گاؤں کی حدود میں بندوق میں خود ہی اٹھاتا تاکہ آس پڑوس میں ٹور بنی رہے، دروازوں اور کھڑکیوں سے جھانکتی یا اپلے تھاپتی مٹیاروں کی نظر میں رہوں

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:238
گاؤں کی حدود میں تو بندوق میں خود ہی اٹھاتا تھا تاکہ آس پڑوس میں ذرا ٹور بنی رہے اور دروازوں اور کھڑکیوں سے جھانکتی ہوئی یا اپلے تھاپتی ہوئی مٹیاروں کی نظر میں رہوں۔ پھر گاؤں سے باہر نکلتے ہی جب اچانک وہ بندوق مجھے وزنی لگنے لگتی تو میں اپنا بوجھ بھائیوں کو تھما دیتا تھا جو وہ باری باری تبرک سمجھ کراسے ایک سے دوسرے کو منتقل کرتے رہتے تاکہ سب کو اس ولایتی بندوق کو چھونے اور اٹھانے کا مساوی موقع مل سکے۔
ہم اپنے پسندیدہ مقام یعنی نہر کے کنارے طوطے مارتے پھرتے تھے جن کی جان لینے کا بظاہرکوئی مقصد نہ تھا۔ ہم لوگ کچھ دیر تک ان کی لاشیں اٹھائے پھرتے رہتے پھر وہیں پھینک آتے۔ ہماری جھوٹی انا کی تسکین کے لیے یہ معصوم پرندے بلا دریغ اپنی بے لوث قربانیاں پیش کرتے رہتے تھے۔
ایک دن ایسے ہی شکار کی خاطر ہمیں نہر پار کرکے دوسری طرف جانا تھا۔ نہر گہری تو نہیں تھی مشکل سے کمر کمر تک پانی تھا، آرام سے اس میں سے گزر کر دوسری طرف جایا جا سکتا تھا۔ تاہم کپڑوں کو گیلا ہونے سے بچانے کی خاطر وہاں ایک جگہ پر نہر عبور کرنے کے لیے درخت کا ایک تنا رکھا ہو اتھا جو دوسرے سرے پر جا کر دو حصوں میں بٹ جاتا تھا۔ جب سب لوگ اس پر سے گزر کر باری باری نہر پار کر رہے تھے تو میں نے اپنی طرف سے بظاہر عقلمندی کی اور حفظ ما تقدم کے طور پر اپنی غیر ملکی بندوق خود اپنی تحویل میں لے لی کہ مبادا کوئی چھوٹا گوریلا نہر عبور کرتا ہواخود اپنے آپ کو یا میری قیمتی بندوق کو نہر میں نہ پھینک دے۔ جب سب نہر سے گزر گئے تو میری باری آئی، میں تنے پر اکڑ کر چلتا ہوا جب نہر کے عین وسط میں پہنچا تو ایک دم مجھے یوں لگاکہ جیسے سب کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا ہے، اچانک میرا پیر اکھڑا اور توازن خراب ہو گیا، اپنے آپ اور بندوق کو پانی میں گرنے سے بچانے اور متوازن رکھنے کے لیے میں نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھا کر ادھر ادھر لہرائے، لیکن بات بنی نہیں۔ نہر کے اس پار کھڑے گوریلے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے ان کو بھی میرا انجام صاف نظر آرہا تھا، وہ چاہتے تو نہر میں چھلانگ مار کر مجھ سے کم از کم میری قیمتی بندوق توپکڑ ہی سکتے تھے، لیکن وہ غالباً یہ سمجھ رہے تھے کہ میں شاید باہر سے کوئی نیا رقص سیکھ کر آیا ہوں اور وہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس لیے انھوں نے دخل اندازی مناسب نہ سمجھی۔ بھلا ان بے وقوفوں سے کوئی پوچھے کہ کیا ایسے موقعوں پر بھلا کسی کو رقص کی سوجھتی ہے۔ بالآخر سنبھلتے سنبھلتے بھی میں نہر میں لڑھک گیا اور نہ چاہتے ہوئے میری دوربین لگی ہوئی جرمن ڈایانا ایئر گن سب سے پہلے نہر میں گری اور اس کے پیچھے پیچھے میں خود پیٹ کے بل نیچے گیا،نہر کا پانی فٹ بھر اچھلا اور دوسری طرف سے زور کا قہقہہ لگایا گیا جو اس وقت مجھے زہر لگا۔ ان میں سب سے بلند اور مسلسل ہنسی میرے ایک بھائی شکور کی تھی، جو نئے نئے دماغی توازن کھو دینے والے شخص کی طرح بلا وجہ قہقہے لگائے جا رہا تھا لیکن اسے میری مدد کی توفیق نہ ہوئی۔ پھر سب نے مجھے بازو سے پکڑ کر باہر نکال لیا۔ اورجس ڈر سے میں نے اپنا اسلحہ اپنے قبضے میں لیا تھا وہ کام میرے ہی ہاتھوں انجام پایا۔اب نہر میں نہائی ہوئی بندوق کی نال میں سے مسلسل گدلا پانی بہہ رہا تھا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