اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف 174 ووٹ لے کر پاکستان کے 23 ویں وزیراعظم منتخب ہو گئے ہیں جبکہ شاہ محمود قریشی کے حق میں کوئی ووٹ کاسٹ نہیں کیا گیا۔ شہبازشریف آج رات 8 بجے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
تفصیلات کے مطابق نئے وزیراعظم کے انتخاب کیلئے اسمبلی کا اجلاس قائم مقام سپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت جاری تھا کہ انہوں نے شاہ محمود قریشی کو اظہار خیال کی دعوت دی، شاہ محمود قریشی نے تقریر کی اور ان کی گفتگو کے اختتام پر پی ٹی آئی کے تمام اراکین اسمبلی اپنی نشستوں پر کھڑے ہوئے اور ’’ آزادی آزادی‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ہال سے باہر چلے گئے، تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی جیسے ہی اٹھ کر جانے لگے تو قائم مقام سپیکر نے بھی اجلاس کی صدارت چھوڑتے ہوئے کہا کہ میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ میں اس سارے عمل کا حصہ بنوں۔ قائم مقام سپیکر قاسم سوری نے اجلاس کی صدارت پینل آف چیئر ایاز صادق کے حوالے کی اور تحریک انصاف کی جانب سے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کی بھر پور قیادت موجود ہے جبکہ تحریک انصاف نے نئے وزیراعظم کے انتخاب کا بائیکاٹ کرتے ہوئے استعفے دینے کا اعلان کر دیاہے ۔ اجلاس میں شرکت کیلئے مہمانوں کی گیلر میں مریم نوازشریف اور حمزہ شہباز بھی موجود ہیں ۔ وزیراعظم کے امیدواروں میں شہبازشریف اور شاہ محمود قریشی کے نام شامل ہیں۔
پاکستان کا وزیراعظم منتخب ہونے کیلئے امیدوار کو 172 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے ، موجودہ صورتحال میں شہبازشریف کی پوزیشن مضبوط دکھائی دے رہی ہے کیونکہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن کی جانب سے 174 ووٹ ڈالے گئے تھے۔
کچھ دیر قبل سابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا جس دوران عمران خان نےاستعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ میں چوروں کے ساتھ اسمبلی میں نہیں بیٹھ سکتا، اگر مجھے اکیلے کو بھی استعفیٰ دینا پڑا تو میں دوں گا۔
پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں متعدد رہنماوں نے عمران خان کو استعفے دے کر میدان خالی نہ چھوڑنے کی تجویز دی تاہم بعدازاں اجتماعی استعفوں کا فیصلہ ہوا اور چیف وہیب عامر ڈوگر نے اراکین اسمبلی سے استعفوں سے دستخط لیئے جو کہ سپیکر کو جمع کروائے جائیں گے ۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مراد سعید نے پہلے ہی اپنا استعفیٰ سپیکر اسمبلی کے حوالے کر دیاہے۔
قائم مقام سپیکر قاسم سوری کی مسترد ہونے والی رولنگ پر وضاحت
قائم مقام سپیکر قاسم سوری نے اپنی سپریم کورٹ کی جانب سے مستر د کی جانے والی رولنگ پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ”میں نے جو فیصلہ کیا ، جن وجوہات کی بنیاد پر کیا ، میں نے محب وطن کی حیثیت سے کیا ، قومی اسمبلی کے سپیکر اور محافظ کے طور پر کیا ، وفاقی کابینہ ، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں مراسلہ زیر بحث لایا گیا،، اس کی تائید کی گئی کہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد غیر ملکی سازش ہے “۔اگر میرے سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت کرتاہوں ، میں نے یہ ایوان آئین کے مطابق چلانے کی کوشش کی ۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کا آغاز کرتے ہوئے قائم مقام سپیکر قاسم سوری نے کہا کہ وفاقی کابین نے 9 اپریل کو مراسلے کو ڈی کلاسیفائی کرنے کا فیصلہ کیا ، میں قائم مقام سپیکر آیاہوں تو یہ مراسلہ میرے ہاتھ میں ہے ، اس مراسلے میں برملا پاکستان کو دھمکی دی گئی ہے ،مراسلہ پاکستان میں عدم اعتماد آنے سے پہلے آیا۔ اس میں آقا کی صاف لکھا گیا کہ عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوتی تو پاکستان کو سنگین حالات کا سامنا کرنا ہو گا ، اگر یہ کامیاب ہوگی تو معاف کر دیا جائے گا ۔
قاسم سوری کا کہناتھا کہ عمران خان کایہ قصور تھا کہ آزاد خارجہ پالیسی، آزا د معیشت کی بات کی ، انہوں نے اسلامو فوبیا کا مقدمہ لڑا، کیا پاکستان آزاد ملک نہیں ہے ، کیا یہ غلامی کرنے کیلئے ملک ہے ، کیا آپ آزاد شہری نہیں ہیں آپ ، پاکستان کے شہریوں سے پوچھتاہوں کہ غلامی کرنی ہے ، عمران خان کو سزا غلامی نہ کرنے کی دی گئی ۔
قائم مقام سپیکر کا کہناتھا کہ میں وفاقی کابینہ کی اجازت سے مراسلہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو سیل کر کے بھیجتا ہوں ، میں نے جو کچھ کیا ، اپنے حلف اور آئین کی پاسداری کرتے ہوئے کیا ، میں کسی دوسرے غیر ملکی کی ایما پر پاکستان کی حکومت کی تبدیلی جو کہ قوم کی عزت اور انا کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ آئین شکنی کے زمرے میں آتا ہے اسے روکنے کیلئے کیا ہے اور روکنے کی کوشش کرتے رہیں ، عدالت کا فیصلہ من و عن تسلیم کیاہے ، گزار ش ہے کہ ہم سب کو اس پر بطور پاکستانی سوچنا چاہیے ،میرے سے کسی کی دل آزاری ہوئی تو میں معذرت کرتاہوں ، میں نے یہ ایوان آئین کے مطابق چلانے کی کوشش کی ہے ۔
شاہ محمود قریشی کا اسمبلی میں اظہار خیال
سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ آج پارلیمنٹ میں ایک طرف ملک کی ایک سوچ کی نمائندگی کرنے والا طبقہ بیٹھا اور ایک طرف ایک اتحاد بیٹھا ہے جو مختلف نظریات کا مجموعہ ہے ، آج پارلیمنٹ میں موجود اس اتحاد میں ذوالفقار علی بھٹو کے قاتل مقتول یکجا دیکھائی دے رہے ہیں انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی قردار کشی کی ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی نظر میں یہ اتحاد ایک غیر فطری ہے وہ اس وجہ سے کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس ایون میں بہت سی جماعتیں یکجاں بیٹھی ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان میں کوئی نظریاتی ہم آہنگی نہیں ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا مفتی محمود صاحب کو اسی اتحاد کی ایک جماعت نے انہیں قومی اسمبلی سے باہر پھینکوایا تھا ۔ کون نہیں جانتا کہ سردار عطااللہ مینگل کو چکی میں پیسا گیا اور ان کو جیل میں زندگی گزارنا پڑی اور آج ان کے صاحبزادے اس ایوان میں بیٹھے ہیں اور میرااشارہ سمجھ گئے ہیں ۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ آج قوم کے سامنے دو راستے ہیں اورقوم کو ایک راستہ اختیار کرنا ہوگا ایک راستہ خودی کا راستہ ہے ایک غلامی کا راستہ ہے ۔ میں شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اپنے پارلیمنٹ کے ساتھیوں کا جنہوں نے اپنی وفاداریاں تبدیل نہیں کیں ،یہ جھکے نہیں بکے نہیں ۔آج پی ٹی آئی نے وہ مقام حاصل کر لیا ہے کہ اس کے نظریات نے عوام کے ذہن میں اپنا مقام بنا لیا ہے ۔
شاہ محمود قریشی نے شہباز شریف پر بھی تنقید کی اور کہا کہ شہباز شریف آج وزیر اعظم بننے کیلئے اپنے آپ کو میدان میں اتار رہے ہیں ، کون نہیں جانتا کہ انہیں مسلط کیا جا رہا ہے اور قوم کا مینڈیٹ ان کے پاس نہیں ہے جوڑ توڑ کر کے ایک عارضی الائنس بنایا گیا جو بکھر جائے گا۔ آج کون نہیں جانتا ملک کے نامزدوزیر اعظم کی لاہور میں پیشی تھی اور ان پر فرد جرم عائد ہونا تھی۔کل شہبا زشریف زرداری صاحب سے ملنے گئے باز گشت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ وہ بلاول کو وزیر خارجہ بنوانہ چاہتے ہیں لیکن میں کہوں گا کہ اگر بلاول شہباز شریف کی وزارت خارجہ قبول کرتے ہیں تو یہ بھٹوکے نواسے شہید بینظیر بھٹو کے بیٹے کو جچتا نہیں ہے ۔