قومی وقار کو اولین ترجیح بنانا ہوگا
فوج کے وقار کے دفاع سے متعلق جنرل راحیل شریف کے بیان کی گہرائی کا جائزہ سنجیدگی کے ساتھ لیے جانے کی ضرورت ہے۔ اب تک مچنے والے شور سے تو لگتا ہے کہ یار لوگوں نے اسے نہایت سطحی انداز میں دیکھا ہے۔ شاید اسی لئے بعض مخالفین یہ سمجھ کر بغلیں بجا رہے ہیں کہ فوج نے حکومت کو شٹ اپ کال دے دی ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ریٹائرڈ جنرل مشرف کو بچانے کیلئے حاضر سروس فوجی قیادت ایک خاص حد سے آگے جائے گی تو وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ سابق فوجی آمر کے خلاف ہونے والی کارروائی پر آرمی میں بے چینی پائی جا رہی ہے لیکن عدالتی کارروائی میں بیرونی مداخلت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہےں۔ خدشات اور اعتراضات اپنی جگہ لیکن سب کو نظر آ رہا ہے کہ قانون اپنا راستہ خود متعین کرے گا۔
جنرل راحیل شریف کے بیان کو محض مشرف کے حوالے سے ہی کیوں دیکھا جائے؟ یہ مصدقہ اطلاعات موجود ہےں کہ قومی مشاہیر اور اداروں کو متنازعہ بنانے کےلئے بھاری رقوم تقسیم کر دی گئی ہےں۔ قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے حوالے سے حقائق کے منافی تحریریں اسی کا شاخسانہ ہیں۔ نصاب تعلیم سے پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے نام پر لادینیت پھیلانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ غیر ملکی گرانٹ پر چلنے والی این جی اوز سے مالی مفادات اٹھانے والے ہر شعبہ ہائے زندگی میں موجود ہیں۔ پاکستان کو نظریاتی اور جغرافیائی طور پر کمزور کرنے کےلئے پاک فوج اولین ٹارگٹ ہے۔ فوجی قیادت اس ساری صورتحال سے اچھی طرح باخبر ہے یقینی طور پر تدارک کےلئے اقدامات بھی کئے جا رہے ہوں گے۔ فوج کے وقار کے دفاع والا بیان اگرچہ جنرل راحیل کے دورہ تربیلا کے موقع پر جاری ہوا۔ ایس ایس جی کے زیر تربیت ایک افسر نے اپنے چیف سے سوال کیا تھا کہ مادر وطن کےلئے قربانیاں دینے والی فوج کے خلاف مذموم پروپیگنڈا کیوں کیا جا رہا ہے؟ آرمی چیف نے موقع کی مناسبت سے مختصر لیکن جامع بیان دیا۔ یہ بیان پاک فوج اور اسکی عسکری صلاحیتوں سے دلی بغض رکھنے والے عناصر کے خلاف ہے۔ اسے حکومت کے خلاف بد اعتمادی کا اظہار کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
پاک فوج کی قیادت کو دیکھنا اور سوچنا چاہیے کہ ادارے کے باہر مختلف محاذوں پر اسکے تشخص کا دفاع کون سے عناصر کررہے ہیں ۔ اس حوالے سے ہونے والے ایک پروگرام میں ماڈرن خاتون کے ساتھ پنجاب بنک فراڈ کیس میں دورہ دبئی کے ذریعے بے تحاشا ”نیک نامی “ کمانے والے پیپلز پارٹی کے سابق وزیر قانون بابر اعوان بھی شریک تھے ۔ یہ منظر دیکھ کر دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے جھنگ کے ایک گاﺅں میں پیش آنے والا دلچسپ واقعہ یاد آگیا ۔ انگریز سرکارکے لوگ فوج مین جبری بھرتی کے لیے گئے تو گاﺅں کے چودھری نے کہا جناب ہم تو زمیندار لوگ ہیں ۔ بھلا ہمار ا لڑائی سے کیا واسطہ....حضور والا کوئی حل نکالیں اور ہماری جان چھوڑ دیں۔ جبری بھرتی کرنے والوں نے کہا کہ تاج برطانیہ کا حکم ہے کہ آپ لوگوں کو جنگ میں شامل کیا جائے، اس کے سوا کوئی اور راستہ ہے ہی نہیں ۔
چودھری بولا اگر نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ آپ کو جنگ لڑنے کے لیے ہماری ضرورت پڑ گئی ہے تو بہتر ہوگا کہ دشمن سے صلح ہی کر لیں۔
وفاقی وزراءخواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف کے جن جملوں کو بنیاد بنا کر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی کوشش کی جار ہی ہے اس کا پورا خلاصہ ان چار نکات میں بند ہے۔
٭ مشرف ہسپتال میں رہ کر ڈرامہ کرنا چھوڑ دیں۔
٭ مرد بن کر عدالت میں مقدمات کا سامنا کریں۔
٭ پارلیمنٹ اور عوام کو مکے دکھانے والے کی بہادری کہاں گئی۔
٭ جدید اسلحہ سے لیس سینکڑوں تربیت یافتہ محافظوں کی موجودگی میں بھی بلٹ پروف جیکٹ کیوں پہنتے ہیں۔
وفاقی وزراءکی گفتگو میں جذبات کی آمیزش اپنی جگہ لیکن انہیں غلط قرار کیسے دیا جا سکتا ہے۔اگر ایک لمحے کیلئے یہ بات مان بھی لی جائے کہ آرمی چیف کا بیان مشرف کیس کے حوالے سے ہے تو پھر اسکا جواب حکومت کو نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ کو دینا ہے۔ جنرل راحیل کو فوری جواب کے لیے اپنے پیش رو جنرل (ر) کیانی والے حالا ت کا سامنا نہیں۔ ماضی میں قانون سے مارواءاقدامات یا لاپتہ افراد کے مقدمات کے حوالے سے جنرل (ر) کیانی نے ایک آدھ بار اپنے جذبات کا اظہار بیانات کے ذریعے کرنا چاہا تو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ترکی بہ ترکی جواب دیکر حساب چکانے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی۔ آج جسٹس افتخار چودھری اور جنرل کیانی اپنے عہدوں پر موجود نہیں ۔آزاد عدلیہ پچھلے دور کا ہی تسلسل ہے۔جج صاحبان خاموش نہیں رہیں گے ، فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار اعلیٰ عدالتی روایات کے مطابق اپنے فیصلوں کے ذریعے بولیں گے۔
جنرل راحیل کے بیان کا وہ حصہ خوش آئند ہے جس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ پاک فوج ملک کے تمام اداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ فوج سمیت سب کو ایسا ہی کرنا چاہیے اگر تمام ادارے اپنی آئینی اور قانونی حدود میں رہ کر کام کریں گے تو پوری قوم کا وقار بلند ہو گا۔ کسی ایک فرد یا ادارے کے وقار کو قومی وقار پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ رہ گیا فوج کا معاملہ تو قوم اس کا احترام ہی نہیں کرتی بلکہ اس سے پیار بھی کرتی ہے۔ عوام ایسے عناصر کو کسی صورت معاف کرنے کیلئے تیار نہیں جنہوں نے اپنی غلط کاریوں کے باعث پورے ادارے کی ساکھ کو داﺅ پر لگادیا۔ جنرل(ر) مشرف کے حوالے سے عوامی ردعمل پاک فوج سے عوام کے اس رومانس کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ تاثر ختم ہوگا کہ پارلیمنٹ اور فوج ایک دوسرے کے مقابل یا متصادم ہیں دونوں کا وقار اہم ہے مگر قومی وقار کو اولین ترجیح بنانا ہوگا۔