میری ڈائری کے چند اوراق (3)
3ستمبر 1977ء
آج سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو کراچی میں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ خبر میں نے تقریباً ساڑھے تین بجے ا س وقت سنی جب میں فلم ’’تنِ بادشاہ‘‘ دیکھنے اوپر سکندر ہال میں جا رہا تھا۔ صوبیدار میجر خالق نے یہ خبر کسی کو سنائی اور میرے کان میں بھی پڑ گئی۔ پھر جب ہال میں داخل ہوا تو کمانڈانٹ اور چیف انسٹرکٹر پہلے سے وہاں بیٹھے تھے اس لئے اس خبر پر مزید تبصرہ نہ ہو سکا۔۔۔ ویسے تو یہ سیاسی معاملہ ہے اور آرمی میں اس پر کھلے عام بات چیت کرنے کو DisCourage کیا جاتا ہے لیکن FIU (فیلڈ انٹیلی جنس یونٹ)والوں کو بھی معلوم ہے کہ اس موضوع پر ساری قوم اور فوج دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ مارشل لاء حکام کا اپنا موقف ہے، وہ شائد درست بھی ہو گا لیکن جب تک کسی ملزم پر جرم ثابت نہ ہو جائے اس کو نہ تو مجرم قرار دینا چاہیے اور نہ رائے عامہ کو گمراہ کرنا چاہیے۔
فلم چلتی رہی اور میں سوچتا رہا کہ ہم پاکستانی شائد ایک بڑے بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔یہ Movieسخت بور تھی۔ اگر پروٹوکول مانع نہ ہوتا تو میں پہلے 15منٹ ہی میں اٹھ کر ہال سے باہر نکل جاتا۔
افطاری سکندر ہال سے واپس آکر میس میں کی اور 8بجے والی خبروں سے بھٹو کی گرفتاری کی تصدیق ہو گئی۔ مجھے معلوم نہیں اس پر عوام کا ردِعمل کیا ہوتا ہے اور انتخابات پر کیا اثر پڑتا ہے لیکن اس جیسے لیڈر کی گرفتاری یقیناًایک بڑا سانحہ ہے جو پوری قوم (جس میں آرمی بھی شامل ہے) کی خام خیالی کی ایک واضح دلیل ہے۔
بڑی مدت کے بعد ہمیں ایک لیڈر ملا تھا جسے کچھ اس کی اپنی غلطیوں کے باعث اور کچھ ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے چھینا جا رہا ہے۔ کچھ عرصے سے لاہور ہائی کورٹ اس کے پیچھے پڑی ہوئی تھی اور آخر اس کو لے بیٹھی۔ میرا اندازہ ہے کہ اگر انتخاب ہوئے تو پاکستان پیپلزپارٹی برسراقتدار آکر نہ صرف بھٹو کو رہا کروائے گی بلکہ ان عدالتوں کے اختیارات وغیرہ سلب کروا کے دم لے گی۔ یہ بھی کیا تُک ہے کہ ایک عالمی شہرت کا لیڈر توہینِ عدالت جیسے جرم میں قابلِ سزا گردانا جائے۔۔۔ لیکن بہرحال۔۔۔
فاعتبرو یا اولی الابصار
9ستمبر 1977ء
آج شام 5بجے ایبٹ آباد سے مری پہنچا ہوں۔ بے بی کو کئی روز سے 99ٹمپریچر ہے۔ CMH راولپنڈی میں بھی دکھایا لیکن افاقہ نہیں ہوا۔ کرنل (اختر) میڈیکل سپیشلسٹ ہیں ان سے تادیر گفتگو رہی۔ ان کا خیال ہے کہ بچی کا نارمل ٹمپریچر ہی 99ہو سکتا ہے۔
میں نے یہ سنا تو ڈاکٹر صاحب کو کہا: ’’یہ شائد آپ کے فنِ طب کا اظہارِ عجز ہے‘‘۔۔۔ وہ شائد اس جملے کا مطلب نہ سمجھے اور پوچھا آسان زبان میں بتاؤ، میں نے جواب دیا:
This is, perhaps, the excuse for the failure of your profession.
یہ سن کر انہوں نے تسلی دی اور کہا: ’’کیپٹن صاحب! زیادہ فکر نہ کریں۔ انشاء اللہ آرام آ جائے گا‘‘۔۔۔ وہاں سے فارغ ہو کر اسلام آباد آ گئے۔ کسی دوست نے کہا کہ G/6-3 میں میاں عبدالعزیز ’’پُرجی‘‘ کو دکھاؤ۔ وہ کسی وزارت میں ڈپٹی سیکرٹری ہیں اور اللہ توبہ بھی کرتے ہیں۔ان سے ملاقات ہوئی۔ قرآنِ حکیم کی آیات پڑھ کر پھونکتے رہے۔ ان کے چہرے پر غضب کا اطمینان اور سکون دیکھا۔ جب ہم وہاں سے ایبٹ آباد کے لئے روانہ ہوئے تو اہلیہ نے کہا: ’’اب انشاء اللہ بے بی ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔
16ستمبر 1977ء
آج عیدالفطر ہے۔ مری سے ایبٹ آباد آیا ہوا ہوں کہ بچے یہیں ہیں۔ عید کی نماز سہیل (بیٹے) کے ساتھ لیاقت میدان میں ادا کی۔ دوپہر کو PMA سے کافی دوست ملنے آئے اور ہم بھی ان کے ہاں شام کو پہنچے۔
پاک پتن سے محبوب وغیرہ کا انتظار تھا لیکن وہ لوگ باوجود تار دینے کے نہیں آئے۔ شائد کوئی اہم وجہ ہو گی۔۔۔ اپر ٹوپہ سے آتے وقت کمانڈانٹ سے دو دن کی رخصت کی درخواست کی تھی جس کو انہوں نے Reject کر دیا۔ کہنے لگے تم نے پہلے ہی بہت چھٹیاں کر لی ہیں۔
میں نے لاکھ کہا کہ اگر کسی کا بچہ / بچی بیمار ہو تو یہ اس کی مجبوری ہوتی ہے۔ میں نے تو جب سے فوج جوائن کی ہے نو برسوں میں کوئی P Leave (رخصتِ استحقاقیہ) بھی نہیں لی۔ لیکن وہ نہ مانے۔ کہنے لگے عید کے دوسرے دن ایبٹ آباد سے گورنمنٹ بس سروس مری آتی ہے، اس پر واپس آجانا۔۔۔ میں چپکا ہو رہا۔
17ستمبر 1977ء
لاری اڈے سے پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ جو بس مری جاتی تھی، وہ خراب ہو گئی ہے اس لئے آج کوئی گاڑی مری نہیں جائے گی۔ ایبٹ آباد میں کوئی ٹیکسی سروس بھی نہیں۔
میں نے بہت سوچا اور پھر فیصلہ کیا کہ سکوٹر پر مری جاؤں گا۔ ہماری سوزوکی لاہور گئی ہوئی ہے۔ بچوں نے بہت روکا۔ کسی دوست کو بھی یہ کہنا مناسب نہ سمجھا کہ مجھے مری ڈراپ کر آؤ۔ ایبٹ آباد سے مری کا فاصلہ 35،40کلومیٹر ہے۔ راستے کے نشیب و فراز بھی سخت چیلنج ہیں۔
لیکن میں نے سوچا کہ کوشش کرنے میں کیا ہرج ہے۔۔۔ فوجی برساتی اوڑھی کیونکہ رم جھم ہو رہی تھی۔ بریف کیس سکوٹر کی سیٹ پر پیچھے باندھا، کِک لگائی اور اللہ کا نام لے کر آغاز سفر کر دیا۔ تین بجے روانہ ہوا تو نتھیا گلی میں بارش بھی زیادہ ہو گئی اور چڑھائی بھی بالکل عمودی تھی۔
فرسٹ گیئر میں بھی ویسپا جوں کی طرح رینگتا رہا۔ لیکن آخر ایک ڈیڑھ میل کا یہ ٹکڑا کٹ ہی گیا۔ نتھیا گلی میں چائے پی۔ چونکہ کئی بار آیا گیا ہوں، دکاندار پہچانتے ہیں۔ وہ حیران تھے کہ سکوٹر پر اس بارش کے موسم میں اس خطرناک سفر کی تُک کیا تھی؟۔۔۔ ان کو کیا بتاتا؟۔۔۔ کچھ دیر کو بارش رکی تو میں نے نتھیا گلی سے رختِ سفر باندھا۔ لیکن چھانگلہ گلی میں بارش پھر موسلا دھار ہو گئی اور اپرٹوپہ تک ہوتی رہی۔ بہرحال سات بجے شام یہاں پہنچ گیا اور شکر ادا کیا۔
30ستمبر1977ء
میں یہاں 3ماہ کی ERE پر آیا تھا جو الحمدللہ آج ختم ہو رہی ہے۔ کل انشاء اللہ واپس ایبٹ آباد چلا جاؤں گا جہاں فرنٹیئر فورس رجمنٹ سنٹر میں مستقل پوسٹنگ ہے۔ یہ تین ماہ اگرچہ عارضی پوسٹنگ کے تھے لیکن بہت سبق آموز تھے۔ میں چونکہ سٹاف میں ہوں اور سٹوڈنٹ بھی سارے کے سارے آفیسرز ہیں، اس لئے جب بھی کوئی لیکچر دینا ہوتا ہے تو خاصی تیاری کے بعد کلاس روم کا رخ کرنا ہوتا ہے۔ یہاں اپرٹوپہ میں کوئی زیادہ سپورٹنگ مواد بھی دستیاب نہیں۔ بڑی نامکمل سی لائبریری ہے۔ مجھے اکثر GHQ کی سنٹرل لائبریری سے مطالعاتی مواد لانا پڑتا ہے اور دوسرے انسٹرکٹر بھی ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔
مری کے ہیڈکوارٹرز 12ڈویژن کی اسٹیشن لائبریری بھی اتنی زیادہ اَپ ڈیٹ نہیں۔مثال کے طور پر 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ پر لیکچر دینے کے لئے جب تک متعلقہ نقشے نہیں بنائے جاتے، میری تسلی نہیں ہوتی۔یہ نقشے بنوانے کے لئے ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں انٹیلی جنس سٹاف سے رابطہ ناگزیر ہے۔ اسی طرح سلائیڈوں کا مسئلہ بھی ہے۔
میں نے ان 3مہینوں میں جتنے پیسے گھر سے منگوائے ہیں، اتنے پورے ایک سال میں بھی نہیں منگوائے تھے۔ رات رات بھر جاگ کر لیکچر کی تیاری کرنا پڑتی ہے۔ سٹوڈنٹ آفیسرز میں کیپٹن اور میجر رینک کے کئی ایسے آفیسرز بھی ہیں جنہوں نے فارن کورسز کر رکھے ہیں اور موضوعِ زیرِ بحث پر ان کے سوالوں کا جواب دینے کے لئے آپ کو تیار رہنا پڑتا ہے۔۔۔ پھر ہر کورس کی گریڈنگ ہے۔
یہ گریڈنگ ایک سخت آزمائش ہے۔ ہر سٹوڈنٹ کی تمنا ہے کہ اسے By گریڈ ملے۔ کورس رپورٹ جو ہر کورس کے اختتام پر لکھی جاتی اور زیرِ کورس طلباء کو بھیجی جاتی ہے اس کے آخر میں گریڈنگ (Grading) کے خانے میں اس By کا بہت ’’عمل دخل‘‘ ہے۔ B کا تعلق دورانِ کورس آپ کی تحریری استعداد سے ہے اور Y کا تعلق آپ کی تقریری اہلیت سے ہے۔
یہاں مری میں تنہائی ضرور میسر ہے لیکن کچھ پتہ نہیں چلتا کہ رات کب آئی اور صبح کب ہوئی۔ یہاں موسم کا لطف انجوائے کرنے کا جو ارمان دل میں لے کے آیا تھا، وہ ذمہ داریوں کے بوجھ سے ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔
یہاں کیا انسٹرکٹر اور کیا سٹوڈنٹ سب کی حالت ایک جیسی ہے۔ کمانڈانٹ مجھے ازراہِ شفقت JiL کہہ کر بلاتے ہیں۔ کل پوچھ رہے تھے: ’’ہیلو JiL مری میں ویک اینڈ پر نظر نہیں آتے، کہاں غائب رہتے ہو؟‘‘۔۔۔ میں واپس کمرے میں آیا تو لائبریری سے چند کتابیں بھی ساتھ لیتا آیا۔
یہ نہ صرف اس کورس میں بلکہ ملٹری کے تمام کورسوں میں معمول ہے کہ سٹوڈنٹس کے ساتھ ساتھ سٹاف کو بھی مصروف رکھا جاتا ہے۔ کرنل سلیمی اور کرنل ستار کی خواہش ہوتی ہے کہ یہاں تین ماہ کے کورس پر آئے سٹوڈنٹ آفیسرز کی کورس رپورٹ میں گریڈنگ کے خانے میں By یا B+Y لکھا ہونا چاہیے۔ یہ گریڈنگ آپ کی پروموشن اور اگلی پوسٹنگ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
ساحر لدھیانوی یاد آ رہا ہے۔ اس کی ایک نظم کبھی پڑھی تھی جس کا مصرعہ تھا: ’’لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔۔۔‘‘ مری سے اپر ٹوپہ آتے ہوئے 40منٹ کا پیدل سفر ہے اور میں سوچتا رہا کہ ساحر نے اس نظم میں ہندوستانی باشندوں کی انگریز حکمرانوں کے مقابلے میں جو درگت بنائی ہے، وہ کتنی حقیقی اور کتنی اثر انگیز ہے۔ کمرے میں آیا تو شام کے 6بجے تھے۔
بارش ہونے لگی۔ میں نے بیٹ مین کو کہہ رکھا ہے کہ کمرے کی صفائی کرتے ہوئے یہ خیال کیا کرو کہ جو چیز جہاں پڑی ہو، جھاڑ پھونک کرکے وہیں رکھی جائے۔ وہ ابھی باہر کھڑا ہے۔ میں نے اسے کہا ہے کہ رات کا کھانا میس میں نہیں، کمرے میں کھاؤں گا۔11بجے لے آنا۔۔۔ دریں اثناء یہ چند منترے خیالات تھے جو مصرعوں میں ڈھل گئے ہیں:
اب کے پھر موسمِ گل خندہ بہ لب آیا ہے
نکہت و نور سے معمور ہے سارا آنگن
آج ہر دشت و دمن ، سروسمن بن کے کِھلا
پھر وہی بام و درِ گندِ مینائی ہے
نشّہء شوقِ فراواں ہے کراں تابہ کراں
لوگ کہتے ہیں بہار ائی ہے پھر اب کے برس
اب کے پھر قافلہ ء ساز طرب آیا ہے
’’لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بہاروں کے تسلسل، یہ نظاروں کے ہجوم
یہ شبِ نور، یہ تابندہ و رقصندہ نجوم
کاش یہ شام و سحر میرے بھی بس میں ہوتے!
میں کہ افسردہ و بے کیف سے ماحول میں گم
صبح لیکچر ہے بہت بور سا موضوع ہے کوئی
لوگ کہتے ہیں کہ ہم سب ہیں گریڈنگ کے اسیر
’’لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سامنے ڈھیر ہیں بکھری ہوئی امیدوں کے
سہمی سہمی یہ فضا، رات کا یہ پچھلا پہر
یہ کتابیں، یہ رجسٹر، یہ قلم، یہ فائل
یہ مرے سامنے رکھا ہوا بجلی کا چراغ
اور چپ چاپ سی، بے جان سی دیواروں پر
بے زباں، ساکت و خاموش سی تصویروں کی
اک نمائش ہے پہ ہنگاموں سے خالی خالی
ہر طرف بھاگتے، مفرور، گریزاں لمحے
یوں گریزاں ہیں کہ اس کمرۂ شب خواب میں اب
پھر کبھی تابہ ابد لوٹ کے نہ آئیں گے
کاش اس کمرۂ شب خواب کا دروازہ کھلے
اوردرماندہ سی، بے خواب سی آنکھوں کو کبھی فرصتِ دید ملے!
اور میں جھانک سکوں، کمرۂ شب خواب سے باہر بھی کبھی
دور اُس پار کہیں موسمِ گل برپا ہے
لوگ کہتے ہیں، اسے جانِ بہاراں کہیے
’’لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم تو اس موسمِ گلرنگ و فسوں کار میں بھی
برگِ آوارہ کی مانند زبوں روز رہے
قلّہء کوہ پہ آکر بھی زمیں دوز رہے
لاکھ چاہا تھا کہ بیگانہ ء فردا ہو جائیں
’’امتحان اور بھی باقی ہوں تو یہ بھی نہ سہی‘‘
لیکن اے حیف کہ ہم سب کے ہیں گریڈنگ کے اسیر
لوگ کہتے ہیں کہ BY تو آنا چاہیے
’’لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[آج 42سال بعد اس نظم کو دیکھتا ہوں تو بعض مصرعے تبدیل کرنے کو جی چاہتا ہے۔ بعض الفاظ و مرکبات بھی بری طرح کھٹکتے ہیں مثلاً قافلہ ء سازِ طرب، بورسا موضوع، بجلی کا چراغ وغیرہ۔۔۔ لیکن اگر تبدیلی کر دوں تو پھر اورجنلٹی (Originality) نہیں رہے گی]
(باقی آئندہ)