خواب اور گول
ڈاکٹر صاحب پاکستان کی ایک بڑی یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے بی ایس سی کے بعد عملی زندگی کا آغاز ایک سکول ٹیچر کی حیثیت سے کیا تھا اور آج پی ایچ ڈی کر کے وہ اپنا گول اچیو کر چکے، وہ یونیورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان کے ایک پسماندہ قصبہ میں رہ کر انہوں نے یہ کارنامہ کیسے رقم کیا۔ مَیں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا کہ ایک عام قصبہ کے سکول ماسٹر سے آپ یونیورسٹی کے استاد کے مرتبہ تک کیسے پہنچے؟ پروفیسر صاحب نے کہا کہ یہ میرے والد صاحب کی رہنمائی سے ممکن ہوا۔ انہوں نے مجھے ایک خواب دکھایا اور اپنے ذہن میں ایک گول سیٹ کرنے کی تلقین کی۔ مَیں نے بی ایس سی کرنے کے بعد جب اپنے قصبہ میں سکول ٹیچر کی نوکری کرنے کا فیصلہ کیا، تو میرے والد صاحب نے مجھے ٹونی فریننڈس کے خواب اور گول اچیومنٹ کی کہانی سنائی اور کہا: ”بیٹا یہ تمہاری منزل کا پہلا قدم ہے۔ منزل ابھی بہت آگے ہے۔ اگر تم نے ٹیچنگ کا فیصلہ کر لیا ہے تو آج سے اپنے ذہن میں یہ گول سیٹ کر لو کہ مَیں نے ٹیچنگ کے اعلیٰ مقام تک جانا ہے۔ مَیں نے ایک دن یونیورسٹی کا استاد بننا ہے۔اس وقت بظاہر یہ ایک خواب ہے، لیکن ہر عظیم کامیابی ابتدا میں ایک خواب لگتی ہے، مگر جب اس خواب کو پورا کرنے کے لئے اپنا گول سیٹ کر کے جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں تو خواب حقیقت میں بدل جاتا ے، ٹونی فریننڈس اس کی بہترین مثال ہے۔
پروفیسر صاحب نے کہا پتہ ہے اب ہمارے ہاں دنیا کے نامور سائنسدان، ماہرین طب، استاد، بزنس مین اور تحقیق کار کیوں نہیں پیدا ہو رہے، کیونکہ والدین اپنے بچوں کو عظیم خواب نہیں دکھاتے۔ انہیں اب خواب کی تکمیل کے کسی قسم کا گول سیٹ کرنے میں رہنمائی نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اعلیٰ درجہ کا ٹیلنٹ ہونے کے باوجود ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے ہاں نوجوان چور، ڈاکو، دہشت گرد اور بیروزگار تو بہت پیدا ہو رہے، مگر زندگی کے شعبوں میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہمارے والدین اور نوجوانوں کے لئے ٹونی فرنینڈس کی کہانی جاننا ضروری ہے۔
ٹونی فرنینڈس ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں پیدا ہوا۔ اس کی والدہ ایک چھوٹا سا بزنس کرتی تھی۔ ٹونی فرنینڈس جب سکول میں پڑھتا تھا تو اس کے سکول بیگ پر تین قسم کے سٹیکر لگے ہوئے تھے۔ پہلا ایک جہاز کا، دوسرا فارمولا ون (گاڑیوں کی تیز ریس) کا اور تیسرا ویسٹ ہام یونائیٹڈ فٹ بال کلب کا۔ ٹونی فرنینڈس سکول کے زمانے میں ہی جہاز اڑانے، فارمولا ون ریس اور فٹ بال کلب بنانے کے خواب دیکھتا تھا۔ایک دن اس کی والدہ نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور کہا کہ یہ تینوں خواب بیک وقت پورے ہونے ممکن نہیں۔ اپنے ذہن میں ایک گول سیٹ کرو کہ پہلے کون سا خواب پورا کرنا ہے اور کس گول کو اچیو کر کے تم اپنے دوسرے دونوں خواب بھی پورے کر سکتے ہو۔ تم دل لگا کر پڑھو، تعلیم مکمل کر کے میرے ساتھ بزنس کرو، بزنس میں ترقی کر کے اس مقام پر پہنچو کہ تم اپنی ایئر لائن بنا سکو، تمہارے اپنے جہاز ہوں، تم انہیں خود بھی اڑاﺅ اور دنیا کو بھی اس میں سفر کرنے کا موقعہ دو۔جب تمہاری اپنی ایئر لائن ہو گی تو پھر تم دنیا کے بڑے بزنس مین کے طور پرجانے جاﺅ گے۔ اس وقت تمہارے پاس فارمولا ون ریس ٹیم اور فٹ بال کلب بنانے کا خواب پورا کرنے کا بہترین موقعہ ہو گا۔ ٹونی فرنینڈس نے ماں کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنا شروع کر دیا۔2002ءمیں اس نے ایئر ایشیا ایئر لائن خرید لی۔ اسے کامیابی سے چلایا۔ اس کا شمار ملائیشیا کے سب سے بڑے بزنس مین کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اس کی اپنی فارمولا ٹیم بھی موجود ہے اور کوئنز پارک رینجرز فٹ بال کلب بھی اس کی ملکیت بن چکی۔ ٹونی فرنینڈس نے جو تین سٹیکرز اپنے سکول بیگ پر لگا رکھے تھے اس کی ذہین والدہ نے ان سٹیکرز سے بڑا خواب دکھایا اور گول سیٹ کرنے میں اس کی رہنمائی کر کے اسے ایک کامیاب انسان اور عظیم گول اچیور ثابت کر دیا۔
قارئین! پاکستانی نوجوان ذہانت، صلاحیت اور مضبوط جسمانی ساخت کے لحاظ سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے نوجوانوں سے کئی لحاظ سے بہتر ہیں، مگر ان کے والدین وہ ذمہ داری ادا نہیں کر رہے، جو ایک نوجوان کو زندگی کے عملی امتحان میں کامیابی کے سب سے بلند مقام پر لے جاتی ہے۔ ہمارے والدین بچوں کو کوئی عظیم خواب دکھاتے ہیں نہ ہی خواب کی تکمیل کے لئے کسی قسم کا گول سیٹ کرنے میں ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ نوجوانوں کے ذہنوں کے کینوس پر اگر کوئی خواب ابھرتا بھی ہے تو انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ اسے تعبیر کیسے دی جا سکتی ہے۔ اکثر نوجوان کوئی راستہ نظر نہ آنے پر جلد ہی فرسٹریشن کا شکار ہو کر منفی راستے پر چل کر اپنی توانائیاں ضائع کر کے بہت جلد مایوسی و ناامیدی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ شروع دن سے ہی والدین اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا ایک ہی مقصد بتاتے ہیں کہ ڈگری حاصل کر کے نوکری کرنی ہے اور پھر شادی کر کے بچوں کو پالنا ہے اور یقین جانئے آج کے پاکستانی نوجوان کا خواب ” ڈگری، شادی اور بچے“ ہے۔ والدین بچوں کو جو خواب دکھا رہے ہیں وہ اسی کی تعبیر ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور ان سب کا گول ایک ہی ہے۔20کروڑ آبادی کے پاکستان کی 60فیصد نوجوان آبادی کے نوجوان صرف اور صرف ڈگری، شادی اور بچے کا گول اچیو کرنے کے لئے محنت کر رہے ہیں۔
سوچئے ایسے نوجوانوں میں کتنے سائنس دان پیدا ہوں گے، کتنے پی ایچ ڈی کے لئے جدوجہد کریں گے اور کتنے ماہرین طب، فلکیات، معیشت دان اور پروفیسر پیدا ہوں گے۔ نوبل انعام کی دوڑ تک کتنے پہنچ پائیں گے۔ کبھی کوئی معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں اگر اعلیٰ پائے کے سائنس دان پیدا نہیں ہو رہے اور نوبل پرائز تک ہم پہنچنے کے قابل نہیں ہیں تو اس کے ذمہ دار والدین ہیں جو ذہین و باصلاحیت بچوں کو کوئی عظیم خواب دکھا رہے ہیں، نہ ان کی کوئی اعلیٰ گول سیٹ کرنے میں رہنمائی کر رہے ہیں۔ والدین سے گزارش ہے کہ اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ کھانا، کمانا اور بچے پیدا کرنے کا گول سیٹ کرنا کوئی کمال نہیں۔ یہ کام تو چرند پرند بھی اپنے بچوں کو بڑے احسن طریقے سے سکھا دیتے ہیں۔ نوکری حاصل کرنا کامیابی نہیں۔ پڑھے لکھے نوجوان کے لئے نوکری منزل نہیں، بلکہ منزل کے سفر کا پہلا قدم ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ والدین بچوں کو کوئی گول سیٹ کر کے دیتے ہیں نہ عظیم منزل کا خواب دکھاتے ہیں۔ ڈگری کے بعد اگر وہ سکول ٹیچر بھرتی ہوتا ہے تو سینئرسکول ٹیچرر یٹائرہو جاتا ہے۔ کلرک بھرتی ہو تو ہیڈ کلرک بن کر کہانی ختم، حالانکہ یہ منزل کی طرف سفر کا آغاز ہے۔
والدین اگر اپنے بچوں کو شروع سے ہی ایک بڑا خواب دکھائیں اور گول سیٹ کرنے میں ان کی رہنمائی کریں تو یقین جانئے ہمارے باصلاحیت نوجوان ایسے ایسے گول اچیو کر سکتے ہیں کہ دنیا کے نوجوانوں کے لئے مثال قائم کریں، مگر بزرگوں کی طرف سے انہیں رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے وہ منزل کی طرف سفر کے پہلے قدم کو ہی منزل تصور کر لیتے ہیں اور اسی آغاز پر دائرے کی شکل میں گھومتے گھومتے زندگی ضائع کر دیتے ہیں۔