وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 30ویں قسط
توقیر نے لمبا سانس کھینچا اور پھر اوپر کی طرف دیکھا’’یا اللہ یہ سب کیا ہے ہمیں راستہ دکھا۔‘‘
ظفر، توقیر کے قریب آیا’’تم پریشان نہ ہو ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔۔۔جو بھی حقیقت ہے۔ ہمارے سامنے آجائے گی۔ پھر ہم واپس جاتے ہی کسی عامل سے رجوع کریں گے۔ حوریہ کا مسئلہ سائیکاٹرسٹ کا نہیں ہے۔۔۔اسے عامل کی ضرورت ہے۔‘‘
توقیر خاموش ہوگیا۔۔۔اس بات کے بعد اسے بھی یقین ہونے لگا تھا کہ کوئی ایسا راز ہے جس سے وہ سب غافل ہیں۔
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 29ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
***
ماریہ اور ظفر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ ظفر نے ماریہ سے اپنا رشتہ نہیں توڑا تھا۔ مگر ماریہ کے لیے اس کے دل میں جو رنجش تھی وہ رنجش بھی وہ ختم نہیں کر سکا تھا۔ وہ ماریہ کے وشاء کے ساتھ بدترین سلوک کو کبھی فراموش نہ کر سکا۔ مگر شمعون کی موت کے بعد اس احساس سے کہ اس کو اس کے کیے کی سزا مل گئی ہے اس نے ماریہ سے اپنا سلوک کچھ بہتر کر لیا تھا۔ ماریہ بھی شمعون کی موت کے بعد خاصی بدل گئی تھی۔ اس نے ظفر سے کوئی بار معافی مانگی لیکن ظفر اسے دل سے کبھی معاف نہ کر سکا۔ وہ وشاء کے بارے میں جاننا چاہتا تھا اور ابھی اصل حقیقت پر پردہ پڑا ہوا تھا اس لیے میاں بیوی کے فاصلے ابھی ختم نہیں ہوئے تھے۔
ماریہ بستر پر دراز ہوگئی اور ظفر صوفے پر اپنا لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا۔
ماریہ کو تھکاوٹ تھی مگر اسے نیند نہیں آرہی تھ۔ ایک عجیب سا خوف اس کے حواس پر طاری تھا۔۔۔بے چینی سے کروٹیں بدلتے بدلتے اس کی آنکھ لگ گئی۔
ظفر اپنے کام میں مصروف تھا تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد ماریہ نیند سے ہڑبڑا کے اٹھ گئی۔ ظفر اپنا لیپ ٹاپ چھوڑ کر جلدی سے اس کی طرف بڑھا’’کیا ہوا؟‘‘
ماریہ کا حلق سوکھ رہا تھا۔۔۔ظفر نے اسے پانی پلایا’’کیا کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیا ہے۔‘‘ ظفر نے پوچھا۔
’’ڈراؤنا خواب کیا دیکھنا، پورے ہوش و حواس میں اردگرد ہونے والے جو خوفناک واقعات دیکھ رہی ہوں باربار ان کا خیال سونے نہیں دیتا۔ مشکل سے آنکھ لگی تھی تو شمعون کی جلی ہوئی لاش سامنے آگئی۔‘‘
ظفر نے ٹھنڈی آہ بھری’’ہاں۔۔۔اب تو مجھے بھی دہشت محسوس ہونے لگی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی شیطانی مخلوق ہمارے آس پاس ہے۔ وہ مختلف روپ دھار کر ہم پر حملہ بھی کر رہی ہے مگر ہم کچھ بھی نہیں کر رہے۔‘‘
ماریہ ظفر کے قریب ہو کے بیٹھ گئی۔’’تمہیں یاد ہے جب تابش اور مہک کا قتل ہوا تو حوریہ اس وقت ہمارے ساتھ نہیں تھی وہ اچانک کہیں غائب ہوگئی تھی اور پھر وہ ہمیں بیہوشی کی حالت میں ملی۔اس وقت تابش اور مہک کے قتل کی خبر بھی ملی۔ میں تو کہتی ہوں، واپس چلتے ہیں اس سے پہلے کہ کوئی اور واقعہ ہو ۔ ہمیں فوراً حوریہ کو کسی Exorcistکو دکھانا چاہئے، مزید دیر نہیں لگانی چاہئے۔‘
ظفر ، ماریہ کی بات سن کر سوچ میں پڑگیا۔’’بس آپ صبح ہی توقیر بھائی سے بات کریں۔ ہم کل ہی واپس چلتے ہیں۔‘‘ ماریہ نے کہا۔
’’ابھی تم سو جاؤ۔ میں کل توقیر سے بات کرتاہوں۔ شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔‘‘ ظفر نے کہا۔
ماریہ آنکھیں موند کر لیٹ گئی مگر ظفر، تابش اور مہک کی اموات کے بارے میں سوچتا رہا۔
’’مجھے بھی یہ بات غیر معمولی لگی تھی کہ تابش اور مہک کے قتل کے وقت ہی حوریہ ہمارے بیچ نہیں تھی۔‘‘ صبح ہوتے ہی ظفر نے توقیر سے بات کی اور ان سب نے طے کیا کہ دوپہر کے بعد وہ واپسی کے لیے نکل جائیں گے۔
