِسی قسم کے خیالات پر کور کمانڈرز کی کانفرنس نے اظہارِ ناپسندیدگی کیا گیا ہو گا۔ (بشرطیکہ کیا گیا تھا)
مَیں سوچتا ہوں کیا وزیر دفاع کو یہ کہنے کی ضرورت تھی کہ پارلیمنٹ سپریم ہے یعنی وزیر دفاع، سروس چیفس سے سینئر ہیں، یعنی سروس حیفس ان کو سیلوٹ کرتے ہیں؟.... کیا آج کے نشرو اشاعت کے اس طوفانی دور میں اس ”حقیقت“ سے کوئی سپاہی، سیلر یا ائر مین تک بے خبر رہ سکتا ہے؟
اس کانفرنس کے اختتام پر آئی ایس پی آر کی طرف سے جو بیان آیا (یا اس کے ترجمان نے جو کہا) وہ یہ تھا کہ: ”شرکائے کانفرنس نے ملک کی اندرونی اور بیرونی صورتِ حال پر سیر حاصل غور کیا“.... اس کے بعد ترجمان نے مزید جو کچھ کہا وہ یہ تھا: ”ایساف (ISAF) کی افغانستان سے واپسی اور اس واپسی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات اور علاقے کی سیکیورٹی پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ بھی اس کانفرنس میں لیا گیا۔“
قارئین محترم! آپ ذرا دماغ پر زور دے کر سوچیں کہ آپ نے گزرے کل اور پرسوں شام، اس قسم کی پٹیاں یا اس موضوع پر بھی کوئی سیر حاصل ٹاک شو دیکھا یا سُنا ہے؟ .... دراصل یہی وہ خلیج ہے جو ایک عرصے سے سویلین اور ملٹری افکار کی جھیل کو مزید گہرا اور وسیع کئے جا رہی ہے۔ 67سال گزر چکے لیکن اس خلیج کو پاٹنے کی طرف کسی صاحب ِ فکر نے توجہ نہیں فرمائی۔ ایسے میں وہ تنظیم (ملک کی مسلح افواج) کہ جو علاقائی اور ملکی سلامتی کی ذمہ دار اور پاسبان ہے اگر کانفرنسیں منعقد نہ کرے تو کون کرے؟ اور اگر کرے اور اس کو غلط سلط معانی پہنا کر اس کا رُخ بالکل لایعنی موضوعات و معاملات کی طرف موڑ دیا جائے تو پھر یارانِ طریقت کی تدبیر کیا ہو؟
میڈیا پر بی بی سی کی ایک ویب سائٹ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس کانفرنس میں آرمی چیف کے تربیلا والے بیان پر ملک میں (میڈیا پر) جو ردعمل آیا ہے اس پر کور کمانڈروں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور پھر یہ ”نوید“ بھی دی ہے کہ وزیراعظم جب چین کے دورے سے واپس آئیں گے تو ان کو ساری صورتِ حال سے مطلع کیا جائے گا (گویا چین میں بیٹھ کر وزیراعظم اپنے ملک کے حالات سے ”بے خبر محض“ رہتے ہیں!) اور یہ بھی کہا گیا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ وزیر دفاع سے دفاع کا قلمدان لے لیا جائے اور اس کا اضافی چارج چودھری نثار علی خان کے حوالے کر دیا جائے!
کانفرنس میں اس کا اظہار ہو نہ ہو لیکن اس بات میں کسے شبہ ہے کہ پہلا شاٹ فوج نے نہیں، وزیر دفاع نے فائر کیا تھا۔ فوج نے تو جوابی وارننگ شاٹ فائر کیا۔ فاضل وزیر دفاع کا شائد خیال ہو گا کہ آرمی چیف کو یہ بیان دینے سے پہلے وزیر دفاع سے مشورہ کر لینا چاہئے تھا، ان سے ہدایات لے لینی چاہئے تھیں، کیونکہ جمہوری معاشروں میں یہی چلن رائج ہے۔ لیکن جناب وزیر دفاع کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ جمہوری معاشروں میں سول ملٹری روابط کے سلسلے میں اور کیا کیا چلن رائج ہیں۔ کیا کسی ملک کا وزیر دفاع (اور دوسرے عقابانِ حکومت) بھری پارلیمنٹ میں (5جون2013ءکا ریکارڈ دیکھیں) اپنی افواج کے خلاف اُسی طرح کی شعلہ فشانی اور آتش نوائی کرتا ہے جو خواجہ آصف صاحب نے کی؟ یہ اُن کی طرف سے پہلا نہیں، شائد گزشتہ چھ سال برس میں افواج کے خلاف ایک ہزار ایک سو ایک واں شاٹ تھا جس کے بعد کہیں جا کر (گزشتہ سوموار کو) جنرل راحیل شریف کو وارننگ شاٹ فائر کرنا پڑا۔
اس قسم کی صورت حال ہو جائے تو جمہوری معاشروں کا دستور ہے کہ وزیر دفاع خود مستعفی ہو جاتا ہے یا وزیراعظم (یا صدر) کو درخواست دیتا ہے کہ اس سے قلمدانِ دفاع واپس لے لیا جائے کہ وہ دفاع کرنے والوں کا اعتماد کھو چکے ہیں۔
خواجہ صاحب کو ہمارا مشورہ یہی ہے کہ وہ اس الجھن کو مزید نہ الجھائیں۔ وزیراعظم کے واپس آنے پر ان سے درخواست کریں کہ وہ اپنے آرمی چیف کے ساتھ مزید نہیں چل سکتے۔ لہٰذا یا تو نیا آرمی چیف لے آئیں یا مجھے فارغ کر کے کسی اور محترم وزیر کو یہ ذمہ داری سونپ دیں۔ بالفرض اگر وزیراعظم ایسا نہیں کرتے تو فوج اور سویلین حکومت کے درمیان جو خلیج ہے، وہ مزید وسیع ہوتی چلی جائے گی جس سے جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔
فوج ہر گز نہیں چاہتی کہ ایسا نقصان ہو۔ وہ توپہلے ہی بہت سے محاذوں پر الجھی ہوئی ہے اور ”نَکو نَک“ آئی ہوئی ہے۔.... پروین شاکر کے بقول یہ وقت اُس کو مزید آزمائش میں ڈالنے کا نہیں:
ابھی مَیں ایک محاذِ دگر پہ الجھی ہوں
ابھی یہ وقت نہیں مجھ کو آزمانے کا