آن لائن کلاسوں کے لئے تجاویز 

آن لائن کلاسوں کے لئے تجاویز 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پہلی سے آٹھویں کلاس تک سکول 28 اپریل تک بند رہیں گے۔این سی او سی کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ پنجاب کے 13 متاثرہ اضلاع میں پہلی سے آٹھویں جماعت تک کی کلاسز آن لائن ہوں گی، 19 اپریل سے نویں سے بارہویں جماعت کے بچے سخت ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے سکولوں و کالجوں میں آئیں گے۔28 اپریل کو جائزہ لیا جائے گا کہ سکول عید تک بند کرنے ہیں یا نہیں۔ 


کورونا نے ہمیں ایک سچائی سے روشناس کرایا ہے کہ روایتی کلاس روم کی اہمیت کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نصابی و غیر نصابی سر گرمیوں میں حصہ لینا اور لوگوں سے ملنا جلنا طلبہ کے لیے بہت ضروری ہے۔ کورونا کے باعث اب ہمیں آن لائن لرننگ کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوا ہے۔ آن لائن لرننگ سسٹم کے باعث لاک ڈاؤن کے باوجود بعض طلبہ کی پڑھائی کا قطعی حرج نہیں ہو رہا۔ یہ اساتذہ اور طلبا کے لیے نیا تجربہ ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والے دور میں ہم اس آن لائن ٹیچنگ ماڈل سے مستفید ہو سکیں تو ہمیں جلد از جلد اس کی خامیوں پر قابو پانا ہوگا۔ 


ابھی تک پورے پاکستان میں کسی بھی سافٹ ویر ہاؤس یا ایپ ڈیویلپر نے زوم، سکائپ یا گوگل ہینگ آوٹس جیسی ایپ تیار نہیں کیں۔ سکائپ استعمال کرتے وقت اکثر پکسل خراب ہو جاتے ہیں اور اس حد تک خراب ہوتے ہیں کہ سامنے والا فرد مکمل غائب ہوجاتا ہے۔ زوم کی بات کریں تو ہے تو وہ بہت اچھی ایپ لیکن اس کا مفت سیشن صرف چالیس منٹ کا ہوتا ہے۔ یعنی چالیس منٹ بعد کال منقطع ہو جاتی ہے۔ تمام تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ اپنے تمام اساتذہ کو زوم کی ممبر شپ لے کر دیں تا کہ طالب علموں کی پڑھائی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ چند دن قبل لاہور میں بارش ہو رہی تھی۔ ہمارے استاد نے آن لائن کلاس کے لیے دس بجے کا وقت مقرر کیا۔ کلاس کے شروع سے لے کر اختتام تک نہ تو کسی کو کسی کی تصویر نظر آئی اور نہ ہی کسی کو کسی کی آواز سنائی دی۔یہ مسئلہ پچھلے سال سے چلتا آ رہا ہے۔ کسی ایک بچے یا استاد کا انٹرنیٹ خراب ہونے کے باعث سب کو اس کی ٹوٹی پھوٹی آواز سن کر سوچنا پڑتا ہے کہ آخر وہ کہنا کیا چاہ رہا تھا۔ جن حالات میں کسی کی آواز ہی نہیں سمجھ آتی تو لیکچر کیا خاک سمجھ آئے گا؟ اس حوالے سے پی ٹی سی ایل اور تمام موبائل نیٹ ورکنگ کمپنیز کو چاہیے کہ فوری اقدام کریں۔ کم از کم لاک ڈاؤن کے حالات میں جب طلبہ کو تیز رفتار نیٹ درکار ہے۔ دو ایم بی کے نرخوں میں پانچ ایم بی سپیڈ کی سروس دیں۔ وائی فائی سگنل بے شک دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں نہیں آتے ہوں گے مگر فون سگنل تقریباً ہر جگہ ہی آ جاتے ہیں۔ ایسے میں اگر سروس فراہم کرانے والے تمام نیٹ ورکس سٹوڈنٹ پیکج متعارف کرادیں تو تمام طلبہ کو بڑی آسانی ہو جائے گی۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی لیپ ٹاپ سکیم کے ذریعے نہ جانے کتنے غریب اور مستحق طلبہ کو لیپ ٹاپ دیے گئے۔ اگر ابھی تک وہ سکیم چل رہی ہوتی تو ایک غریب جو  لیپ ٹاپ کی استطاعت نہیں رکھتا، میرٹ پر آکر لیپ ٹاپ حاصل کر سکتا تھا۔ کچھ ایسے طلبہ بھی ہیں جو یونیورسٹی میں ہیں مگر لیپ ٹاپ کی استطاعت نہیں رکھتے،ان کی کتنی مدد ہو جاتی۔ موجودہ حکومت نے دعوے تو بہت کیے۔ وزیراعظم نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ پرائم منسٹر ہاؤس کو یونیورسٹی بناؤ ں گا، لیکن سب دھرے کا دھرا رہ گیا۔ حکومت سے درخواست ہے لیپ ٹاپ سکیم دوبارہ شروع کی جائے تاکہ غریب طلبا بھی آن لائن لرننگ سیشن میں بھر پور حصہ لے سکیں۔ 


سخت اساتذہ سے بچے ہمیشہ جان چھڑواتے ہیں۔ فزیکل کلاس روم میں بھی جب کوئی سخت ٹیچر کلاس میں داخل ہوتا تھا تو طلبہ کو چپ لگ جاتی تھی اور کوئی بھی طالب علم ان سے ایک سوال دوبارہ  پوچھنے کی جرات نہیں کرتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ اس مضمون میں مارکس ہمیشہ کم آتے تھے۔ اب سوچیں اگر فزیکل کلاس روم میں اتنا مسئلہ ہوتا ہے تو آن لائن والوں کا کیا حال ہوتا ہوگا۔پچھلے سمسٹر میں ہماری ایک استاد تھیں جو کافی سخت مزاج تھیں۔ وہ ایک سوال کو دو بار سننا پسند نہیں کرتی تھیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی کلاس میں کافی بچوں کا خراب گریڈ آیا۔ اساتذہ کو سمجھنا ہوگا کہ جس طرح ان کی لیے یہ آن لائن سسٹم ایک سر درد بنا ہوا ہے ویسے تمام طالب علموں کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ جیسے تمام اساتذہ نے روزانہ کی بنیاد پر پانچ کلاسوں کو پڑھانا ہوتا ہے بالکل اسی طرح تمام طلبہ کو بھی الگ الگ مضامین کی پانچ کلاسیں لینی ہوتی ہیں۔ جس طرح اساتذہ کو بچوں کی اسائنمنٹس چیک کرنی پڑتی ہیں ٹھیک اسی طرح طلبہ کو ہر مضمون کی الگ اسائنمنٹ تیار کرنی پڑتی ہے۔ لہٰذا اساتذہ کو چاہئے کہ وہ اپنے لہجے میں ذرا نرمی لائیں،اساتذہ اور طلبہ کو اس وبا کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ چلنا ہو گا تاکہ تعلیم صحیح معنی میں حاصل کی جا سکے۔ جدید مسائل کے لئے جدید حل کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور جیسے ہی پیپر شروع ہوتا ہے کتاب کھل جاتی ہے۔ انتظامیہ نے اس کا یہ حل نکالا کہ پرچہ حل کرنے کے لیے کم ٹائم دیا جائے لیکن  ایک ٹیب پر پرچہ کھلتا ہے وہیں دوسرے ٹیب پر گوگل اور میرا مشاہدہ ہے ایسا کوئی سوال نہیں جس کا گوگل پر جواب نہ ہو۔ بعض طلبہ نے اسائنمنٹس بنانے کے لیے نیا کاروبار شروع کیا ہے۔ دو ہزار روپے دو اور اسائنمنٹ بنواؤ۔ اس بے ایمانی اور چالاکی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ غیر مستحق بچے میرٹ پر آ کر مستحق کا حق مارنے لگ گئے ہیں۔ آنکھوں دیکھا واقعہ ہے کہ دو نالائق جاننے والوں نے انہی ہتھکنڈوں کو استعمال کر کے نفسیات جیسے مشکل کورس میں 95 فیصد نمبر حاصل کیے ہیں۔ تو ان میں اور پڑھنے والوں میں کیا فرق رہ گیا؟ ان طالب علموں سے درخواست ہے کم سے کم اپنا تو خیال کر لیں، کل جب کسی نوکری پر لگیں گے تو وہاں کیسے کام کریں گے۔ جب کچھ پڑھا ہی نہیں تو کام خاک آتا ہوگا اور کسی کا حق مارنے سے اچھا ہے انسان تھوڑی محنت ہی کر لے۔ 


میٹرک اور او اے لیول کے بچوں کے امتحانات کی آمد آمد ہے اور یہ کہنا غلط ہوگا کہ یہ امتحان بچوں کے لیے آسان ہوگا۔ سارا سال آن لائن پڑھ کر ایک دم سے فزیکل امتحان دینا اور وہ امتحان جن کا ویسے ہی بچوں پر بڑا پریشر ہوتا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔ گھبرانے کی بجائے صبر اور ہمت سے کام لیں اور پورے اعتماد کے ساتھ محنت کریں تاکہ اعلی نمبروں سے کامیابی حاصل کر سکیں۔

مزید :

رائے -کالم -