گلشن کے تحفظ کی قسم
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعرات کو ہری پور میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کو سیاسی بصیرت رکھنے والی تجربہ کار قیادت کی ضرورت ہے اور مسلم لیگ(ن)نے ملک کو ایسی ہی قیادت فراہم کی ہے جو سیاسی بصیرت اورملک کی ترقی کے لئے جامع نصب العین رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیا پاکستان بنانے کے بلندوبانگ دعوے کرنے والوں کو نیا خیبرپختونخوا بنانا چاہئے۔ پاکستان ایسی کسی قیادت کا متحمل نہیں ہو سکتا، جو غیر سنجیدہ ہو اور بار بار اپنا موقف بدلتی ہو،جو ہر مسئلے پر پسپائی اختیار کرے اور یو ٹرن لے، اسمبلیوں اور حکومت کو لپیٹنے والے اب کہاں ہیں؟وہ نئے پاکستان کی جھلک خیبر پختونخوا میں دیکھنا چاہتے ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا مسلم لیگ(ن) کا گڑھ ہے، آنے والے وقت میں وہاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ان کا گلشن ہے اور انہوں نے اس گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے، اگلے تین سال ترقی اور خوشحالی کے ہوں گے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ 2017ء تک ملک سے مکمل طور پر بجلی کے بحران کا خاتمہ کر دیں گے، گیس اور بجلی کی قلت ختم کرنا ان کا اولین ایجنڈا ہے۔ انہوں نے کراچی کے حالات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہاں امن بحال ہو رہا ہے، وہاں پربھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کا خاتمہ کر دیا گیا ہے کراچی میں ترقی کا پہیہ چل پڑا ہے، کراچی ترقی کرے گا تو ملک ترقی کرے گا۔ حکومت وہی کچھ کر رہی ہے، جس کی پاکستان کو ضرورت ہے۔
وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ لوگ کراچی میں امن اور خوف کی فضا ختم کرنے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ امن صرف حکومت کی پالیسیوں اور کوششوں کے باعث ممکن ہوا۔ انہوں نے بلوچستان کے حالات کو بھی پہلے سے بہترقرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہزارہ موٹروے کا آغاز کر دیا گیا ہے ہزارہ موٹروے پورے خطے کا نقشہ بدل دے گی، اگلے تین سال میں صوبے میں سڑکیں اور یونیورسٹیاں بنیں گی۔ وزیراعظم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیکیورٹی اہلکاروں کی قربانیوں کوبھی سراہا اور کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کی کارروائی کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں،فیصلہ کن کارروائی میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں تحریک انصاف کو آڑے ہاتھوں لیا، وہ ایسا کرنے میں حق بجانب ہو سکتے ہیں، کیونکہ کسر توکوئی عمران خان نے بھی نہیں چھوڑی تھی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ایک بڑی سیاسی قوت بن کر اُبھرے تھے، عام انتخابات میں ان کے چاہنے والوں نے ان کو دِل کھول کر ووٹ دئیے تبھی توانہیں قومی اسمبلی میں تیسری بڑی جماعت بننے کا ’شرف‘ حاصل ہوا۔ خیبر پختونخوا کے عوام نے تو ان پر اتنا بھروسہ کیا کہ ان کو وہاں کی حکومت ہی سونپ دی،دوسرے صوبوں میں رہنے والے تحریک انصاف کے دلدادہ خیبر پختونخوا کی قسمت پر رشک کرنے لگے تھے ۔عمران خان کی سماجی خدمات کے باعث بیشتر عوام کا خیال تھا کہ وہ اس صوبے کی قسمت بھی چمکا دیں گے۔ لوگوں کو وہ اندھیر ے میں امید کی کرن معلوم ہوئے،لیکن افسوس عمران خان بھلے ہی میدان کرکٹ کے منجھے ہوئے کھلاڑی رہے ہوں،مگر سیاست کے کھیل کے داؤ پیچ سیکھنے کے لئے اُنہیں وقت درکار ہے۔ان کے بار بار اپنے موقف سے ہٹنے کی عادت ان کو خاصی مہنگی پڑی۔
عام انتخابات کے نتائج آنے کے بعد انہوں نے کامیابی پر مسلم لیگ (ن) کو مبارکباد دی، لیکن پھر اچانک انہیں احساس ’ہوا‘ یا ’ دِلایا‘ گیا کہ ان انتخابات میں تو دھاندلی ہو ئی ہے،ان کا مینڈیٹ چوری ہوا ہے،دھاندلی بھی کوئی ایسی ویسی نہیں، بلکہ منظم دھاندلی ،جس کے خلاف انہوں نے تحریک شروع کر دی اور پھر اسلام آباد میں دُنیا کا طویل ترین دھرنا دیا۔ ابتدا میں وہ پُر امن احتجاج کی دہائی دیتے رہے، لیکن دھرنے کی طوالت کے باعث جب انہیں لگا کہ حکومت پر دباؤ کسی حد تک کم ہو کر رہ گیا ہے تو انہوں نے پہلے جلسوں اور پھر ہڑتالوں کا سہارا لیا۔ تشدد بھی ہوا ، سرکاری املاک کو توڑا پھوڑا بھی گیا، ٹائر بھی جلے اور سڑکیں بھی بند کی گئیں، احتجاج ہوا، لیکن پُر امن ہرگز نہیں تھا۔اس 126 دن طویل دھرنے میں انہوں نے بہت سی ایسی باتیں کیں، جن کی اُنہیں بعد میں صفائی دِینا پڑی، بہت سے ایسے دعوے کئے، جن پر وہ خود ہی عمل نہ کر پائے ۔اُن کے حامیوں کو اُن کی سول نافرمانی کی تحریک سے بھی کافی بڑا دھچکا لگا،یہ بھی ان کا جذباتی قدم ہی ثابت ہوااور اپنے بل جمع کرا کے انہوں نے خود ہی سول نافرمانی کا خاتمہ کر دیا۔سانحہ پشاور سے چند روز قبل وہ اپنی تقریرمیں پہلے شہر اور پھر ملک بند کرنے کی دھمکی دے بیٹھے، جس کی بعد میں ان کی جماعت کو صفائی دینی پڑی ۔ وی آئی پی کلچر کے خلاف آوا زاُٹھائی، لیکن خود اکیس گاڑیوں کے ’’جھرمٹ‘‘ میں پشاور پہنچ گئے۔جوڈیشل کمیشن کے قیام کے اعلان کے باوجود اس بات پر مصر تھے کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں ان کی موجودگی میں شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتیں، پھر ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن بن بھی گیا تو وہ پھر بھی اسمبلی میں نہیں آئیں گے ’’میاں صاحب کون ہوتے ہیں اُن کے استعفے نامنظور کرنے والے‘‘، اب وہ پوری شان سے اِسی ’جعلی‘ اسمبلی میں براجمان ہیں۔اب تو وہ اپنے استعفوں کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ اپنے موقف میں بار بار تبدیلی نے ان کی سیاسی ساکھ کو کافی نقصان پہنچایا ،عدم اعتماد بھی پیدا ہوا،اب بھی وقت ہے کہ اگر وہ اپنے اعلان کے مطابق تما م تر توجہ خیبر پختونخوا پر مر کوز کر دیں تو کھویا ہوا اعتماد جیت سکتے ہیں، اسے ایک مثال بنا سکتے ہیں۔جہاں تک مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت کی بات ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ حالات میں بہتری پیدا ہوئی ہے، کراچی میں امن بحال ہو رہا ہے،سڑکیں بن رہی ہیں، کئی دوسرے ترقیاتی منصوبے بھی شروع ہیں،لیکن ساتھ ساتھ دوسرے شعبوں پر توجہ دینا بھی ضروری ہے،تعلیم اور صحت کے شعبے بھی حکومت کی نظر عنایت کے منتظر ہیں۔بہر حال فی الوقت اگر یہ کہا جائے کہ ہمارا سیاسی درجہ حرارت معتدل ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ہمارے اہلِ سیاست کو چاہئے کہ اب جب معاہدہ ہو چکا ہے، معامالات طے پا چکے ہیں کڑوی کسیلی یادوں کا ذکر نہ ہی کریں، ماضی کی تلخی بھلا کر آگے بڑھیں، جب دو دشمن ممالک اپنے اپنے مفاد کے لئے ہاتھ ملا سکتے ہیں تو اگرملکی مفاد کی خاطر ہمارے سیاست دان ایک دوسرے کو گلے سے لگا لیں تو کیا مضائقہ ہے۔