دو جیتی جاگتی تصویریں

دو جیتی جاگتی تصویریں
دو جیتی جاگتی تصویریں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لینن مورینو 19مارچ 1953کو ایکواڈا میں ایک ٹیچر کے گھر پیدا ہوا ،یہ ایک مڈل کلاس فیملی تھی۔اس نے تعلیم سمیت زندگی کے تمام مراحل عام حالات میں طے کیے۔ مورینواپنے کیرئیر کے درمیان میں ایک حادثے کا شکار ہو گئے۔1998میں اسے ڈاکوؤں نے اس وقت گولیاں مار کر زخمی کردیا جب وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک ہوٹل سے روٹی خرید رہے تھے۔ ڈاکوؤں کی فائرنگ سے مورینو کی دونوں ٹانگوں میں گہرے زخم آئے جس کے نتیجے میں اس کا دھڑ مفلوج ہو گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ مسلسل وہیل چیئر پرر ہے انھوں نے ہمت نہیں ہاری وہ اس معذوری کے ساتھ بھرپور زندگی گزارنے کا عزم کرچکے تھے۔۔لینن مورینو ایک پُرامید انسان کی طرح مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کے اندر سے بھی روشنی کی کرنیں تلاش کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ معذور ہونے کے بعد بھی انہوں نے امید سے وابستہ رہنے کے لیے 10 کتابیں تالیف کیں۔معذور ہونے کے بعد انہیں اقوام متحدہ میں معذوروں کا سفیر مقرر کیا گیا۔ انہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر امید سے تعلق مضبوط رکھا۔
مورینو نے اپنی تمام تر توجہ معذوری کی بحالی کے اقدامات پر مرکوز رکھی۔ انہوں نے معذروں کی بحالی کے لیے ایک طبی مرکز قائم کیا اور ان کی دیگر ضروریات کی تکمیل کے لیے ہرممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی۔2012میں مورینو کومعذور افراد کے لیے خدمات پر نوبل انعام کے لیے نامز د کیا گیا۔
مورینو آگے بڑھتے رہے حالیہ صدارتی انتخابات میں حصہ لیا یہ اپنی نوعیت میں تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے جب ایک ایسا شخص جو کئی سالوں سے وہیل چئیر سے جڑا ہو صدارت کی دوڑ میں شامل ہو۔مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ ہوا کہ وہ انتخابات جیت گئے جی ہاں،جنوبی امریکا کے ملک جمہوریہ ایکواڈورکے صدر،کسی معذور شخص کا صدارت کا منصب سنھبالنے کا یہ پوری دنیا میں انوکھا واقعہ ہے جس کی اور کہیں مثال نہیں ملتی۔ آئندہ ہفتے مورینو کی تاج پوشی کی جائے گی جس کے بعد وہ ملک کے صدر بن جائیں گے۔
سننے میں یہ کہانی بہت عام سے لگتی ہے مگر معذوری کو شکست دینا کوئی چھوٹی بات نہیں ۔دوسری کہانی ڈاکٹر خالد جمیل کی ہے ابتدائی تعلیم کراچی سے شروع کرنے والے ڈاکٹر خالد نے میٹرک اور ایف ایس سی کیڈٹ کالج پٹارو سے کیا اورٹاپ پوزیشن حاصل کرتے ہوئے سینٹو سکالرشپ حاصل کیا۔ کیڈٹ کالج میں تعلیم کے دوران ہی انہیں اعلیٰ تعلیمی ریکارڈ کے باعث امریکی حکومت کی طرف سے اعزازملا۔پھر ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں سنگین حادثہ ہوا وہ بتاتے ہیں کہ ’’میں اْن دنوں ایم بی بی ایس تھرڈ ائر کا سٹوڈنٹ تھا،جب میں اور میرا دوست سمیع گاڑی پر جارہے تھے کہ ہمارا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور میری کمر کی ہڈی فریکچر ہوگئی جس کے بعد میں چارپائی سے لگ گیا اور ڈاکٹروں نے میرے والدین کو بتایا کہ اب یہ ساری زندگی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا۔ لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے میرے والدین کی دعاؤں اور میری قوت ارادی کی بدولت میں دوبارہ زندگی کی طرف رواں دواں ہوگیا‘‘ڈاکٹر خالد چلتی پھرتی ’’انسپائریشن ‘‘ہیں۔ڈاکٹر صاحب کو پوری دنیا میں ’’بگ برادر‘‘ کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ڈاکٹر صاحب مجھے کسی بھی طور پر نارمل نہیں لگتے آپ امیر ہیں یا غریب کانسٹیبل ہیں یا آئی جی ڈاکٹر صاحب ہمیشہ آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار نظر آئیں گے ۔انہیں راستے میں چلتے راہگیر روک کر اپنا مسئلہ بتاتے ہیں ڈاکٹر صاحب منٹوں میں راہنمائی کردیتے ہیں ۔ڈاکٹر خالد جمیل کمال کی حد تک اچھا لکھتے ہیں اب تک متعدد کتابیں تحریر کرچکے ہیں،ڈاکٹر صاحب ان لوگوں میں سے ہیں۔
جنہوں نے معذوری کو اپنے مشن کے آڑے نہیں آنے دیا اور آج ہزاروں انسان ان سے مستفید ہورہے ہیں۔انہیں ان کی انسانیت کی بے مثال خدمت کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے ستارہ امتیازسے نوازا ہے۔میرے سامنے دو جیتی جاگتی تصویریں ہیں ایک تصویر اس معاشرے کی ہے جس کے بارے میں ہم روز گلے شکوے کرتے نظر آتے ہیں۔ہم سسٹم سے،لوگوں سے ،مشکلات سے بیزار ہوچکے ہیں ہم ان تکالیف کو اپنی قسمت کا حصہ سمجھ بیٹھے ہیں ،ہم مسائل کے حل کی بجائے مسئلے کو اگنور کرنے کی روایت اپنائے ہوئے ہیں۔اس وقت جب مایوسی آپ کو چاروں طرف سے گھیر لے اور مشکل میں کچھ سجھائی نہ دے تو اس لمحے میں لینن مورینو اور ڈاکٹر خالد جمیل کی کہانی ضرور پڑھیے گا۔۔۔!

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -