1971ء کی جنگ کے متاثرین کی آباد کاری کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب ملک معراج خالد نے رابطہ کمیٹی بنائی جس میں میں نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی نمائندگی کی

مصنف:محمد اسلم مغل
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید
قسط:69
1971 کی پاک و ہند جنگ کے دوران سیالکوٹ بارڈر کے قریب شکرگڑھ کا علاقہ دشمن کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ جو بعد ازاں دونوں ملکوں میں جنگ بندی اور باہمی سمجھوتے کے بعد پاکستان کو واپس مل گیا تھا۔ جنگ میں بہت تباہی ہوئی اور بے شمار لوگ بے گھر ہوگئے۔ اس وقت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشرحسن نے پنجاب حکومت کو ہدایات دیں کہ ان متاثرین کی آبادکاری سے پہلے اس علاقے کی پہلے سے باقاعدہ پلاننگ کر لی جائے۔ اس طرح نئے سرے سے تعمیر مکمل ہونے سے پہلے اس علاقے کے دیہاتوں کو ماڈل گاؤں بنا لیا جائے، جہاں ہر طرح کی سہولیات موجود ہوں۔ اس سلسلے میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ ملک معراج خالد، جو کہ ایک بہت ہی نفیس اور دروِیش صفت شریف انسان تھے، ان کی صدارت میں ایک رابطہ کمیٹی بنائی گئی جس میں میں نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی نمائندگی کی اور ان علاقوں میں ایک تسلسل کے ساتھ آنا جانا شروع کر دیا۔ اس موضوع پر رابطہ کمیٹی کی اکثر میٹنگ ہوتی رہتی تھیں۔ ایسی ہی ایک میٹنگ میں، میرے اور کمشنر لاہور صدیق چوہدری کے درمیان کچھ تکنیکی معاملات پر گرما گرم بحث چل نکلی جس سے ماحول تھوڑا مکدر ہو گیا۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے معاملہ کو رفع کروایا۔میں نے اُنھیں متعلقہ جگہ کا دورہ کرنے کے لیے کہا اور یوں یہ مسئلہ اسی طرح حل ہو گیا جیسا کہ میں نے چاہا تھا۔
جنگ سے براہ راست متاثر ہونے والے علاقوں میں یہ پلاننگ بہر حال کامیاب نہ ہو سکی کیوں کہ وہاں اراضی کی ملکیت کے جھگڑے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ وہاں کے مقامی باشندے بھی ایسے کسی منصوبے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اور پھر ایک اور بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان منصوبوں کو مکمل کرنے کے کئے ایک بڑی رقم درکار تھی جس کا حصول اس وقت مشکل تھا۔ بعد ازاں حکومت کی طرف سے کسی حد تک مالی اورتکنیکی امداد حاصل ہونے کے بعد انہی علاقوں میں آباد کاری کا یہ کام کسی نہ کسی طرح مکمل ہوگیا۔ یہ صوبے کے وزیر اعلیٰ، مختلف اداروں کے اعلیٰ سرکاری افسروں اور مقامی رہائشیوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا میرا ایک بہت نادر تجربہ تھا۔
صدیق چوہدری ایک سخت گیر افسر تھے جو بعد میں ہمارے ہی ڈیپارٹمنٹ کا سیکریٹری بن گئے تھے۔ مجھے خدشہ تھا کہ حالیہ بحث و مباحثہ کی وجہ سے انہوں نے کہیں اپنے دل میں میرے خلاف کوئی رنجش نہ پال رکھی ہو اور اب اسی کو بنیاد بنا کر مجھے پریشان نہ کریں۔ لیکن اس کے برعکس ان کا رویہ میرے ساتھ نہایت اچھا اور پیشہ وارانہ رہا۔ انھوں نے مجھے ترکی کے سرکاری دورے پر بھیجا جہاں میں نے ایک سیمینار میں شرکت کرنا تھی جو CENTO والوں نے ہاؤسنگ کے موضوع پر منعقد کیا تھا۔ یہ صرف ان کی ذاتی دلچسپی اور کوشش کے سبب ہی ممکن ہوا تھا ورنہ سرکاری افسروں کو باہر جانے کے لیے نوکر شاہی کے بنائے گئے لمبے چوڑے طریقہ کار سے گزرنا پڑتا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