معروف صحافی اور محقق ’’شاہد نذیر چوہدری ‘‘ کی اپنے سحر میں جکڑ لینے والی تحقیق پر مبنی سچی داستان ’’جنات کا غلام ‘‘
بائیسویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
میں نے ٹاہلی والی سرکار کی طرف دیکھا تو انہوں نے اپنے والدکی قبر پر رکھے آب خورے کو پکڑا۔ اس میں دو گھونٹ پانی تھا۔ انہوں نے کچھ پڑھا اور پھر پانی پر دم کرکے مجھے دیا اور کہا: جاﺅ.... اور اسے کہو یہ پانی پی لے.... ابھی اس کا باﺅلا پن نہیں گیا۔ وہ عذاب سہہ رہی ہے۔ اسی لئے جب اس نے پانی میں ہاتھ ڈالا ہو گا تو اس کی جان نکلنے لگی ہو گی....“۔
میں خاموشی سے اس کے پاس چلا گیا۔ وہ نلکے کے پاس لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔ مجھے دیکھا تو اس کی آنکھوں میں بے بسی اور بے کسی کا احساس نمایاں نظر آنے لگا۔
”یہ پانی پی لو.... سرکار نے دیا ہے....“ اس نے لرزتے ہاتھوں سے آب خورہ پکڑنے کی کوشش کی تو میں نے اندازہ لگایا کہ اپنے مرتعش ہاتھوں سے پانی نہیں پی سکے گی۔ مجھے اس سے ابھی بھی خوف محسوس ہو رہا تھا۔ اس سے بدبو دار اور جلے ہوئے گوشت کی سرانڈ آ رہی تھی۔ ایسا ناقابل برداشت تعفن جیسے شہروں میں سڑکوں کے کنارے رکھے فلتھ ڈپوﺅں سے آتا ہے۔ مگر.... میں نے اپنے ایمان کو بچانے کے لئے یا پھر جذبہ انسانیت کے تحت اس کو اپنے ہاتھوں سے پانی پلانا چاہا تو اس کے جبڑے کسی لقوہ زدہ انسان کی طرح بے حس ہو گئے اور پانی بوند بوند نیچے گرنے لگا۔ یہ دیکھ کر میں نے اس کو زمین پر لٹا دیا اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر ایک ہاتھ سے جبڑے پکڑ کر منہ کھولا تو کسی مرتے ہوئے کتے کی طرح اس کے گلے سے غرغراہٹ پیدا ہونے لگی۔ بدبو سے میری سانسیں بند ہونے لگیں مگر میں نے اللہ کا نام لے کر اس کے حلق میں پانی ٹپکا دیا۔
اللہ کا کرم ہوا۔ جونہی دم شدہ پانی اس کے اندر گیا اس کی غرغراہٹ بند ہو گئی اور حالت سنبھلنے لگی۔ میں اسے چھوڑ کر واپس ٹاہلی والی سرکار کے پاس چلا گیا۔ مجھے یقین تھا کہ اب اس کی حالت سنبھل جائے گی اور میں اس کی کہانی سننے میں کامیاب ہو جاﺅں گا۔
”سرکار.... میرے لئے کیا حکم ہے....“ میں نے واپس پہنچ کر ان سے دریافت کیا۔ وہ سر جھکائے کچھ سوچ رہے تھے۔ میری آواز سن کر سر اٹھایا اور کہنے لگا” میں نے ذرقان شاہ یعنی تمہارے بابا جی کو بلایا ہے۔ وہ آنے والے ہیں۔ تو ادھر بیٹھ جا۔ ان سے ہمارے گہرے مراسم ہیں۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ ریاض شاہ کی اس کمینی حرکت میں اس کے ساتھ ہیں.... اور ان کے کیا ارادے ہیں....“
میں ان کے پاس بیٹھ گیا تو وہ بولے” آج یہ حاضری خاصی سخت ہو گی۔ میرے بچے یہ جنات بے شک عبادت گزار ہوں.... مگر دن کے وقت ان کو حاضر کرنا گویا ان کی تمام خصلتوں کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ تم اس حصار میں بیٹھ جاﺅ۔ تمہیں آیت الکرسی آتی ہے....“ وہ مجھ سے دریافت کرنے لگے تو میں نے اثبات میں سر ہلایا....” ٹھیک ہے جب تک ذرقان شاہ نہیں آتا۔ تم گیارہ مرتبہ درود ابراہیمی پڑھو اور پھر آیت الکرسی پڑھو۔ اس کے بعد اللہ تبارک تعالیٰ کے اسمائے نامی یا حفیظ بحق یا سلام پڑھو اور اس کے بعد گیارہ مرتبہ تعوذ شریف پڑھنے کے بعد گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھ کراپنے سینے پر پھونک مار لو.... یہ ردسحر اور مخلوق مخفی سے حفاظت کے لئے بہترین وظیفہ ہے....“ ٹاہلی والی سرکار نے مجھے اس وظیفہ کو بالحاظ تعداد پڑھنے کا طریقہ سکھایا اور پھر وہ خود بھی زیرلب کچھ پڑھنے لگے۔ مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے ٹاہلی والی سرکار آج کسی بہت بڑی جنگ کی تیاری کرکے بیٹھے ہیں۔ میں نے وظیفہ پڑھنا شروع کر دیا۔ نہایت ارتکاز اور خلوص کے ساتھ.... اپنے قلب و نظر کے زاویے درست کرکے پڑھنے لگا.... میں نے جب وظیفہ پڑھ لیا تو اسی لمحہ ٹاہلی والی سرکار نے آنکھیں کھول کر مشرق کی طرف رخ کرکے کچھ ایسی زبان میں الفاظ ادا کئے جو میرے لئے قطعی اجنبی تھی.... ان کے الفاظ کی بازگشت قبرستان میں دور دور تک پہنچی ہی تھی کہ یکایک پورا قبرستان گہرے سایے میں ڈھک گیا اور آسمان سے بہت ہی تیز قسم کا بگولا قبرستان میں اترنے لگا۔
بگولا میرے حصار کے گرد چکر لگانے لگا تھا۔ اگر میں نے وظائف نہ پڑھے ہوتے تو یقیناً اس بگولے کی لپیٹ میں آ جاتا۔ بگولے کی شدت سے اندازہ ہوتا تھا کہ اگر یہ کسی گاﺅں کے اوپر آیا ہوتا تو گھروں کی دیواریں گرا دیتا اور ان کی چھتیں اڑا دیتا۔ لیکن یہ ٹاہلی والی سرکار کی کرامت ہی تھی کہ غیض و غضب کے طوفان کی شدت لئے ہوا یہ بگولا کسی کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ ہاں.... البتہ یہ ضرور ہوا.... ہم سے دس بیس گز دور بیری کا ایک خستہ حال درخت بگولے کی تیز اور طوفانی ہواﺅں کی تاب نہ لا سکا اور جڑ سے اکھڑ گیا۔ میں نے سوچا۔ اگر میں اس حصار سے باہر ہوتا تو زمیں میرے قدموں سے نکل جاتی۔ ٹاہلی والی سرکار کی بات سچ ثابت ہوئی تھی۔ میں تو حیرت سے پاش پاش ہو رہا تھا کہ بابا جی پہلے بھی تو حویلی میں حاضری دیتے تھے مگر ان کی آمد اتنی طوفانی اور قہر و غضب سے نہیں بھری ہوتی تھی۔ صبح اور دوپہر کے وقت بھی میں ان کی انسانی اور جناتی روپ میں حاضریوں سے مستفید ہو چکا تھا مگر نہ جانے آج ان کی حاضری میں کیا حکمت تھی کیسا راز تھا، کیسی ناراضگی تھی....
پانچ دس منٹ لگ گئے ہوں گے بگولے کو اعتدال پر آتے آتے.... بگولا اب فضا میں بکھر گیا تھا.... ہر طرح بظاہر سکون آ گیا تھا۔ درختوں کی شاخیں جن پر لرزہ طاری تھا اب ناموس وجود کے خوف سے ساکت ہو چکے تھے۔ میرے سامنے کوئی بھی شے ظاہر نہیں ہوئی تھی.... صرف ہوا اور فضا میرے اور ٹاہلی والی سرکار کے درمیان حائل تھے۔ کسی نادیدہ وجود کا احساس بھی نہیں ہو رہا تھا۔ البتہ فضا میں قدرے گرمی اور حبس کا احساس بھر گیا تھا۔ کچھ دیر ہی بعد مجھے فضا میں بھاری بھاری سانسیں لینے کی آواز سنائی دینے لگی اور اسکے ساتھ ہی ٹاہلی والی سرکار بولی۔
”ذرقان شاہ۔ ہم نے تمہارا اتارا دیکھ لیا۔ سجنوں کے پاس اس طرح آتے ہو....“
”اپنے مطلب کی بات کرو بابا....“ بابا جی خشک لہجے میں بولے۔ ٹاہلی والی سرکار خفیف انداز میں مسکرائی۔ ”ذرقان شاہ۔ ہم اپنے سجنوں کا لحاظ کرتے ہیں۔ یہی تم اور ہم میں فرق ہے۔ تم جنات کو وضعداری رکھ رکھاﺅ اور حسن سلوک نہیں آتا۔ افسوس کہ تم ہم سے ان اخلاقی اصولوں کی تربیت لیکر بھی اجڈ کے اجڈ ہی رہے۔ تم نے علوم حاصل کئے مگر یہ علم تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ افسوس ذرقان شاہ۔ خدائے لم یزل نے تم جنات پر یہ احسان کیا کہ تمہیں تمہارے جد امجد ابلیس کی صف میں کھڑا نہیں کیا۔ اسکے گناہ کی سزا تمہیں نہیں دی۔ مگر تم جنات اپنی فطرت سے باز نہیں آتے۔ علم کا تکبر تمہیں بھی تنگ کرتا....“
”بابا.... فلسفہ نہ سناﺅ.... میں جاننا چاہتا ہوں کہ مجھے اس وقت کیوں بلایا ہے تم نے.... شاید تم نہیں جانتے کہ یہ پہر جب سورج سوا نیزے پر ہوتا ہے۔ جب بیابانوں اور صحراﺅں میں سنسانی پھیلی ہوتی ہے، قبرستانوں میں مردے بھی آرام کر رہے ہوتے ہیں، ہم جنات اپنے اس وقت خاص میں آدم زاد حاکمین کی مجلس میں نہیں آتے۔ تم نے اس وقت طلب کر کے مجھے بہت رنج پہنچایا ہے....“
”میں جانتا ہوں ذرقان شاہ.... مگر تمہارے رنج کی فکر کر کے ہم اس انسانی مسئلہ کو نظرانداز نہیں کر سکتے تھے.... دیکھو ادھر.... یہ نوجوان کتنا دکھی اور رنجیدہ ہے۔ تم نے اس کے محسنوں کے گھر میں ڈاکہ ڈالا ہے۔ ان کی عزت خاک میں ملا دی.... کیا ایسے میں تمہیں یہ حق پہنچتا ہے کہ تم اپنے راحت کدوں میں سکون کی نیند کے مزلے لے رہے ہو....“
”اچھا تو تم نے مجھے اس بدبخت کی خاطر تکلیف دی ہے۔“
بابا جی تلخی سے بولے۔ ”اگر تم نے اسے یہاں محفوظ نہ کیا ہوتا تو میں اسکی کھال ادھیڑ دیتا.... یہ لڑکا اپنی اوقات سے باہر نکل گیا ہے۔ ہم نے اسے عزت دی۔ اسے علوم کے رازوں سے آگاہ کیا.... مگر یہ ہمیں تنگ کرنے پر اتر آیا ہے....“
”ذرقان شاہ.... تمہاری عقل کو غضب کی چادر نے ڈھانپ رکھا ہے۔ یہ لو.... پانی پیو۔ پھر آرام سے بات کریں گے....“
”تم بات کرو.... مجھے واپس جانا ہے....“ بابا جی نے ٹاہلی والی سرکار کو سخت لہجے میں مخاطب کیا۔ ”تمہیں یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ تم اس کی خاطر ہم کو ناراض کرتے....“
”۔۔۔۔تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے ذرقان شاہ.... میں آرام اور ٹھنڈے حوصلے سے تم سے بات کر رہا ہوں مگر تمہارا لہجہ بتا رہا ہے کہ تم اپنی حیثیت سے بڑھ چڑھ کر عزت حاصل کرنا چاہتے ہو۔ کان کھول کر سن لو ذرقان شاہ.... تم نے ایک معصوم لڑکی کو بے عزت کرنے میں اپنے عامل کا ساتھ دیا ہے۔ لعنت ہے تمہاری علمیت اور بزرگی پر.... کیا بزرگوں کی تعلیمات نے تمہیں یہی سکھایا ہے۔ تم میں اور ایک جاہل جن میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ ان جنات اور تم میں کیسی تمیز کی جا سکتی ہے جو آدم زاد عورتوں کو تنگ کرتے ہیں.... تم نے اپنے آپ کو ان جنات میں سے ممتاز بنانے کی خاطر صدیوں تک علوم حاصل کئے.... محض اس لئے کہ تم ایک عامل کے ہاتھ جب لگ جاﺅ تو کتے کی طرح دم ہلاتے رہو....“ ٹاہلی والی سرکار جلالی انداز میں کھڑے ہو کر اس ماورائی وجود سے مخاطب تھے جو ہوا کے پردوں میں ملفوف تھا۔
”بابا....“ تم کہنا کیا چاہتے ہو.... یہ کہ ریاض شاہ زلیخا کو اپنے ساتھ کیوں لے گیا ہے۔ تم بھول گئے بابا کہ یہاں اسی جگہ.... یہ بھی وہاں موجود تھا یہ بھی گواہ ہے۔ تم نے خود اسے بھی یہی کہا تھا کہ زلیخا ریاض شاہ کی امانت ہے.... بھول گئے کیا۔ اس نے مجھ سے اجازت طلب کی تھی۔ کیونکہ زلیخا کے وارث ہم ہیں۔ وہ ہمارے بزرگوں کی دعاﺅں سے پیدا ہوئی تھی۔ کیا تم بھول گئے ہو کہ روحانی اولاد پر کس کس کا حق ہوتا ہے.... ہاں.... یہ وعدہ ہے ہمارا.... زلیخا کی عصمت پر آنچ بھی نہیں آنے دوں گا۔ ریاض شاہ آج اس سے نکاح کرے گا۔ اگر ہو سکے تو تم بھی آ جانا.... تمہیں ہماری طرف سے دعوت ہے....“
”ذرقان شاہ میں تمہیں یہ ظلم نہیں کرنے دوں گا.... میں یہ شادی ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔ میں نے جو کہا تھا وہ بھی درست تھا۔ لیکن اب یہ معاملہ بگڑ چکا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ تم لوگ زلیخا کے گھر والوں کی رضامندی سے باعزت طریقے سے شادی کرو.... مگر ریاض شاہ نے اپنی نفسانی خواہشات کے ہاتھوں مغلوب ہو کر اسے گھر سے بھگا یا....“
”بابا.... ہم اسے بھگا کر نہیں لے گئے.... اسکی رضامندی سے لیکر گئے ہیں....“ بابا جی اس بار نرمی سے بولے۔
”ہمارے معاشرے میں اسے گھر سے بھگانا ہی کہتے ہیں۔ ریاض شاہ نے ایک شیطانی سوچ کے تحت یہ قدم اٹھایا ہے جو شریعت کی رو سے ناجائز ہے.... تم لوگوں نے خوف و ہراس پھیلا کر اپنی سفلی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اس نے یہ سب تمہارے بل بوتے پر کیا ہے ذرقان شاہ.... تم جانتے ہو اگر یہ معاملہ اوپر چلا گیا تو بزرگوں کی پھٹکار تم پر پڑے گی۔ میں تمہاری شکایت کروں گا ذرقان شاہ۔۔۔۔ تو تمہیں عقل آ جائے گی.... تم نے ایک ہوس پرست شخص سے مغلوب ہو کر اسکی مدد کیوں کی....“
میرا خیال تھا کہ بابا جی بھڑک اٹھیں گے.... مگر اب کی بار وہ خاموش ہو گئے تھے۔ ان کی بھاری سانسیں اب بوجھل ہو گئی تھیں۔ پھر جب وہ بولے تو اسی غیر مانوس زبان میں.... جو ریاض شاہ بابا جی آپس میں بات چیت کے دوران استعمال کرتے تھے۔ ٹاہلی والی سرکار بھی ان سے اسی زبان میں گفتگو کرنے لگے تھے۔ ان کے لہجوں سے لگتا تھا کہ آپس میں بحث کر رہے ہیں۔ یونہی خاصی دیر گذر گئی.... بالآخر ٹاہلی والی سرکار اپنی مادری زبان میں بولے۔ ”ٹھیک ہے میں اسے سمجھا دوں گا۔ مگر اب معاملہ کسی سطح پر خراب نہیں ہونا چاہئے۔ اپنے شکوک تم بھی رفع کرو.... اور شاہد میاں کے لئے اپنے دل میں محبت پیدا کرو.... یہ سمجھدار نوجوان ہے۔ تمہیں تنگ نہیں کرے گا....“
”ٹھیک ہے۔ اچھا تو اب اجازت.... خدا حافظ....“ بابا جی نے اجازت لی اور چلے گئے۔ ٹاہلی والی سرکار نے مجھے مخاطب کیا۔ ”شاہد میاں.... اب تم حویلی چلے جاﺅ.... لیکن ٹھہرو.... تم شام کو جانا۔ ابھی کچھ دیر ادھر ہی رہو۔ میں نے ذرقان شاہ کو سمجھا دیا ہے۔ اسکے کچھ تقاضے تھے۔ میں نے وعدہ کیا ہے کہ انہیں پورا کر دوں گا.... میرے بچے.... اصل بات یہ ہے کہ جنات میں کچھ ایسے گروہ ہیں جو ہم جیسے ملنگوں کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ درباروں اور مزاروں پر بسیرا کرتے ہیں۔ ذرقان شاہ ہمارے ملک کے سبھی درباروں پر حاضری دیتا ہے.... اس پر کچھ پابندیاں لگ گئی تھیں۔ ہم نے وعدہ کیا ہے کہ ہم اس کی سفارش کر کے اسکی حاضریوں کو مقبول بنانے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ریاض شاہ زلیخا کو آج رات ہی واپس لے آئے گا.... تم ان کے گھر والوں کو سمجھا دینا اور انہیں یہ یقین دلا دینا کہ زلیخا باعصمت ہے۔ تم ان لوگوں کے درمیان غلط فہمیاں ختم کرا دو.... ریاض شاہ اور تمہارے بابا جی کو ابھی اس علاقہ میں تین ہفتے مزید رہنا ہے۔ مناسب ہوا تو تمہیں بتا دوں گا کہ اسکی کیا مجبوریاں ہیں.... بہرحال تم اپنے دل کو اب آلودہ نہ کرنا.... اور حالات کو سمجھ کر چلتے رہنا.... اب مجھے کچھ دنوں کے لئے یہاں سے جانا ہے۔ اللہ تمہاری اور حویلی والوں کی حفاظت فرمائے.... فقیر کی دعا ہے کہ تم لوگوں پر کسی قسم کی شیطانی آفت نہ آئے.... (آمین)....“ ٹاہلی والی سرکار نے میرے قریب آ کر میرے سینے پر پھونک ماری اور مجھے سمجھایا۔
”غصہ نہ کیا کرو........ غصہ جو ہے ناں.... بصیرت کو کھا جاتا ہے۔ اگر تمہاری بصیرت روشن رہے گی تو پراسرار جہانوں اور مخلوقات کو نہایت قریب سے دیکھ سکو گے۔“
”انشاءاللہ.... میں کوشش کروں گا۔“ میں نے خلوص دل سے کہا
اس دوران وہ عورت نہا دھو کر آ گئی تھی۔ اسکے چہرے سے برسوں کی غلاظت دور ہو گئی تھی۔ سر پر چادر اوڑھ لی تھی اور خود کو اس چادر میں لپیٹ رکھا تھا۔
”بابا.... میں آ گئی....“
ٹاہلی والی سرکار نے اسکی طرف دیکھا اور اشارہ کر کے اپنے پاس بلایا اور پھر اسے نیچے بیٹھنے کے لئے کہا۔ وہ سر جھکا کر دوزانو ہو کر بیٹھ گئی۔ ٹاہلی والی سرکار نے ایک ہاتھ اسکے سر پر رکھا اور آیات مبارکہ کی تلاوت کرنے لگے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے انہوں نے الحمد شریف کم از کم چالیس بار پڑھی ہو گی۔ وہ ہر بار ایک آیت پر زور دے کر پڑھتے تھے۔ جس کا مفہوم یہ تھا کہ ”اے اللہ مجھے صراط مستقیم پر چلانا....“ اعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم بھی متعدد بار پڑھی تھی۔ آدھ پون گھنٹہ تک وہ اسکے سر کے اوپر دست مبارک رکھ کر آیات پڑھتے رہے۔ آخر میں انہوں نے مجھ سے آب خورے میں پانی منگوایا اور اس پر کچھ پڑھنے کے بعد پھونک ماری اور پانی دم کر کے اس عورت کو دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس عورت کی ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں۔ آنکھیں بند تھیں مگر پیوٹوں سے آنسوﺅں کا سیلاب ابل ابل کر باہر آرہا تھا۔ اس نے ہچکیوں میں ہی پانی پیا.... اور روتے ہوئے بولی۔ ”بابا.... برسوں بعد سکون ملا ہے مجھے.... .... میں برسوں بھٹکتی رہی ہوں۔ میں اپنے خالق سے دور ہو گئی تھی بابا.... اور میں نے ایک شیطان کو اپنا معبود بنا لیا تھا.... ہائے میں کتنی بدقسمت تھی بابا.... بڑی ہی نامراد تھی میں.... میں سوچا کرتی تھی کہ اگر میں کالا علم سیکھ لوں گی تو بڑی واہ واہ ہو گی میری۔ دنیا مجھ سے ڈرا کرے گی بابا.... میں دنیا کو اپنی شیطانی حرکتوں سے ڈراتی رہوں گی.... اور میں ڈراتی بھی رہی.... معصوم لوگوں کو گمراہ کرتی رہی بابا.... میں بہت گناہگار ہوں۔ میں نے اپنے مسلمان بہن بھائیوں کا خون پیا ہے۔ میں تو معافی کے لائق بھی نہیں رہی بابا.... بابا.... میری سفارش کر دو.... مجھے سکون دے دو بابا.... مجھے واپس بلا لو.... مجھے میری دنیا لا دو بابا.... میں....“ وہ بلک بلک کر روتی رہی تھی۔” ایسے لگ رہا ہے بابا۔ جیسے دل اور دماغ سے منوں بوجھ اتر گیا ہے۔ یہ کلمہ جو بابا تم نے سنایا ہے۔ بخدا.... اگر میں اسکو پکڑ لیتی۔ اپنے رب کو پہچان لیتی اور اسکے حضور روتی بلکتی رہتی، عبادتوں کے نذرانے دیتی.... اسے مناتی اسکے آگے جھکتی بابا.... تو مجھے ان ہزاروں سجدوں سے نجات مل جاتی جو میں نے کالا علم سیکھنے کے لئے کئے ہیں .... میں بہت گناہگار ہوں بابا.... مجھے اب خود سے گھن آ رہی ہے۔ ہر منظر میرے سامنے کھل رہا ہے۔ وہ زبیدہ.... ہاں۔ اس پاک باز اور شریف عورت زبیدہ کا چہرہ میرے سامنے آ رہا ہے۔ فلم سی چل رہی ہے بابا.... یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ....“ اس عورت کی آنکھیں کسی خوف سے یکدم کھل گئیں اور دیدے پھاڑ پھاڑ کر وہ ٹاہلی والی سرکار کی طرف دیکھنے لگی۔ ”بابا.... زبیدہ.... آ گئی....“ وہ خوف سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ ”ہاں آ جا.... زبیدہ آ جا.... میں ہی تیری مجرم ہوں۔ میں ہی تیری قاتل ہوں۔ میں نے ہی تیرے بچے کھائے ہیں میری بہن آ.... اور میرا کلیجہ نکال کر کھا لے تو.... دیکھ آج تمہاری منداں بی بی خود یہ بتا رہی ہے۔ لے.... میرا.... نہیں تو اپنا جوتا اتار کر میرے سر پر مار....“ وہ ادھر ادھر دیکھ کر ہذیان بکنے لگی تھی۔ غالباً اس کا نام منداں بی بی تھا۔ خوف اور ذہنی انتشار سے اسکی آنکھیں پھٹ گئی تھیں اور سر سے چادر بھی سرک گئی تھی۔
”ہوش میں آ میری بچی....“ بابا ٹاہلی والی سرکار نے دوبارہ اسکے سر پر دست شفقت رکھا اور اسکے سر پر پھونک مار کر بولے ”سب ٹھیک ہو جائے گا....“
”بابا.... اسے کہو ناں مجھے جوتے مارے۔ میرا کلیجہ نکال دے بابا.... میں بہت بری عورت ہوں بابا....“ منداں زار و قطار روتی جا رہی تھی.... ”بابا.... میں اکبر علی کے پیار کی ٹھکرائی ہوئی عورت تھی۔ اس سے سچا عشق کرتی تھی بابا.... مگر وہ مجھے نہیں چاہتا تھا.... میں دیوانگی کی حدیں پار کر گئی تھی اور اسکو حاصل کرنے کے لئے مجھے کوئی ہوش نہیں رہا تھا۔ ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی میں.... اچھی بھلی شکل و صورت تھی میری.... زمین جائیداد.... سب کچھ تھا۔ مگر اکبر کو میری پروا نہیں تھی۔ میرا پھوپھی زاد تھا وہ.... بڑا ہی شریف اور نمازی.... میری دیوانگی دیکھ کر وہ مجھے سمجھاتا تھا۔ کہتا تھا ”منداں۔ شریفوں کی بیٹیاں آوارہ نہیں پھرتیں۔ اپنے گھر میں رہتی ہیں.... مگر تو دیواریں پھاند کر باہر نکل جاتی ہے۔ تمہیں کوئی شرم و حیا نہیں ہے۔ میں تجھ سے شادی نہیں کر سکتا....“
میں کہتی ”اکبرے۔ اللہ سوہنے کی قسم۔ اگر تو نہ ملا تو میں زہر کھا لوں گی۔“
بابا.... وہ تو نہ ملا.... اور نہ ہی میں نے زہر کھایا۔ ہاں میں زہریلی ہو گئی۔ پھوپھی نے اکبر کی شادی دور پار کے گاﺅں میں کر دی۔ زبیدہ جب بیاہ کر اسکے گھر آئی تو میں اسے دیکھنے گئی۔ بڑی پیاری لڑکی تھی زبیدہ.... حوروں جیسا تقدس۔ آنکھوں میں حیا.... وہ عورت کی حقیقی تصویر تھی.... میں گھر واپس آئی، بناﺅ سنگھار کر کے شیشے میں دیکھتی رہی.... مجھے احساس ہوا کہ میں تو زبیدہ سے زیادہ حسیں ہوں۔ اس سے زیادہ حیادار ہوں۔ میں سولہ سنگھار کر کے اکبرے کے گھر چلی گئی.... وہ سمجھ گیا کہ میں کیوں آئی ہوں۔ اس نے مجھے بہت برا بھلا کہا اور کہا ”منداں تو چڑیل ہے۔ چلی جا یہاں سے۔ تیری نحوست سے آج کی رات کی پاکیزگی ختم نہیں کرنا چاہتا.... دفع ہو جا.... چڑیل کہیں کی....“
میں چڑیل تو نہیں تھی بابا.... ایک عورت تھی.... اکبرے کی دھتکار اور پھر اس حور پری کے تقدس نے مجھے چڑیل بنا دیا.... میرے گاﺅں میں ایک سوامی آیا کرتا تھا۔ شکل و صورت سے ملنگ تھا۔ ایک روز میں جب گھر میں اکیلی تھی اس نے صدا لگائی۔ ”بھوکے کو کھلا،اپنے من کی پا۔۔“
میں باہر دوڑی گئی.... اور اسے بلا کر کہا۔ ”بابا۔ گھی شکر والی روٹی دوں گی۔ چاٹی کی ٹھنڈی لسی اور اگر کہے تو دودھ کا بڑا پیالہ بھی تری نذر کر دوں گی۔ اگر کہے گا تو.... یہ سونے کی چوڑیاں بھی تجھے دے دوں گی.... مگر سچ سچ بتا میرے من کی مراد پوری ہو جائے گی....“ اس نے میری دیوانگی دیکھی تو مسکرا دیا۔
کہنے لگا ”پہلے پیٹ پوجا پھر کام دوجا....“
میں نے اسے پیٹ بھر کر کھانا کھلایا۔ پھر بولا۔ ”اب کہو.... کیا مسئلہ ہے....“ میں تو اسے محض ملنگ ہی سمجھی تھی۔ میں نے جب اپنی دکھ لیلٰی سنائی تو بولا....
”انتقام والوں کا کوئی دین دھرم نہیں ہوتا.... ترے انتقام کی آگ میں بجھا دوں گا....“
میں نے پوچھا ”تو کون ہے؟“
بولا۔ ”سادھو.... سوامی.... ادھر.... مندر کے پجاری پنڈت کا سیوکار.... کسی روز مندر میں آ جا.... ترے سارے دکھ دور ہو جائیں گے....“ اس نے مجھے شہر میں مندر کا پتہ دیا.... اور میں اگلے روز شہر چلی گئی۔ سوامی نے مجھے پنڈت سے ملایا۔ کالے سانڈ جیسا پنڈت.... شیطان کا باپ تھا وہ.... میں نے وہاں دیکھا.... بہت سی عورتیں وہاں جمع تھیں۔ کہنے لگا
”یہ سب اپنی اپنی اچھا کے لئے آتی ہیں....“
میں نہ سمجھی.... اس نے مجھے سمجھایا ”اگر تو چاہتی ہے کہ ہر کوئی تری بات مانے تو ایک بات مانو....“
”تمہاری ہر بات مانوں گی میں....“ نہ جانے اس وقت کون سا جذبہ تھا کہ میں بے خوفی سے کہہ گئی.... اور پھر میں نے اسکی ہر بات مان لی۔ اس نے مجھے ایک سفوف دیا اور کہا۔ ”یہ مسان ہے۔ اپنی پھوپھی کو کھلا دے۔ اسکو چیچک نکل آئے گی۔ پھر تمہیں ہماری شکتی پر اعتبار آ جائے گا....“
بابا میں اندھی ہو گئی تھی میں نے پھوپھی کو مسان کھلا دیا تو وہ اسی روز چیچک میں مبتلا ہو گئی۔ میں بڑی خوش تھی۔ اکبرے کی دوڑیں لگ گئیں۔ دربار، مزار، ہسپتال.... کچھ بھی تو نہ چھوڑا تھا اس نے۔ ہر جگہ وہ گیا کہ اسکی ماں کو صحت مل جائے مگر اسے آرام نہ آیا.... اور وہ مر گئی.... میں پنڈت کے پاس جانے لگی۔ اور اسکی داسی بن گئی۔ اس نے مجھے کالا علم سکھانا شروع کر دیا۔ پھوپھی مر گئی تو ان دنوں زبیدہ امید سے تھی.... میں نے اس کو تعویذ پلا دیا.... اور امیدیں ختم ہو گئیں۔ اکبرا۔۔۔۔۔ اور پریشان ہوا۔۔۔۔۔ تو مجھے بڑی خوشی ملی تھی بابا.... میں نے اس روز سات شیطانوں کا بھوجن تیار کر کے پنڈت کے ساتھ مل کر رقص ابلیس کیا تھا.... بابا۔ تمہیں کیا بتاﺅں.... شیطان کے آلہ کار کی شیطانیت دیکھ کر تو شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔ میں پنڈت کی سب سے زیادہ ہونہار داسی بن گئی.... میرا کیا ہوا عمل ایسا ٹانکا لگا کر بندھا ہوتا تھا کہ کسی سے نہ نکلتا تھا۔ میں قبرستانوں میں جاتی اور قبروں کے درمیان بیٹھ کر عمل کرتی.... میں نے زبیدہ اور اکبر کو سسک سسک کر مارا.... وہ جب بھی امید سے ہوتی میں اسکو خراب کر دیتی.... اور پھر وہ بانجھ ہو گئی.... گاﺅں میں میری مشہوری ہو گئی تھی کہ میں ملنگنی ہو گئی ہوں۔ لوگوں کو یہی معلوم تھا کہ اکبرے کے عشق نے مجھے ملنگنی بنا دیا ہے۔ مجھے پنڈت کی طرف سے بھی یہی ہدایت تھی کہ میں ملنگنی بن کر رہوں۔ میں نے بہروپ بدل لیا تھا۔ میرا انتقام پورا ہو رہا تھا.... میں جہاں خوشیاں دیکھتی دکھوں کی کھیتیاں پیدا کرتی.... اچھے بھلے گھروں کو برباد کر دیا.... کسی کے چولہے میں تعویذ دبا دیتی.... کسی کے گھر خون کے چھینٹے پھنکوا دیتی.... اور کسی کنواری لڑکی کے کپڑے کتر ڈالتی۔ میں نے کالا عمل کر کے گاﺅں کے گاﺅں برباد کر دئیے بابا.... پھر ایک روز اکبرا روتا ہوا میرے در پر آ گیا۔ میرے پاﺅں پڑ گیا۔ معافیاں مانگنے لگا۔ کہنے لگا ”میں نے ترا دل دکھایا تھا منداں.... مجھے معاف کر دے.... اللہ بھی مجھے معاف کر دے گا....“
میں اندر ہی اندر قہقہے لگانے لگی۔ اسے کیا معلوم تھا کہ میں اسکے اللہ سے کتنی دور ہو گئی ہوں۔ اور اللہ کیوں میری وجہ سے اس سے ناراض ہوتا.... بابا.... اس وقت میں اپنی فتح کے نشہ میں چور چور ہو گئی.... مگر دن رات کی تپسیا نے مجھے اتنا پکا کر دیا تھا اور یہ سکھا دیا کہ مجھے کسی پر کھلنا نہیں ہے.... سو میں اس سے بے نیاز ہو گئی.... وہ مجھے اپنے گھر لے گیا.... زبیدہ چارپائی پر پڑی تھی۔ اسکا رنگ روپ سب ختم ہو گیا تھا .... اکبرا کہنے لگا۔ ”منداں.... سنا ہے اللہ تری سنتا ہے تو.... میری زبیدہ کے لئے دعا کر.... یہ ٹھیک ہو جائے اور اللہ اسکی گود ہری کر دے....“ میں نے اسکی طرف دیکھا.... اور سوچا.... واہ اکبرے.... تو بھی میرے بہروپ میں آ گیا۔ میں تیری گود اجاڑنے والی.... تری گود کیسے ہری ہونے دوں گی....“
اکبرے نے اس رات مجھے اپنے گھر ٹھہرایا اور میری منتیں کرتا رہا.... میں نے ایک منصوبہ بنایا اور اپنے کالے عمل کی کاٹ کرنے لگی۔ زبیدہ کے گرد سحری تاریں اور دھاگے کاٹنے لگی۔ اسکی بندھنوں کی گرہیں کھولتی رہی رات بھر.... اور پھر چند روز بعد پورے گاﺅں میں مشہور ہو گیا۔ ”ملنگنی منداں کی دعا سے زبیدہ صحت یاب ہو گئی۔ اسکی گود ہری ہو گئی....“ لیکن وہ سب میرے انتقام سے غافل تھے۔اکبرے کی بیوی کا آخری مہینہ چل رہا تھا کہ اسے برے برے خواب آنے گے۔ راتوں کو اٹھ کر چیختی چلاتی ،چارپائی سے نیچے اتر جاتی اور چادر دوپٹہ اتار کر پھینک دیتی۔ پھر صحن میں آ کر آسمان کی طرف رخ کر کے خاموش ہو کر اسکی تاریک بلندیوں کو دیکھتی رہتی۔ یہ سیاہ راتوں کے دن تھے۔ اکبر بڑا پریشان ہو گیا کہ زبیدہ کو کیا ہو گیا ہے۔ ایک آدھ روز بعد جب یہی واقعہ دوبارہ ہوا تو وہ میرے پاس بھاگا بھاگا آیا۔ میں قبرستان میں ہی تھی۔ اپنی کٹیا سے باہر پکی قبر کے پاس۔۔۔۔۔ اس کا ہی انتظار کر رہی تھی۔ مجھے یقین تھا وہ آئے گا۔ وہ آیا۔ بھاگتا ہوا‘ ہانپتا ہوا.... روتا ہوا‘ بلکتا ہوا.... میرے پاس پہنچا تو قبر کے سرہانے گر گیا۔
”بی بی....“ عقیدت کا مارا اب مجھے منداں کی بجائے بی بی کہتا تھا۔ ”بی بی میں مر گیا۔ لٹ گیا.... چل میرے ساتھ.... زبیدہ کی حالت بڑی خراب ہے....“
میں آنکھوں میں دئیے جلائے بیٹھی تھی۔ پتلیوں پر دئیے کی لو ایک بھڑکتے ہوئے شعلے کی مانند جل رہی تھی اس شعلے کی آخری نوک پر میرا دل ٹھہرا رہا تھا۔ دھیرے دھیرے سے سلگ رہا تھا۔ پگھلتا جا رہا تھا۔ میرا دل موم نہیں تھا۔ فولاد تھا فولاد.... جو پگھل کر میرے پورے بدن میں پھیل رہا تھا۔ میں اسکی طرف تکتی رہی۔ میری آنکھوں سے بلند ہوتی ہوئی حسد کینے اور انتقام کی آگ اسے دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
”بی بی.... سنتی ہے کیا۔میری زبیدہ مر جائے گی.... میرا بچہ مر جائے گا....“
”مر جانے دو اسے....“ میں جب بولی تو قبرستان کے سناٹے میں ایک اسکی ہچکیاں تھیں اور ایک میرا جذبات سے خالی لہجہ گونج رہا تھا۔
”کک.... کیا کہتی ہو.... منداں....“ آنسو اسکی پلکوں پر ٹھہر گئے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ”تو کہتی ہے زبیدہ مر جائے.... میرا بچہ مر جائے....“
”ہاں.... وہ مر جائے گی اکبرے۔ اس نے تجھے برباد کر دیا۔ نصیبوں جلی تری ماں کو کھا گئی.... ترے بچے کھا گئی.... اور آج پھر....“میں اسے بد گماں کرنے لگی۔
”نہیں.... نہیں ایسا نہیں ہو سکتا....“ اکبر چلایا۔ ”میری زبیدہ بڑے بختوں والی تھی۔ دیکھا نہیں.... اس کا چہرہ۔ معصوم اور پاکیزہ عورت ہے....“
”.... وہ بڑی پاکیزہ اور معصوم ہے.... اور میں بدمعاش تھی‘ آوارہ تھی‘ گندی اور بدصورت عورت تھی اکبرے.... تو نے.... تو نے.... میری موت کا جشن منایا.... تو نے میری روح مار دی۔ میرا سب کچھ برباد کر دیا.... اس وقت تجھے رحم نہیں آیا تھا مجھ پر....“
”تت تو.... کیا کہہ رہی ہے منداں....“ وہ بے یقینی کے عالم میں میری طرف دیکھ رہا تھا۔
”وہ ہی کہہ رہی ہوں اکبرے.... جو میرے ساتھ تو نے کیا.... میں بھی گری تھی ترے قدموں میں.... مگر تو نے مجھے دھتکار دیا۔ جب تو میرے قدموں میں گرا تو میں نے تجھے اٹھا لیا۔ یہی ایک عشق کی ماری عورت اور حالات کے ستائے ہوئے مرد کا حال ہوتا ہے اکبرے.... آج تو اس عورت کے پاس آیا ہے جو اب تجھے کچھ نہیں دے سکتی.... تری نفرت نے مجھے یہاں تک پہنچایا ہے اکبرے۔ میں ترے عشق میں فنا ہو گئی۔ دنیا کہتی ہے منداں اکبرے کے عشق میں ملنگنی ہو گئی.... مگر تو نہیں جانتا۔ لوگوں کے دلوں میں میرے لئے رحم تھا مگر تو نے مجھے کبھی اپنے گھر نہیں رکنے دیا تھا اکبرے.... جا چلا جا.... اب میں ترے لئے کچھ نہیں کر سکتی....“
میری باتیں سن کر وہ پریشان ہو گیا۔ بولا۔ ”بی بی.... میں جانتا ہوں میں نے تری قدر نہیں کی تھی.... لیکن یہ تو دنیا میں ہوتا رہتا ہے۔ کوئی کسی کو پسند کرتا ہے تو اسکا مطلب تھوڑی ہے کہ وہ اسے حاصل بھی ہوجائے....“
”یہی بات تو اب کے سوچ.... جو تو چاہتا ہے ضروری نہیں ہے کہ تو وہ پا بھی لے....“ میں چراغ پا ہو کر بولی اور غصے سے کھڑی ہو گئی.... میرے کرتے کے گھنگھرو چھنکنے لگے۔ دور کہیں ناقوس بجنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے آج کی رات سادھو کو بلایا تھا۔ ناقوس کی آواز اس بات کی غمازی تھی کہ میں نے اس سے جو منگوایا تھا وہ لے کر آ رہا تھا.... میں نے بڑا بھرپور اہتمام کیا ہوا تھا۔ آج کی رات.... ایک طرف زبیدہ کا جنازہ اٹھتا اور دوسری طرف اکبرا سدا میرا داس بن کر قبروں کی مجاوری کرتا.... آج کی رات.... کہ جب ابھی وہ اپنے ہوش میں تھا۔ میں اپنی نفرت کا ابال اس پر ظاہر کر رہی تھی۔ اس رات اسے سب کچھ کہہ جانا چاہتی تھی۔
”اکبرے۔ تم مرد.... بڑے کمینے ہوتے ہو۔ تم عشق کرتے ہو تو ہر صورت میں اپنے محبوب کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ اپنے ماں باپ کو مجبور کر کے اپنے ساتھ ملا لیتے ہو۔ محبوب کو گھر سے بھی نکال لاتے ہو۔ عورت ٹھکرائے تو ہزاروں جتن کر کے اس تک پہنچ جاتے ہو.... یہ سماج بھی تمہارا ساتھ دیتا ہے۔ ایک کمزور عورت کو کمزور بنا کر اسے حاصل کر لیتے ہو.... مگر جب کوئی عورت عشق میں فنا ہوتی ہے تو اسکو جوتے مارتے ہو۔ اسے بے غیرت کہتے ہو۔ تم.... تم کیا جانو.... یہ عشق کیا ہوتا ہے اکبرے۔ تم تو عورت کو صرف ایک جنس کے طور پر خریدنے والے بیوپاری ہو۔
”تم تم.... اتنی نفرت کرنے لگی ہو منداں....“ اکبرا بمشکل بولا۔
”نفرت.... یہ تو بڑا چھوٹا لفظ ہے اکبرے۔ میں تو اب اس سماج کے سارے مردوں سے نفرت کرتی ہوں۔ میں نے اپنے اندر کی عورت کو مار دیا ہے.... میں تو اب بھڑکتی ہوئی آگ ہوں۔ نفرت اور تکبر نے مجھے مدہوش کر دیا ہے.... یہ سب تری وجہ سے ہوا ہے اور تو چاہتا ہے میں تجھے سکھ شانتی دوں....“
”تو کیا چاہتی ہے....“ اکبرا گھبرا کر بولا ”تو کیا کرنا چاہتی ہے....“
”میں کیا کرنا چاہتی ہوں ....ہا ہا“ میں قہقہے برسانے لگی۔ مجھ پر دیوانگی طاری تھی۔” میں نے تجھے کہا ناں.... میں آگ ہوں۔ تجھے اور تری خوشیوں کو جلا کر راکھ کر دوں گی.... تجھ میں ہمت ہے تو آ اور مجھے بجھا دے.... اس آگ کو ٹھنڈا کر دے۔ مگر اب نہیں ہو سکتا.... ترے پاس علم کی وہ طاقت نہیں ہے جو منداں ملنگنی کو جلا سکے....“
”منداں.... دیکھ تو ایسا کچھ نہیں کرے گی۔ بہت ہو گیا.... اب تو میرے پاس رہے گی۔ چل میرے گھر۔ میں نے تجھ سے معافیاں مانگ لی تھیں اور تو نے معاف کر دیا تھا....“
”چل.... دفع ہو جا کتے....“ میں چلائی۔ ”تو مجھے اسوقت گھر لیکر جانے کے لئے آیا ہے جب یہ قبرستان میرا گھر بن چکا ہے۔ میری بارات کب کی یہاں آ چکی ہے۔ میں نے ان مردوں سے شادی رچا لی ہے اکبرے.... میں زندہ تھوڑی ہوں اب.... جا دفع ہو جا.... میری نظروں سے.... میں تری شکل نہیں دیکھنا چاہتی.... اب ایک منٹ بھی تو یہاں رکا تو میں تجھے مار ڈالوں گی.... یہاں.... کسی قبر میں تجھے گاڑ دوں گی....“
وہ ایسا گھبرایا کہ بھاگ اٹھا.... اس نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا ہو گا.... سادھو ناقوس بجاتا ہوا قبرستان میں آ گیا۔ اس نے بھی اکبرے کو بدحواس ہو کر بھاگتے دیکھا تھا۔
”کیا ہوا تھا اسے....“ سادھو نے پوچھا۔ ”کہیں اس نے ترے چمتکار تو نہیں دیکھ لئے۔“
”نہیں.... آج اس نے منداں ملنگنی کے اندر کی عورت کو دیکھ لیا ہے.... اس عورت کو جو مر گئی تھی“.... میں نے سادھو سے کہا۔ ”چھوڑ.... تو لے آیا ہے میری چیزیں.... اور ہاں پنڈت جی نے کچھ بولا ہے....“
”ہاں مہاراج نے کہا ہے کہ منداں سے کہنا کہ جو بھی کام کرے احتیاط سے کرے۔ بہت سے اللہ والے بستیوں اور قبرستانوں میں ڈیرے ڈال رہے ہیں۔ اس لئے تو.... کبھی ایسی حرکت نہ کرنا کہ سب کچھ ظاہر ہو جائے.... وہ کہتے ہیں کہ اپنا حلیہ بھی تبدیل کر لے تو.... اور آج کے بعد تو کسی پر اپنے اندر کی مری ہوئی عورت کو ظاہر نہیں کرے گی.... دیکھ منداں.... جو مر گیا وہ مردہ ہو گیا۔ وہ ہمارے کس کام کا....“
”کیا بولتا ہے تو سادھو....“ میں نے اسے کہا تھا.... بابا ۔۔۔۔۔۔ہاں میں نے اسے کہا تھا کہ ”سادھو.... تو جانتا ہے جب کوئی مرتا ہے‘ تو اس کا مردہ ہمارے کام آتا ہے۔ ہم اس پر عمل پھونکتے ہیں۔ اسکی ہڈیوں کا چورہ اکٹھا کرتے اور اس پر عمل کر کے جیتے جاگتے انسانوں کے اندر موت اتارتے رہتے ہیں.... بابا۔ میں اپنے کام میں بڑی پکی ہو گئی تھی۔ اگر عورت ہٹ دھرم ہو اور انتقام لینے پر اتر آئے.... تو وہ کبھی ٹھہرتی نہیں ہے۔ وہ آگے ہی آگے بڑھتی ہے.... بابا تو جانتا ہے۔ اس دنیا کو مردوں نے نہیں عورتوں نے فتح کیا ہے۔ ہر فاتح عورت کے سامنے مفتوح ہوتا ہے بابا.... تو جانتا ہے۔ فقیر ہو یا شہنشاہ.... جب عورت اسکا امتحان لیتی ہے تو وہ فیل ہو جاتا ہے۔ پس میں نے سادھو سے کہا تھا۔ کہ تو بھول جا.... منداں کے جال کوئی نہیں توڑ سکتا.... میںنے اسے کہا تھا.... کہ میں نے لوگوں کی آنکھیں بند کر دی ہیں۔ وہ میرے چمتکار دیکھ کر اندھے ہو گئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں میں اللہ والی ہوں۔ وہ نہیں جان سکتے کہ میں درحقیقت شیطان کی داسی ہوں.... سادھو میری باتیں سن کر بڑا خوش ہوا تھا.... کہتا تھا.... منداں.... تو بڑے کام کی ہے۔ پنڈت مہاراج ترے سے بڑے خوش ہیں۔ تو ہمارے دھرم کی رکھشا کر رہی ہے۔ گھر گھر.... میں شیطان کے استھان بنا رہی ہے....“
چوبیسویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں