کیا قائد اعظمؒ پاکستان کو اسلام سے جدا رکھنا چاہتے تھے؟ (2)

کیا قائد اعظمؒ پاکستان کو اسلام سے جدا رکھنا چاہتے تھے؟ (2)
کیا قائد اعظمؒ پاکستان کو اسلام سے جدا رکھنا چاہتے تھے؟ (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سیکولر ازم کے حامیوں کو ایک اہم حقیقت یہ بھی سمجھ لینی چاہئے کہ جس طرح جمہور مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے مطالبے، جدوجہد اور 1946ء کے انتخابات میں ووٹ کے ذریعے پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا، اسی طرح پاکستان کے لئے کون سا نظام لانا چاہئے، یہ فیصلہ بھی عوام نے کرنا تھا، جس ملک کی عظیم اکثریت ہی مسلمانوں پر مشتمل ہو اور جو ملک قائم ہی مسلم قومیت کی بنیاد پر کیا گیا ہو، جن مسلمانوں کو 14 سو سال سے اپنی عظیم اور مقدس کتاب قرآن کریم کے مکمل ضابطہ حیات ہونے پر فخر ہو۔ کیا وہاں کوئی حکومت قرآن حکیم کی تعلیمات اور شریعت اسلامی کو نظر انداز کر سکتی ہے۔ کیا پاکستان میں قرآن و سنت سے متصادم قانون سازی کی اجازت دی جا سکتی ہے۔مَیں یہاں تحریک پاکستان میں قائد اعظمؒ کے سب سے بڑھ کر معتمد ساتھی اور رفیق پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی دو تقاریر کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ 15 جنوری 1948ء کے ’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں قائد ملت لیاقت علی خاں کی ایک تقریر کی خبر درج ذیل صورت میں شائع ہوئی: ’’پاکستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگا اور ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ تیرہ سو برس پہلے کے اسلامی اصول آج بھی پوری طرح قابل عمل ہیں‘‘۔


17اپریل 1948ء کے ’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں لیاقت علی خاں کے خیالات کچھ اس طرح شائع ہوئے: ’’پاکستان کا آئندہ دستور قرآن مجید کے احکامات پر مبنی ہوگا۔ قائد اعظمؒ اور ان کے رفقاء کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی نشوونما ایک ایسی مثالی اسلامی ریاست کے طور پر ہو جو اپنے تمام باشندوں کو عدل و انصاف کی ضمانت دے سکے‘‘۔۔۔لیاقت علی خاں کی یہ دونوں تقاریر قائد اعظمؒ کی زندگی میں اخبار میں شائع ہوئیں، اگر قائد اعظمؒ کو ان تقاریر سے اختلاف ہوتا تو وہ فوراً تردید کر سکتے تھے کہ وزیر اعظم پاکستان کی تقاریر اُن کے خیالات اور نظریات کے مطابق نہیں ہیں۔ قائد اعظمؒ نے تو خود صاف اور صریح الفاظ میں خود یہ اعلان فرمایا تھا: ’’خان عبدالغفار خاں اور ان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کا یہ زہر آلود پروپیگنڈا بالکل غلط ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین سے انحراف کرے گی‘‘۔۔۔ قائد اعظمؒ کی دلیل یہ تھی کہ جس دستور ساز اسمبلی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے، وہ شریعت کے بنیادی اصولوں سے انحراف کیسے کر سکتی ہے۔


آج کے کالم میں قائد اعظمؒ کے تصور پاکستان کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس کی گئی ہے کہ کراچی سے شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار کے اداریہ میں یہ غلط فہمی پھیلانے کی جسارت کی گئی ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظمؒ پاکستان کو ایسا ملک بنانے کے حق میں تھے،جہاں مذہب کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ میرے خیال میں قائد اعظمؒ کے خلاف اس سے بڑا جھوٹا الزام اور کوئی عائد ہی نہیں کیا جا سکتا کہ قائد اعظمؒ ایک ایسا پاکستان تشکیل دینے کا نظریہ رکھتے تھے جہاں ریاست اور مذہب ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوں گے۔ پاکستان کے سیکولر طبقے کے مقابلے میں ایک مشہور مسیحی لیڈر مسٹر جوشوا فضل الدین کی لیاقت و قابلیت اور سوجھ بوجھ کہیں زیادہ تھی، جنہوں نے قائد اعظمؒ کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ قائداعظمؒ کی اس تقریر میں دو ٹوک انداز میں یہ بات کہی گئی تھی کہ پاکستان میں مذہب و قوم کا امتیاز کئے بغیر تمام شہریوں کے حقوق برابر ہوں گے، مگر اس تقریر کا ہرگز مطلب یہ نہیں پاکستان کی بنیاد مذہب پر نہیں ہو گی۔


مسیحی لیڈر نے کہا تھا کہ یہ نقطۂ نظر بالکل پاگل پن پر مبنی ہے کہ قائد اعظمؒ نے ایک مذہب (مسلم قومیت) کی بنیاد پر پاکستان حاصل کرنے کے بعد اپنی ایک تقریر میں وہ بنیاد ہی ختم کر دی ہو، جس پر پاکستان قائم ہوا تھا۔ قیام پاکستان کی اساس کیا تھی؟ اس سوال کا مختصر ترین جواب قائد اعظمؒ نے یہ دیا تھا کہ ’’مسلمان ایک قوم ہیں‘‘۔۔۔ مسلمان اسلام پر ایمان لانے کے بعد ہی ایک الگ قوم قرار پاتے ہیں اور قائد اعظمؒ کے نزدیک اسلام محض ایک مذہب نہیں تھا، بلکہ آپ نے اپنی متعدد تقاریر میں اسلام کو مکمل ضابطہ حیات قرار دیا۔ قائد اعظمؒ کے الفاظ میں ایک اللہ، ایک رسولؐ ایک کتاب (قرآن کریم) اور ایک قبلہ کی بنیاد پر ہم ایک قوم ہیں اور اسی نظریئے کو لے کر جب ہم آگے بڑھتے چلے گئے تو تحریک پاکستان کا قافلہ قیام پاکستان کی صورت میں اپنی منزل کے حصول میں کامیاب ہو گیا۔ اسلام کے ساتھ رشتے کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمان جسد واحد کی طرح متحد نہ ہوتے تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہیں آ سکتا تھا۔ جس اسلام نے ہمیں پاکستان کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ اس اسلام کے احکامات سے پاکستان میں بے وفائی کیسے کی جا سکتی ہے؟


قرآن میں اسلام کے حوالے سے حکم دیا گیا ہے کہ تم اس نظامِ خداوندی میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنی انفرادی زندگی تو اسلام کے مطابق بسر کریں اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات سے منہ موڑ لیں۔ کیا ہم قرآن کے کچھ اصول و احکام پر عمل کریں گے اور باقی اصول و احکام کو چھوڑ دیں گے؟ اگر ہم اسلامی تعلیمات پر اُسوۂ رسول کریمؐ کی روشنی میں عمل کریں گے تو ریاست پاکستان میں بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں سے نا انصافی کی ہی نہیں جا سکتی۔۔۔یہ مثال صرف ایک اسلامی ریاست میں ہی پیش کی جا سکتی ہے کہ جب حضرت علیؓ خود خلیفہ تھے تو انہوں نے ایک عیسائی سے اپنی چوری شدہ زرہ واپس لینے کے لئے قاضی کی عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا، مگر گواہ نہ ہونے کی وجہ سے قاضی نے فیصلہ حضرت علیؓ کے خلاف اور عیسائی کے حق میں کر دیا۔ اگر ایک اسلامی ریاست میں عدالت اسلامی ریاست کے سربراہ اور وہ بھی حضرت علیؓ جیسے جلیل القدر صحابی کے خلاف فیصلہ صادر کر سکتی ہے تو پھر وہاں کسی غیر مسلم شہری کو اس کے حقوق سے کیسے محروم کیا جا سکتا ہے؟


قائد اعظمؒ نہ صرف اسلامی تعلیمات کا پوری طرح ادراک رکھتے تھے، بلکہ وہ تاریخ اسلام سے بھی پوری طرح آگاہی رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پیش نظر قیام پاکستان کا مقصد صرف ایک ملک یا زمین کے ٹکڑے کا حصول نہیں تھا، بلکہ قائد اعظمؒ کے اپنے الفاظ یہ ہیں کہ: ’’ہم غیر ملکی غلامی سے نجات اس لئے حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ ہم مسلم آئیڈیالوجی کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نہ صرف اپنی آزادی کا تحفظ نہایت ضروری خیال کرتے ہیں،بلکہ ہم اپنی آزاد ریاست میں اسلامی تصورات اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ قائد اعظمؒ اگر پاکستان میں غیر مسلم شہریوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق دینے کی تمنا رکھتے تھے تو وہ اسلامی تعلیمات کی روح کے مطابق ایسا کرنا چاہتے تھے۔ اس کا مفہوم سیکولر ریاست ہرگز نہیں تھا۔ کیونکہ نام نہاد سیکولر ریاستیں اپنے شہریوں کے حقوق کی حفاظت ویسے نہیں کر سکتیں جو ایک اسلامی ریاست کا طرۂ امتیاز ہے۔ (ختم شد) *

مزید :

کالم -