رخسانہ اس فیصلے سے کافی مطمئن تھی۔ وہ اور ماریہ واپسی کے لیے پیکنگ کرنے لگیں۔ پیکنگ کے بعد وہ سب سیر و تفریح کے لیے نکل گئے۔ دوپہر کا کھانا بھی انہوں نے باہر سے ہی کھایا۔۔۔تقریباً چار بجے وہ واپس ہوٹل پہنچے۔ انہوں نے ہوٹل کا بل ادا کیا اور ساڑھے چار بجے وہ ہوٹل سے واپسی کے لیے روانہ ہوئے۔
کسی کے چہرے پر بھی واپس کے لیے اداسی کے تاثرات نہیں تھے۔۔۔سوائے حوریہ کے۔ وہ سب ایسے تھے جیسے کسی مصیبت سے بری الذمہ ہو رہے ہیں۔ حوریہ تو جیسے خوشی اور غم ہر طرح کے تاثرات سے بے نیاز تھی۔ وہ تو جیسے اپنے آپ میں ہی الجھی رہتی تھی۔
وہ خوبصورت پہاڑوں کی وادی سے گزر رہے تھے۔ ماریہ اور رخسانہ اس طرح سہمی بیٹھی تھیں۔ جیسے ان پہاڑوں پر آسیب بستے ہیں جو کسی وقت ان پر حملہ کر دیں گے۔ دونوں گاڑیاں پہاڑوں کے وسط سے گزر رہی تھیں۔ سانپ جیسی لہر یہ سڑک جس نے ایک پہاڑی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا بھول بھلیوں جیسی معلوم ہو رہی تھی۔
توقیر نے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے ڈیک لگا لیا۔ توقیر کی گاڑی آگے تھی اور ظفر کی گاڑی اس سے پیچھے تھی۔ توقیر نے ونڈو سکرین سے باہر جھانکا۔’’واہ۔۔۔کیا خوبصورت نظارہ ہے۔ رخسانہ دیکھو کتنی خوبصورت آبشار ہے یہاں کچھ دیر کے لیے اترتے ہیں۔‘‘
رخسانہ نے کھڑکی سے باہر دیکھے بغیر نفی میں سر ہلایا۔’’ہمیں بس کہیں نہیں رکنا۔‘‘
’’جیسا آپ کا حکم۔۔۔‘‘ توقیر گاڑی چلاتا رہا۔ اس نے سائیڈ مرر سے دیکھا کہ ظفر نے آبشار کے قریب گاڑی روک دی۔
اب تو ان کے ساتھ گاڑی روکنا توقیر کی مجبوری تھی۔ اس نے گاڑی ریورس کی اور اپنی گاڑی ان کی گاڑی کے ساتھ ہی پارک کر لی۔ توقیر اور اس کی فیملی گاڑی سے باہر نکلے تو ظفر نے توقیر کی طرف دیکھا’’یار! اتنی پیاری جگہ چھوڑ کر تم آگے بڑھ رہے تھے۔‘‘
’’دل میں تو آیا تھا کہ رک جائیں لیکن جب واپسی کا ارادہ کر لیا ہے تو اس طرح ہمیں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔‘‘ توقیر نے ظفر کے قریب آتے ہوئے کہا۔
ماریہ اور ساحل گاڑی سے باہر نکلے۔’’کیا بات ہے ان جاذب نظر نظاروں کو کون نظر انداز کر سکتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر ساحل گاڑی سے اپنا ہینڈی کیم نکال کر لے آیا۔
رخسانہ اور حوریہ بھی گاڑی سے باہر آگئیں۔رخسانہ نے پہاڑی کی چوٹی تک دیکھا جہاں سے تیز رفتار پانی کے دھارے کٹاؤ دار پتھروں کے نشیب و فراز سے چھن چھن کی آواز سے ٹکراتے ہوئے پورے جوش کے ساتھ گول پتھروں پر برس رہے تھے۔
’’قدرت کے کرشمے دیکھو کیسے ان خشک پتھروں سے پانی کے دھارے نکلتے ہیں۔‘‘
ظفر اور توقیر رخسانہ کے قریب آئے۔’’یہ پہاڑ کافی پیچھے تک پھیلا ہوا ہے۔ جہاں پہاڑ کے مختلف حصوں سے چھوٹی چھوٹی آبشاریں پھوٹ رہی ہیں۔‘‘
’’رخسانہ نے ساحل اور ماریہ کوپکارا۔’’آؤ۔۔۔پہاڑ کے دوسری طرف چلتے ہیں۔‘‘
ماریہ نے ہاتھ سے نفی کا اشارہ کیا۔ آپ لوگ جائیں، میں اور ساحل ادھر ہی ٹھہریں گے۔‘‘
ساحل جو مووی بناتے ہیں مصروف تھا اس نے بھی کہا’’آنٹی آپ لوگ جائیں ہم کچھ دیر بعد آتے ہیں۔‘‘
ظفر ، توقیر، رخسانہ اور حوریہ دوسری جانب چلے گئے۔ ماریہ ساحل سے مخاطب ہوئی۔’’جاؤ ذرا گاڑی سے موبائل تو لے آؤ۔‘‘
’’آپ میرا یہ کیمرہ پکڑیں۔ ویڈیو بن رہی ہے Stopمت کرنا بس اسی ویو پر سیٹ رکھیں۔’’ساحل ماریہ کو کیمرہ تھما کر گاڑی سے موبائل لینے چلا گیا۔ اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور موبائل ڈھونڈنے لگا۔(جاری ہے )
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 31ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں