مقبوضہ کشمیر میں ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ اور بھارتی جبر
مقبوضہ کشمیر میں ووٹروں نے ضمنی الیکشن کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ ستر پولنگ سٹیشنوں پر تالے پڑے رہے اور باقی سب سنسان رہے۔ اس دوران مکمل ہڑتال رہی۔ سری نگر، بڈگام اور گاندربل کے اضلاع میں جھڑپیں ہوئیں۔ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کی اور چھرّے والی بندوقوں، آنسو گیس اور لاٹھیوں کا وحشیانہ استعمال کیا، کئی پولنگ سٹیشن جلا دیئے گئے، درجنوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا، بھارتی فوج کی فائرنگ سے آٹھ کشمیری شہید ہو گئے، حریت رہنماؤں، سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک سمیت کشمیری قیادت کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیاتھا۔ حریت رہنماؤں نے کہا کہ الیکشن فراڈ ہیں۔ بندوق کے سائے میں ہونے والا عمل جمہوری نہیں، پاکستان نے کہا ہے عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم رکوائے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے کہا ہم مقبوضہ کشمیر میں نہتے عوام پر فورسز کے وحشیانہ تشدد کی مذمت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں آٹھ کشمیری شہید ہو گئے۔ قابض بھارتی انتظامیہ نے پوری ریاست میں انٹرنیٹ سروس 12 اپریل تک معطل رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے دو حلقوں میں ضمنی انتخابات کی مقررہ تاریخ سے کئی روز پہلے ہی آثار نظر آ رہے تھے کہ پولنگ سٹیشنوں پر الو بولیں گے سو وہی ہوا۔ دو حلقوں کے ضمنی انتخاب کے موقع پر سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کئے گئے تھے اور پوری ریاست سے اضافی نفری بلا کر ان حلقوں میں متعین کی گئی تھی اس فورس نے ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا۔ وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں 8 کشمیری شہید ہو گئے اور ایک سو سے زیادہ زخمی ہو ئے، تاہم اس ظلم و جبر کے باوجود ووٹر ووٹ ڈالنے نہیں آئے اتنے کم ٹرن آؤٹ کے باوصف بھارتی حکومت یہی دعویٰ کرے گی کہ لوگوں نے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا کشمیریوں کے بائیکاٹ کے باعث عام انتخابات میں بھی بہت تھوڑے ووٹ پڑتے ہیں اس کے باوجود بھارتی حکومت پوری ڈھٹائی سے کہتی رہتی ہے کہ کشمیر میں ریفرنڈم کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ہر پانچ سال بعد کشمیری عوام ووٹ ڈال کر اپنی رائے کا اظہار کر دیتے ہیں حالانکہ یہ انتخابات استصواب رائے کا بدل نہیں اور نہ ہی ان انتخابات کی وجہ سے کشمیری عوام کی حقیقی رائے سامنے آتی ہے۔
کشمیری عوام کی حقیقی قیادت تو پہلے بھی ا نتخابات کا بائیکاٹ کرتی رہتی ہے اس لئے ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دیا جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ؟ کشمیری عوام، کشمیر کے طول و عرض میں پاکستانی پرچم لہراتے ہیں اور حال ہی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سرنگ کا افتتاح کرنے کے لئے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا تو کشمیری نوجوانوں کی ایک کرکٹ ٹیم نے پاکستانی ٹیم کی وردی پہن کر ان کا ’’استقبال‘‘ کیا اس موقع پر کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان کے قومی ترانے کے بول پڑھے گئے۔ یہ خبر جب بھارتی وزیر اعظم کو پہنچی تو انہوں نے ان ’’گستاخوں‘‘ کی فوری گرفتاری کا حکم دے دیا، اس پر ایک پولیس انسپکٹر نے استفسار کیا کہ ان نوجوانوں کو کس جرم میں گرفتار کیا جائے جس پر مودی لاجواب ہو گئے اور کچھ نہ کہہ سکے اور انسپکٹر کو گھورتے ہوئے موقع سے چلے گئے۔
