جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر سینیٹر سراج الحق کیلئے نئی ٹیم کا انتخاب بڑا چیلنج
لاہور(تجزیہ ؛۔میاں اشفاق انجم )نو منتخب امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کیلئے آئندہ 5سال کیلئے نئی ٹیم کا انتخاب بڑا چیلنج،موجودہ نائب امراء، سیکریٹری جنرل،ڈپٹی سیکریٹری جنرلز کو برقرار رکھنا ہے یافارغ کرنا ہے مشاورتی عمل کے لیے مرکزی شوریٰ کااہم اجلاس 25اپریل کو طلب کر لیا گیا،40ہزار سے زائد مرد، خواتین ارکان جماعت اسلامی دوسری دفعہ حلف اٹھانے والے امیر سے تنظیم کا تحرک،عہد رفتہ کی بحالی کے لیے پُر امید،اس کا سو فیصد انحصار ٹیم کے چناؤ پر ہو گا،گزشتہ5سال سے کام کرنے والی ٹیم جاری رکھتے ہیں یا نئے با صلاحیت چہرے متعارف کراتے ہیں،جماعت اسلامی کے دستور میں اختیارات کا منبع امیر اور سیکرٹری ہوا کرتے ہیں اس لیے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ سراج الحق کی طرف سے ٹیم کے انتخاباب سے ان کے مستقبل کے اہداف کا تعین ہو سکے گا،گزشتہ 5سالہ ٹیم کی کارکردگی کا سامنے رکھتے ہوئے بزرگ نائب امرا کے ریٹائر ہونے کچھ نئے بنانے اور بعض کو جاری رکھنے کی خبریں ہیں،لیاقت بلوچ ہی سیکرٹری جنرل رہتے ہیں یا نیا سیکرٹری جنرل آتا ہے، موجودہ سیکرٹری جنرل کو مرکزی نائب امیر بنانے ،راشد نسیم،امیر العظیم ،اظہر اقبال حسن ،ڈاکٹر معراج الھدیٰ صدیقی میں سے ایک کو سیکرٹری جنرل بنانے کے حوالے سے جماعتی حلقوں میں مختلف ناموں پر بحث جاری ہے،موجودہ نائب امیر راشد نسیم اسلامی جمعت طلبہ کے سابق ناظم اعلیٰ ہونے کے ساتھ گزشتہ الیکشن میں کراچی سے 26ہزار سے زائد ووٹ لینے والی واحد مرد درویش شخصیت ہیں،ڈاکٹر معراج الھدیٰ صدیقی بھی کراچی جمعیت کے سابق ناظم امیر کراچی جماعت اسلامی رہے ہیں،امیر العظیم سابق ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ ساتھ سابق امیر لاہور ،سابق مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہے ہیں،اس وقت امیر صوبہ پنجاب وسطی کے ساتھ ترجمان جماعت اسلامی پاکستان بھی ہیں،اظہر اقبال حسن جمعیت کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ جماعت اسلامی پنجاب کے بھی سیکرٹری جنرل رہے ہیں اس وقت ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی ہیں،سراج الحق کے ساتھ جمعیت میں معتمد عام رہے ہیں،کچھ حلقے کراچی کے امیر نعیم الرحمن اور سابق امیر صوبہ پنجاب میاں مقصود احمد کو بھی مرکز میں اہم ذمہ داریاں ملنے کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں البتہ پسند نہ پسند کا عنصر ہر جگہ موجود ہے ،کچھ حلقے حلف کی تقریب میں امیر جماعت اسلامی کی تقریر کے بعد اندازے لگارہے ہیں،کچھ نہیں بدلے گاسب ایسے ہی چلے گا جیسے گزشتہ 5سال میں چلا ہے کیونکہ شخصیات اہم ہو گئی ہیں،ادارے غیر موثر کوئی کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتا اس لیے زیادہ امیدیں وابستہ کرنا درست نہیں۔
بڑا چیلنج