اسمبلی کی بحالی اور ہمارا عدالتی ماضی 

اسمبلی کی بحالی اور ہمارا عدالتی ماضی 
اسمبلی کی بحالی اور ہمارا عدالتی ماضی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ایک مسلمان ہونے کے لئے اقرار  وحدانیت، یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،کے بعد خالق کائنات کی لازمی صفات میں جن پر ایمان لانا جزو ایمان ہوتا ہے وہ عدل ہے۔ خداوند تعالیٰ کی صفت عادل ہونا اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے اور عدل کی اہمیت اسلامی معاشرے میں سب سے زیادہ ہے۔ دنیا جہان میں عوام، عدالت اور عادل سے انصاف کی توقع رکھتے ہیں۔ یعنی عدالت،وہ عمارتیں ہیں جوعدل کی علامت کے طور پر دیکھی جاتی ہیں اور وہ افراد جو وہاں کرسی عدالت پر بیٹھتے ہیں،انہیں عادل، قاضی یا جج کہا جاتا ہے۔ ان دونوں چیزوں میں عمارت اوراس شخص کو عدالت نہیں مانا جاسکتا، جب تک کہ ان سے معاشرے کے اندر ایک احساس آنا شروع ہو جائے کہ انصاف ہو رہا ہے۔ عدل کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کی تعریف کسی مادی شے کے حوالے سے کی جائے۔یہ ایک حس ہوتی ہے کہ جس کی اتنی بڑی قوت ہے کہ اگر اس عمارت سے یا اس شخص سے کوئی فیصلہ آئے اوراس کی خوشبو معاشرے میں ایک ساعت کے اندر پھیل جائے اور اگر اس عمارت، شخص یا اشخاص سے ایسا فیصلہ آجائے جس سے معاشرے میں تعفن، افراتفری،انارکی اور بے چینی پید ا ہو تو نہ ہی وہ عمارت،عدالت کہلاتی ہے اور نہ ہی وہ شخص عادل ہوسکتا ہے۔


 ہماری تاریخ اس قسم کے فیصلوں سے بھری پڑی ہے کہ جہاں نظریہ ضرورت کو اہمیت دے کر حکمرانوں کی مرضی کے مطابق فیصلے کئے گئے اور آئین اور قانون کی من پسند تشریخ کرکے وقتی فائدے حاصل کئے گئے مگر اس کے نتائج کو بعد میں آنے والی نسلوں نے بھگتا اورقوم اب تک بھگت رہی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ پاکستان بننے کے بعد 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا تو اس کے صدر(اسپیکر) مولوی تمیزالدین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سندھ ہائی کورٹ نے اسمبلی تحلیل کو کالعدم قراردے دیا مگر فیڈرل کورٹ میں حکومت نے اپیل کردی۔ تو نظریہ ضرورت کے تحت آئین کی تشریح حکمرانوں کے حق میں کی گئی۔ اس طرح مولوی تمیزالدین کو عدالت سے سوائے مایوسی کے کچھ نہ ملا اوریہ فیصلہ پاکستان کی تاریخ میں آج بھی ہمارے عدالتی نظام پر بدنماداغ ہے۔اس بدنما داغ کو آنے والی عدالتوں نے نظیر کے طور پر استعمال کیا اور حکمرانوں کو اقتدار میں رکھنے کے لئے ان کی مدد کی۔ 


مولوی تمیزالدین کیس کے بعد ایک اور بدترین فیصلہ چھوٹی عدالت سے بڑی عدالت تک ایسا کیا گیا جس کی بدبواور تعفن سے قوم کا عدالتی نظام پر سے اعتماد اٹھ گیا۔ذوالفقار علی بھٹو شہید کیس میں ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک عدل کو اس بری طرح قتل کیا گیا کہ عدالت پاکستانی معاشرے میں گالی بن گئی اور حکمرانوں نے اپنی طاقت کے زور پر عدالت کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو سیاسی حقوق دلانے والی پیپلز پارٹی کے بانی کا عدالتی قتل کیا۔اس کے بعد ضیاء الحق کے دور میں ہی کچھ عدالتوں نے مارشل لائی حکومت کی تائید و توثیق بھی کی۔کچھ ججوں نے انکار کیا اور کچھ ججوں نے آئین کو توڑنے کے حوالے سے ضیا ء الحق کو حق بجانب قرار دیااور اس ناجائز حکومت کو تسلیم کر لیا۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کوصدارتی حکم کے تحت 58(2b) کے ہتھیار سے ختم اور اسمبلی کو تحلیل کیا گیا تو وزیر اعظم نواز شریف عدالت میں چلے گئے۔ اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب نے کچھ عنایت وصول کیں اور میاں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دے دیا اور ایک مہینہ کچھ دن بعد ہی اسمبلی کو بحال کر دیا گیا۔لیکن اسی طرح کے فیصلے کوپیپلز پارٹی نے چیلنج کیا تو ان کی حکومتوں کو عدالتی ریلیف نہ مل سکا۔ یہاں ایک اور واقعہ یاد آتا ہے جب ایک جج جسٹس عبدالقیوم ملک نے اس وقت کی حکمران پارٹی کے رہنماوں کے فون پر بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو سزائیں دیں۔


 ایک بار پھر عدلیہ پر کڑا امتحان اس وقت آیا جب نواز شریف حکومت کو برطرف کرکے جنرل پرویز مشرف نے مارشل لا نافذ کردیا۔بہت سے جج صاحبان مارشل لائی حکومت کے سامنے سرنگوں ہوگئے اورپھر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے ساتھ بھی جوکچھ ہوا ہماری سیاسی اور عدالتی تاریخ کا حصہ ہے۔


 پھرآخر میں ایک ایسا عدالتی سیٹ اپ آگیا جس نے اسٹیبلشمنٹ کے آرڈر پرایک غیر ذمہ دار، ناتجربہ کار اورجذباتی شخص عمران خان کو صادق اور امین کا لقب عطا کر دیا جو کہ بہت بڑی بددیانتی اور توہین تھی۔ صادق اور امین صرف خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لقب ہے، جن کی روئے زمین پر کوئی شخص ہمسری نہیں کر سکتا۔ مختلف مواقع پرسپریم کورٹ نے ایسے فیصلے کئے یا کچھ چیف جسٹس صاحبان نے ماتحت عدالتوں کو اپوزیشن کے لوگوں کو سزا دینے کے لیے دباؤ ڈالا۔ ان میں ایک چیف جسٹس ثاقب نثار ہیں،جن کے دور اختیار میں ایسے ایسے اقدامات کیے گئے کہ جس سے عدلیہ کا چہرہ آج بھی داغدار ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ ججوں کو اوپر سے حکم دیا گیا کہ اپوزیشن کے فلا ں فلاں رہنماوں کوایسی سزائیں دی جائیں اور ہمیشہ کے لیے نااہل قرار پائیں تاکہ وہ انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں۔
پھر حال ہی میں تحریک عدم اعتماد کو ختم کرنے کے لیے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے اقدام کو غیر آئینی سمجھتے ہوئے سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیا۔عوام پریشان رہے کہ چند منٹ کے فیصلے کو ختم کرنے کے لیے بھی چند منٹ ہی لگنے چاہئیں تھے،مگر عوام کو خوش خبری سننے کے لئے چار دن کرب اور غیر یقینی کی صورت حال سے گذرنا پڑا۔البتہ عدلیہ نے اپنے ماضی کے ریکارڈ کے برعکس آئین اور قانون پر مبنی فیصلہ کرکے عوام کو انصاف فراہم کردیا ہے۔اور ماضی کے داغ دھو دیے ہیں۔ امید ہے کہ آئین اور قانون کی حکمرانی کے قیام میں عدلیہ ایسے ہی جرات مندانہ فیصلے کرتی رہے گی!

مزید :

رائے -کالم -