اب ایسے واقعات کا مثبت پیغام وصول کرنے کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں کشمیریوں کو کتنی دیر تک جبراًبھارت کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے؟یہ سب دیکھتے ہوئے کشمیری قیادت سمیت وہ کشمیری جماعتیں بھی جو باقاعدگی سے انتخابات لڑتی ہیں اب بھارتی رہنماؤں کو یہ مشورہ دے رہی ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کیا جائے اور کشمیریوں کو بھی ان سہ فریقی مذاکرات کا حصہ بنایا جائے لیکن بھارتی قیادت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ابھی تک مذاکرات شروع نہیں ہو سکے۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نے کہا تھا کہ دو نیوکلیائی ریاستوں میں سخت کشیدگی کا تقاضا ہے کہ دونوں ملک مذاکرات کے ذریعے حالات کو معمول پر لائیں۔ امریکی مندوب نے یہ امکان بھی ظاہر کیا تھا کہ صدر ٹرمپ اس ضمن میں ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن بھارت نے یہ پیشکش بھی فوری طور پر مسترد کر دی اس سے پہلے سبکدوش ہونے والے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور موجودہ سیکریٹری جنرل بھی یہ تجویز پیش کر چکے ہیں لیکن بھارت نے ہمیشہ ہی ایسی تجاویز مسترد کی ہیں، امریکی صدر ٹرمپ کی تازہ ترین تجویز کو بھی قبول نہیں کیا گیا۔ ان حالات میں مذاکرات کا تو کوئی امکان نہیں لیکن کشمیری عوام اپنے جوش و جذبے سے جو پیغام بھارتی قیادت اور عالمی برادری کو دے رہے ہیں اسے زیادہ عرصے تک نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں ہوگا اور نہ ہی اس معاملے کو اب جوں کا توں رکھا جا سکتا ہے کشمیر کے مسئلے کا حل بہر حال تلاش کرنا ہوگا۔
چند دن پہلے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا تھا کہ بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت مل جائے گی۔ یہ دعویٰ کرنے سے پہلے انہیں سوچنا چاہئے کہ ان کا ملک مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی جو مٹی پلید کر رہا ہے اور انسانی حقوق کی جو کھلم کھلا خلاف ورزیاں کر رہا ہے اس کے بعد اسے کیا حق ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی رکنیت کا نام بھی لے۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ سب سے پرانے ایجنڈے کے طور پر موجود ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے اقوام عالم کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ کشمیر میں ریفرنڈم کرایا جائیگا۔ بھارت اس وعدے سے مکر گیا اب ایسے الیکشن کو ریفرنڈم کا متبادل قرار دیا جا رہا ہے جس میں ووٹر ووٹ ڈالنے ہی نہیں آئے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ پہلے بھارت کو اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کا پابند بنائے، اس کے بعد کسی ایسے معاملے پر غور کرے۔ پاکستان نے اقوامِِ عالم سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے روکا جائے۔ اس نے ظلم و ستم کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس سے باز رکھا جائے۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز کا تشدد نہ روکا گیا تو حالات مزید خراب ہوں گے اس لئے اقوامِ متحدہ کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔
اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے پلیٹ فارم سے انسانی حقوق کی علمبرداری اور تحفظ کو ضروری قرار دیئے جانے کی باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہوا۔ اسے قول وفصل کے تضاد کی انتہاہی کہا جائیگا۔پچھلے ستر سال سے کشمیری اپنے عزم سے تحریک آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ان کی عظم قربانیوں کی تاریخ انسانی حقوق کے تحفظ کی باتیں کرنے والوں کے لئے بہت بڑا چیلنج ہیں ایک بار پھر کشمیری حریت پسندوں نے اپنے آٹھ ساتھیوں کی شہادت دیتے ہوئے عالمی ضمیر کو جھنجوڑا ہے۔ سوال یہ ہے اقوام متحدہ ہو یا عالمی سطح پر آزادی کی حمایت کرنے والے ملکوں کا پلیٹ فارم ، کیامسئلہ کشمیر اسی طرح اُن کے لئے چیلنج بنا رہے گا؟ آخر عالمی برادری کو نوٹس لے کر بھارت کو کشمیریوں کی تحریک کے مطابق حق خود ارادیت دینے کے لئے مجبور کرے گی۔