یمن کے مسئلے پر سفارتی کوششیں رنگ لائیں گی ،ایرانی وزیر خارجہ کے دورے سے مثبت امیدیں

یمن کے مسئلے پر سفارتی کوششیں رنگ لائیں گی ،ایرانی وزیر خارجہ کے دورے سے مثبت ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:قدرت اللہ چودھری
  اگرچہ فی الوقت اسے خوش فہمی یا ضرورت سے زیادہ رجائیت بھی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ معاملات یمن کے بحران کے حل کی جانب چل پڑے ہیں ، اور اس سلسلے میں ترکی ،ایران اورپاکستان کی کوششیں بارآور ہوتی نظرآتی ہیں۔گزشتہ ہفتے، وزیر اعظم نواز شریف نے بنفس نفیس ترکی کا دورہ کیا تھا اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور وزیر اعظم احمداوغلو سے ملاقات کی تھی جس میں طے پایا تھا کہ یمن کابحران جنگ سے نہیں، امن کی کوششوں سے حل ہونا چاہیے ۔ دونوں ملکوں نے سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کا بھی ہر قیمت پر تحفظ کرنے کا عہد کیا تھا ، پھر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان تہران چلے گئے جہاں انہوں نے ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات کی ، اس سے پہلے دونوں ملکوں میں بعض امور پر اختلافات کی خبریں بھی آتی رہی تھیں لیکن اردوان نے اس کے باوجود کسی حجاب اور تحفظ کے بغیر تہران کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے ایرانی صدر سے بات چیت میں یمن کا بحران بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا، اردوان کا موقف ہے کہ یمن بحران مسلم امہ میں عدم استحکام اور انتشارکاباعث بن سکتا ہے، ان کاکہنا ہے کہ کوئی ایک نظر یہ دوسرے ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو مسلم امہ پھوٹ کا شکار ہو جائیگی ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بطور مسلمان مختلف نظریات رکھے جا سکتے ہیں ۔انہوں نے ایران کے دورے کے بعد اب انڈونیشیا،ملائشیااورسعودی عرب جانے پر بھی آمادگی ظاہرکی ہے، ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اردوان کو اپنی سفارتی کوششوں پر اعتماد ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی یہ بھاگ دوڑ ضرور نتیجہ خیز ثابت ہوگی ۔
ادھر گزشتہ روز ایرانی وزیر خارجہ محمدجواد ظریف نے پاکستان کا دورہ کیا تو ان کی یہاں غیر معمول پذیرائی ہوئی ، ان کی وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی نتیجہ خیز ملاقاتیں ہوئیں ، جی ایچ کیو آمد پر جواد ظریف کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا ، عام طور پر وزرائے خارجہ کی ملاقاتیں آرمی چیف سے نہیں ہوتیں۔موجودہ غیر معمولی حالات میں یہ غیر معمولی بات ہے کہ ایرانی وزیرخارجہ کے ساتھ آرمی چیف کی ملاقات بھی ہوئی۔ جواد ظریف کی پاکستانی حکام کے ساتھ جو ملاقاتیں ہوئیں ان میں ان پر واضح کر دیا گیا کہ پاکستان سعودی علاقائی سالمیت کوخطرے کی صورت میں اس کے ساتھ ہوگا،یہ امیدبھی ظاہرکی گئی ہے کہ جواد ظریف کے دورے سے دونوں ملکوں کے تعلقات مضبوط تر ہوں گے تاہم موجودہ بحران میں پاکستان کا دو ٹوک موقف ایران پر واضح کر دیا گیا ہے، دوسری جانب سعودی عرب نے بھی یہ عزم کیا ہے کہ ایرانی جہازوں کو یمن کے پانیوں میں نہیں آنے دیا جائیگا۔سعودی عرب کی طرف سے اس پختہ عزم کا اظہار بھی اس جانب اشارہ ہے کہ حالات بہتر ی کی جانب جانے والے ہیں اور جنگ کا دائرہ مزید نہیں پھیلے گا ۔ ایک اور فیکٹر جسے نظراندازنہیں کیا جاسکتا ،امریکی وزیرخارجہ جان کیری کا بیان ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ایران نے خطے کو مستحکم کرنے کی کوشش کی تو امریکہ دیکھتا نہیں رہے گا ، امریکہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ حوثیوں کے لئے ایران کی حمایت سے بخوبی آگاہ ہے،ایرانی پروازوں کاسراغ لگایاگیا ہے جو یمن آرہی ہیں۔کیری نے خلیج میں اپنے اتحادیوں کی حمایت کااعادہ کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران اورامریکہ کے درمیان ایٹمی معاملے پر معاہدے کے لئے جو فریم ورک طے ہوا ہے اور جس کے اندر رہتے ہوئے ایران کا امریکہ سمیت چھ عالمی قوتوں (پی 1+5)کے ساتھ ایٹمی معاہدہ جون تک متوقع ہے ۔ یہ ایران کے لئے بہت اہم معاملہ ہے۔ اقتصادی پابندیوں نے ایران کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ،دوسری جانب تیل کی کم قیمتوں نے بھی اس کے ریونیو میں معتد بہ کمی کر دی ہے ۔ ایران اپنی معیشت کی بحالی کی خاطرہی ایٹمی معاہدے پر رضا مند ہوا ہے ، ایرانی پارلیمنٹ (مجلس) نے بھی مجوزہ معاہدہ کی توثیق کر دی ہے اور تہران میں اس پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ایران اپنے کرنسی نوٹوں سے ایٹمی ری ایکٹر کی تصویر ہٹانے پر بھی آمادہ ہے جو اگرچہ ایک علامتی اظہار ہے تاہم اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایران اس معاہدے کو کتنی اہمیت دیتاہے؟ اسلئے ایران اس مرحلے پر کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جس سے امریکہ کے ساتھ بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کو ایک بار پھر زک پہنچے یا بریک لگ جائے اورمعاہدہ ہونے سے رہ جائے جس کی اسرائیل اور کئی دوسرے ملک مخالفت کر رہے ہیں ۔اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو تو واشنگٹن میں کانگریس کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے اس معاملے پر اپنے دل کی بھڑاس نکال چکے ہیں جہاں انہوں نے صرف ری پبلکن ارکان سے خطاب کیا، 47ارکان نے ایران کو خط بھی لکھ دیاجوغیرمعمولی بات تھی،جس میں امریکہ کے ساتھ ایٹمی معاملے پر معاہدے سے خبردارکیا اور کہا کہ ری پبلکن صدر آیا تو اس معاہدے کو منسوخ کر دیا جائے گا ۔ ری پبلکن ارکان کی اس حرکت پر امریکہ میں بھی غم و غصہ پایا جاتا ہے ، اس لئے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اگر صدر اوباما نے کانگریس کے ری پبکن ارکان کی مخالفت مول لے کر ایران کے ساتھ نیوکلیئرمعاہدے کے سلسلے میں قدم بڑھایا ہے تو دوسرے معاملات کو اس پر اثرانداز ہونے کا موقع نہ دیا جائے۔ جان کیری کے بیان کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے، پاکستانی پارلیمنٹ نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ یمن کے بحران میں کوئی عملی حصہ نہ لیا جائے البتہ حرمین شریفین کے تحفظ کا عہد کیا گیا ہے ، اس تمام صورت حال کا منطقی نتیجہ سفارتی کوششوں میں تیزی کی صورت میں نکلے گا اور توقع ہے کہ بحران مذاکرات کے ذریعے حل ہو جائے گا ۔ایران اگر حوثیوں کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک لڑائی کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکیں گے اور ایسی صورت میں انہیں بھی بات چیت کی جانب لوٹنا ہوگا۔

مزید :

تجزیہ -